رات سے نہ ہاریں گے

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : انجینئر افتخار چودھری

ہم پاکستانی ابھی ایک مورچہ جیتے ہیں ابھی سفر باقی ہے احتساب کے اس عمل کو سلام پیش کرتے ہیں مگر ابھی یہ عمل نامکمل ہے۔ابھی اور چور باقی ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے سفر شروع ہوا ہے اور اس سفر کے شروع ہونے پر ایک نعرہ یہ بھی لگائو کہ اس سفر میں ہم رکیں گے نہیں دوست کہتے ہیں مشرف کے خلاف احتساب ایک خواب ہے۔اگر یہ خواب ہے تو دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے بھی تو کہا تھا۔

میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں جو خواب دیکھتا بھی نہیں اور سوچتا بھی نہیں

اور فیصلہ آ گیا ملزم مجرم بن گئے دس سال ،سات سال،ایک سال دس ملین پائونڈ جرمانہ۔یہ تھا وہ فیصلہ اب تک میاں صاحب کہتے رہے کہ کہ میرا کیا قصور تھا ان کے ساتھی یہی شور مچاتے رہے کہ انہیں کیوں نکالا؟میاں صاحب کہتے رہے ایک اقامے کی بنیاد پر مجھے وزارت عظمی سے نکال دیا گیا۔نواز شریف کا یہ بیانیہ بہت بیچا گیا ہر جگہ یہی رونا کہ اس نے کیا کیا ہے اور اس کا قصور کیا کہ میاں نواز شریف کو اقتتدار سے رخصت دے دی گئی۔آج کا فیصلہ بتا رہا ہے کہ میاں صاحب آپ کا یہ قصور تھا ایون فیلڈز کے فلیٹ آپ نے خریدے مگر آپ ثابت نہ کر سکے کہ رقوم کہاں سے آئیں۔طویل کیس کے دوران عجیب منطقیں پیش کی گئیں عجیب فلسفہ پیش کیا گیا ۔وکیلوں نے رقمیں کھری کیں جو کوئی آیا اس نے تجوریاں بھریں اور ۔پاکستان سے دبئی ،دبئی سے جدہ،جدہ سے لندن رونا رویا گیا لیکن قطری خط کا تڑکہ لگانے کے بعد بھی یہ دال نہ بک سکی۔عدالتوں میں مذاق بن گئے یہ لوگ ۔اور آج کے اس فیصلے نے ثابت کیا کہ پاکستان میں قانون کا اگر جائز استعمال کیا جائے تو بڑا چھوٹا اس کے شکنجے میں آ سکتا ہے۔عمران خان جد وجہد کرتے رہے دھرنے دیتے رہے لیکن قوم کے ایک بڑے حصے نے ان کی بات نہیں سنی۔اور ایک روز یہ ہوا کہ اسلام آباد لاک ڈائون والے دن عدلیہ نے یہ کیس اپنے ہاتھ میں کیا۔عمران خان کو اللہ نے اتنی ہمت اور دلیری دی ہے ان کی انتھک کوشش نے آج قوم کو یہ خوشخبری سنائی کہ نہیں آپ کی لوی ہوئی دولت کو کوئی نہیں کھا سکتا۔ایون فیلڈز کے قیمتی فلیٹ جسن کے بارے میں اتنے جھوٹ بولے گئے کہ جھوٹ نے بھی پناہ مانگ لی۔ایک طرف پاکستان کا سوا تین سو ارب روپیہ لوٹنے والی نواز فیملی اور دوسری جانب اپنے تن پر چج کا لباس پہننے سے عاری قوم تھی۔

خواجہ آصف نے کہا قوم پانامہ بھول جائے گی۔مجھے خود یقین نہیں تھا وائس آف امریکہ نے جب مجھ سے سوال کیا کہ پانامہلیکس پر پاکستان میں تھر تھلی مچے گی آپ کا کیا خیال ہے ۔میں نے کوئی دو سال پہلے جواب دیا کہ جس ملک میں کرپشن گوڈے گوڈے ہو وہاں پانامہ وانامہ کیا ہو گا۔لیکن ایک عمران خان نتھے جنہوں نے اس پر مضبوط رائے قائم کی اور اسے اللہ کی طرف سے ایک تحفہ قرار دیا۔وہ اس موضوع کو لے کر میدان میں آئے جلسے کئے ریلیاں نکالیں اور بالاخر اس کیس کو عدالت نے اپنے ہاں قبول کیا۔بے شمار تاویلیں پیش ہوئیں۔پہلے پہل تو وزارت عظمی پر بیٹھے شخص کو اقامے کی بنیاد پر گھر چلتا کیا اور بعد میںکیس نیب کے حوالے کیا۔اس فیصلے تک پہنچنے میں نیب کے ان بہادر افسروں پر کیا گزری یہ الگ داستان ہے۔مگر جس تندہی سے انہوں نے کام کیا قوم انہیں سلام پیش کرتی ہے۔سچ پوچھئے اگر نوا شریف کے پاس میرے جیسا کوئی مشیر ہوتا تو وہ کبھی اس گند میں نہ پڑتے ۔لڑائی چار حلقوں سے شروع ہوئی تھی۔میاں صاحب کو وہ حلقے کھول دینے چاہئے تھے۔نہ اتنی لڑائی بڑھتی اور نہ وہ کھجل خوار ہوتے۔کم لوگوں کو علم ہے کہ میں نے جدہ میں قیام کے دوران میاں نواز شریف کو قریب سے دیکھا۔سن 2000میں بھی فوج کے بارے میں ان کے خیالات ٹھیک نہ تھے۔اس ساری لڑائی میں انہوں نے سب سے بڑا گند یہ کیا کہ پاکستان کی فوج کے ساتھ لڑائی مول لے لی۔وہ زبان بولی جو شائد مودی بھی بولتے ہوئے ججھکتا ہے۔صرف انہوں نے نہیں ان کے ارد گرد چیلے چانٹے سمجھے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کریں گے تو وزارتیں بھی ملیں گی اور ٹکٹ بھی۔پاکستان کی فوج جسے کبھی اسٹیبلشمنٹ اور کبھی ایمپائر کی انگلی اور کبھی خلائی مخلوق کہا گیا۔قوم سب کچھ برداشت کر لیتی ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ کبھی بھی وطن کے ان جوانوں کو جو سیاچین کے گلیشیئرز پر سبز ہلالی پرچم لہراتے نظر آتے ہیں کبھی کراچی میں ریاست کے خلاف ایک ریاست کے حامیوں کو کچلنے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں سوات وانا فاٹا بلوچستان کہاں کہاں یہ لوگ وطن کی خطر لڑ گئے مر گئے۔

ایک بار کا واقعہ میں بار بار لکھ چکا ہوں اوبرائے ہوٹل کے ریسٹوران میں مجھے میاں صاحب کے ساتھ افطاری کے بعد کھانے کا موقع ملا تو میاں صاحب نے سخت غصے میں ہمارے اس قومی ادارے کے بارے میں شدید الفاظ استعمال کئے۔میں نے انہیں منع کیا اور کہا کہ میاں صاحب ایک حوالدار کو سنبھال نہیں سکتے اور آپ پورے ادارے سے لڑائی مول نہ لیں۔اس بات کی گواہی شہباز شریف صاحب ملک مسعود اے پی پی والے دیں گے۔کہ یہ میں تھا جس نے انہیں ٹوکا ۔افسوس یہ ہے کہ پارٹی سربراہوں کے دائیں بائیں وہ لوگ طاقت پکڑ جاتے ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ہی نہیں ملاتے بلکہ ان کی ہر حرکت کو دست بستہ کھڑے ہو کر نگاہیں زمین پر جھکا کر تسلیم کرتے ہیں۔بادشاہوں اور حکمرانوں کا دن اس وقت برے شروع ہو جاتے ہیں جب وہ اپنے ارد گرد مداحوں حاشیہ نشینوں کو اکٹھا کر لیتے ہیں۔حضرت علی رض سے کسی نے کہا کہ آپ سے پہلے خلفاء کا دور پر امن تھا انہوں نے کیا خوبصورت جواب دیا کہ ان کے مشیر ہم تھے اور ہمارے مشیر تم ہو۔مراد یہ تھی کہ مشیر بیڑہ غرق کرتے ہیں۔میاں صاحب کا پہلا دور جب وہ مشرف کے ساتھ ٹکرائے تو مشاہد حسین جیسے لوگ انہیں کہتے رہے میاں صاحب کڈ کڑاکے دئیو ۔مجھے سچ کہتے ہوئے کوئی باق نہیں۔میں کوئی بڑا شخص نہیں ہوں مگر اللہ نے مجھے ان حکمرانوں سے بات کرنے اور ان کے ساتھ بیٹھنے کے لاتعداد مواقع دیئے۔قصر الضیافہ میں میں جاتے ہوئے ایک شام میاں صاحب کہنے لگے کہ چودھری صاحب دیکھیں لوگ مجھے کہتے تھے کہ میاں صاحب قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔اللہ کی قسم میں نے جواب دیا میاں صاحب یہ آپ کے ساتھی تھے یہ لٹیرے تھے یہ اب جنرل مشرف کے ساتھ اس لئے ہیں کہ ان کو لوٹا ہوا مال پسند ہے۔آپ کا ساتھ وہ دے گا جو کنگلہ ہو گا جس نے گھر سے لگایا ہو گا۔

دوستو! پارٹیوں کے نام مخلتلف ہو سکتے ہیں لیکن کردارا وہی ایک ہوتے ہیں ہر پارٹی میں مصاحب یہی کچھ کرتے ہیں۔مجھے روک لیجئے ورنہ میں وہ سب کچھ کھول ڈالوں گا جو میاں صاحب کی بربادی کا باعث بنا اور جو بی بی کو لے ڈوبا۔دل پر ہاتھ رکھ کر کہیئے بی بی کو کس نے مارا۔بی بی کے قاتل کون تھے؟کس نے اس قتل سے فائدے حاصل کیئے۔ایک مفرور ہو جائے تھانے دار ساری ثوری شدہ مرغیاں اس پر ڈال دیتا ہے ہمارا مفرور طالبان تھے جو کبھی ہمارے ماں جائے تھے امریکہ نے ان سے کام لیا اور جب کام ہو گیا تو دھتکار دیا وہ لوگ جو ڈالروں کی نشے میں روس سے ٹکرائے انہیں ہم نے مفرور ٹھہرا دیا اور ہر بندہ جو قتل ہوا اور ہر بڑا جرم جو سرزد ہوا ان پر ڈال دیا۔یہی کہانی ہے ہماری بد بختی کی ہماری عافیہ کس نے امریکہ کو دی۔ہم اس کی ایون ریڈلی کو حسبن سلوک سے مسلمان کر لیتے ہیں اور وہ امریکی جن کی اکثریت کو اپنے باپ کے نام کا نہیں پتہ وہ اس پر جنسی تشدد کر رہے ہیں۔سزا تو میاں ساحب کو دے دی گئی اور بلکل درست سزا دی گئی لیکن پاکستان کے بائیس کروڑ لوگوں میں سے کئی کروڑ آج سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا جنرل مشرف کو کوئی سزا دے گا؟یہ ایک ایسا سوال ہے جو انجینئر افتخار چودھری ہی اٹھائے گا۔کیا اس ملک کا معروف لٹیرا جس نے اربوں کی کرپشن کی جس کی زندہ مثال ایان علی کیس ہے ڈاکٹر عاصم کیس ہے۔کیا اسے کوئی سزا دے گا۔

یہ سوال ہے اور اس سوال کا جواب تو یہ ہے کہ چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔
آج دنیا خوش ہے کہ میاں نواز شریف کو اس کے کرموں کی سزا مل گئی ہے۔اس کے وہ بیٹے جو اپنے باپ کو مشکل میں چھوڑ لندن بھاگ گئے ۔ان کی بیٹی مریم جو باپ کے ساتھ چلی گئی اور مشرقی بیویوں کے منہ پر کالک مل دی۔اس کا میاں جو مانسہرہ سے نوکری کرنے گیا تھا اور وزیر اعظم کا داماد بن لر لوٹا۔اب وہ چکی پیسنگ پیسنگ کرے گا۔بے چارہ صفدر جدہ میں ہمارے سامنے اپنے دکھڑے سنایا کرتا تھا اس گھر میں میاں شریف اس کی عزت کرتے تھے۔اب وہ کسی جیل میں دن پورے گا۔سال کی بات ہے وہ تو کاٹ لے گا امگر جن کے لئے فرزندہزارہ رل گیا وہ تو ادھر ہی رہیں گے۔

حکومت پاکستان کا فرض ہے وہ نواز شریف،اور مریم کو برطانیہ سے منگوائے اور انہیں جیل میں رکھے۔

اس کے ساتھ ساتھ جو مطالبہ کر رہا ہوں اس پر بھی عمل کیا جائے۔جنرل مشرف پر قائم مقدمات کا بھی فیصلہ کیا جائے اور آصف علی زرداری پر بھی ٹائم بار والے سارے مقدمات چلائے جائیں۔
پاکستان میں نئے موسم کا آغاز ہوا ہے وہ لوگ جن تک قانون کے لمبے ہاتھ نہیں پہنچ سکتے تھے آج کے اس فیصلے سے ثابت ہوا کہ کہ اگر عدالتیں مضبوط ہوں ان کے پیچھے طاقت جو سیسیہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہو تو ایسے ہی فیصلے آتے ہیں۔میرا خیال ہے مسلم لیگ نون کے حامی بھی یہ جان چکے ہیں کہ واقعی میاں نواز شریف نے ہمارے پاکستان کو کنگلہ کیا ہے۔آج پاکستان کی معاشی حالت دگرگوں ہے۔قوم کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ لوٹی ہوئی دولت کی پائی پائی پاکستان واپس لائی جائے۔قوم اس ملک کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتی ہے۔مجھے دلی افسوس ہو رہا ہے 1977میں جب جدہ گیا تو پاکستانی روپے کی قیمت ریلا کے مقابلے میں2.75روپے تھی اور آج32 روپے کے قریب ہے۔ہم بنگالیوں پر ہنسا کرتے تھے جن کا ٹکہ ایک ریال کے مقابلے میں12کے برابر تھا۔ہم اقتصادی طور پر تو گرے ہی لیکن اخلاقی طور پر بھی دیوالیہ نکل گیا۔عافیہ صدیقی کو 86 سال سزا ہوئی ہم کچھ نہ ر سکے ریمینڈ ڈیوس کچل کے چلا گیا ہم کچھ نہ کر پائے اور حال ہی میں گوکینہ کے جوان کو کچل دینے والا کرنل جوزیف چلا گیا۔

جو قومیں مقروض ہوں اور ادھار پر گزارا کرنے والی ہوں ان کے ساتھ یہی برتائو ہوتا ہے۔لیکن پاکستانی قوم تو غیرت مند ہیں ان کے حکمران بے حس ہیں جو اپنی تجوریاں تو بھر گئے مگر قوم کو اس گڑھے میں دھکیل گئے جہاں سے نکلنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔آج کے فیصلے پر جشن منانے والوں میں میں بھی شامل ہوں مگر اے جشن طرب منانے والو ابھی سوال باقی ہے ابھی مشرف زرداری اور خود ہماری صفوں میں شامل لٹیرے باقی ہیں۔ابھی سحر نہیں ہوئی۔میری ایک ہی بات ہے اور وہ آپ سن لیں۔ایک ڈاکو ایک چور کی سزا پر بھنگڑا نہیں ڈال سکتا ۔ابھی ایک مورچہ جیتے ہیں ابھی سفر باقی ہے احتساب کے اس عمل کو سلام پیش کرتے ہیں مگر ابھی یہ عمل نامکمل ہے ۔ابھی اور چور باقی ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے سفر شروع ہوا ہے اور اس سفر کے شروع ہونے پر ایک نعرہ یہ بھی لگائو کہ اس سفر میں ہم رکیں گے نہیں دوست کہتے ہیں مشرف کے خلاف احتساب ایک خواب ہے۔اگر یہ خواب ہے تو دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے بھی تو کہا تھا۔
میں ایسے شخص کو زندوں میں کیا شمار کروں جو خواب دیکھتا بھی نہیں اور سوچتا بھی نہیں

Engineer Iftikhar Chaudhary Logo

Engineer Iftikhar Chaudhary Logo

تحریر : انجینئر افتخار چودھری