پاکستان، دنیا کی بہترین شکارگاہ

Arabs Hunting in Pakistan

Arabs Hunting in Pakistan

تحریر : ایم پی خان
یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے کہ عرب شہزادے پاکستان میں تلورکے شکار کے لئے آتے ہیںلیکن حالیہ دنوں میں قطرکے شہزادوں کاپاکستان میں تلور کا شکار میڈیا کاسب سے اہم موضوع بن گیا ہے۔ ایک طرف سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کامعاملہ زیرتجویز ہے اوراسی سلسلے میں قطرکے شہزادے کے خط نے پانامہ لیکس کے مقدمے کی نوعیت بدلنے میں اہم کردار ادا کر دیاہے۔ابھی مقدمہ اپنے ابتدائی مراحل میں ہے کہ قطرکے شہزادوں نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر تلورکے شکارکے منصوبے بنائے ہیں اوراس سلسلے میں قطرسے شاہی خاندان کے افرا دکاپہلا وفد پاکستان پہنچ چکا ہے۔ عرب شہزادے جب بھی پاکستان میں شکار کھیلنے آتے ہیں توپاکستانی حکومت دل ودیدہ فرش راہ کرکے انکا استقبال کرتی ہے اوربڑے اہتمام سے انکی خاطروتواضع کرتی ہے۔

حکومتی مشینری کے ساتھ ساتھ بے چارے پاکستانی عوام کاجذبہ میزبانی بھی قابل دیدہوتاہے۔سرسے پائوں تک خدمت گزاری کے جذبے سے سرشار کم سن لڑکیاں پاکستان کے صحرائوں میں مقیم عرب شہزادوں کے خیموں کو نوابان اودھ کے درباربنادیتی ہیںجبکہ حکومت کی طرف سے انکو ہرقسم کا تحفظ فراہم کیا جاتاہے۔ حکومت کاموقف ہے کہ عرب شہزادوں کو پاکستان میں شکارکھیلنے کے لئے اجازت نامے فراہم کئے جاتے ہیں ، جس کا حکومت کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کو بھی بہت فائدہ ملتاہے۔حکومت کایہ بھی موقف ہے کہ عرب شہزادوں کی آمدسے پاکستان کے دورافتادہ پسماندہ علاقوں میں ایک طرف عید کاسماں بنتاہے تو دوسری طرف وہاں ترقی، خوشحالی اور روزگارکے مواقع بھی پیداہوتے ہیں اور علاقے کے مکینوں کا معیار زندگی بہتر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

عرب شہزادوں نے پاکستان کے ان دوردراز علاقوں میں شکارکے بدلے ترقی کے کئی منصوبوں کی نویدبھی سنائی ہے ، جن میں اعلیٰ تعلیمی ادارے، بڑے بڑے ہسپتال اورمقامی نوجوانوں کو ویزے فراہم کرکے انہیں اپنے ملکوں میں اچھی اچھی نوکریاں دینا شامل ہیں۔چونکہ یہ تمام چیزیں فراہم کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے لیکن محدود وسائل اورحکومت کی عدم توجہی کے سبب ان علاقوں کے عوام زندگی کی بنیادی سہولیت کے لئے ترستے ہیں ۔ لہذا ان کی دم توڑتی ہوئی امیدوں کو عرب شہزادوں کی آمد سے زندگی کا سراغ ملتاہے۔اسی لحاظ سے عرب شہزادوں کاپاکستانی سرزمین میں شکار کھیلنا تو کافی حدتک سود مند نظر آتا ہے لیکن یہاں اس سے بھی زیادہ خطرناک قسم کے شکار کھیلے جاتے ہیں ، جن کاشائد کسی کوکچھ فائدہ ہو۔

Taliban

Taliban

دنیاکی خطرناک دہشت گرد تنظیمیں اورایجنسیاں پاکستان میں بے دردی سے انسانوں کا شکار کرتے ہیں اور یہ سلسلہ وقت کے ساتھ ساتھ تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس قسم کا شکار کھیلنے کے لئے کل بوشن سنگھ ، جوئل کاکس اور ریمنڈڈیوس جیسے لوگ پاکستان کی سرزمین پر اترتے ہیں اور بے دریغ انسانی قتل کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ تلور کے شکار سے حکومت، متعلقہ محکمے اور غریب عوام کے مفادات وابستہ کئے گئے ہیں لیکن جوئل کاکس، بوشن سنگھ اور ریمنڈڈیوس جیسے بے شمار غیر ملکی ایجنٹوں کے شکارسے کس کے مفادات وابستہ ہیں، اس امر کا تعین آج تک نہیں ہوسکا۔ ہندوستان، افغانستان اورایران کے ساتھ ملحقہ سرحدوں پر غیراعلانیہ طورپر ہمارے سیکورٹی فورسز پر حملہ ہوتے ہیںاورآئے دن کسی نہ کسی محاذپرہمارے نوجوان کسی نامعلوم دشمن کی درندگی کاشکارہوتے ہیں۔

اس پرمستزادشمالی علاقہ جات کے وہ معصوم عوام ہیں ، جن کاشکارڈرون طیاروں کے ذریعے کسی نامعلوم مقام سے ،نامعلوم دشمن کے ہاتھوں ہوتاہے اورکسی کو پتہ بھی نہیں چلتا۔دشمن کس قدرصفائی سے اپناشکاربھی کھیلتے ہیں اورشکارقوم کوپتہ بھی نہیں چلتا، کیونکہ دشمن شکارکرنے کے بعدہمارے سرپرہاتھ بھی پھیرتاہے۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجرپہ کوئی داغ
تم قتل کروہوکہ کرامات کروہو

وطن عزیز کے صحرائیںاگر تلورکے خون سے رنگین ہیں تودیہات اورشہروں کی گلیاں بھی معصو م شہریوں کے خون سے لہولہوہیں۔غیروں نے اگرسرزمین وطن کو شکارگاہ بنارکھاہے تواپنوں نے بھی کچھ کسرنہیں چھوڑی ہے۔چوری ، ڈکیتی ، قتل عام اوراغوابرائے تاوان تو ہمارے اپنوں ہی کے پسندیدہ کھیل ہیں۔کتنے معصوم بچے اپنوں ہی کے ہاتھوں جنسی تشددکاشکارہوتے ہیں ۔ ملک میںمتنوع قسم کے شکارکا نہ ختم ہونے والا کھیل دیکھ کرایسامحسوس ہوتاہے کہ یہاں لاقانونیت عروج پرہے۔ اگر قانون کی بالادستی ہوتی تو پاکستان دنیاکی بہترین شکارگاہ نہ بنتی بلکہ یہاں غریب اورمعصوم عوام کے ساتھ ساتھ تلوراوردیگرجنگلی حیات کو بھی تحفظ حاصل ہوتا۔

MP Khan

MP Khan

تحریر : ایم پی خان