ڈھائی لاکھ پاکستانی کارکنوں کی وطن واپسی

Peoples in Airport

Peoples in Airport

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کی حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق 2012ء سے 2015ء کے دوران بیرون ملک کام کرنے والے لگ بھگ ڈھائی لاکھ پاکستانیوں کو مختلف ملکوں سے وطن واپس بھیجا گیا۔

یہ بات روزگار کے سلسلے میں ملک سے باہر جانے اور واپس بھیجے گئے پاکستانیوں کی صورت حال سے متعلق 2015ء کی رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔

‘لیبر مائیگریشن فرام پاکستان، سٹیٹس رپورٹ’ کے مطابق 2012ء اور 2015ء کے دوران زیادہ تعداد میں پاکستانیوں کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے واپس بھیجا گیا جب کہ دیگر ملکوں میں ایران بھی شامل ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران بیرون ملک سے واپس بھیجے جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور صرف 2014ء میں 77 ہزار ایسے پاکستانی بیرونی ملکوں سے واپس نکالے گئے جو روزگار کی تلاش میں ملک سے باہر گئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق زیادہ تر خلیجی ممالک سے واپس آنے والے پاکستانیوں کو سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے وطن واپس بھیجا گیا ہے۔

دنیا کے کئی دیگر ملکوں کی طرح پاکستان کو بھی اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے غربت اور بے روزگاری کے چیلنجوں کا سامنا ہے جبکہ ملک میں روزگار کے مواقع کم ہیں اور اسی وجہ سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی روزگار کے لیے بیرون ملک خصوصاً مشرقی وسطیٰ کے ممالک جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض یورپی ملکوں میں بھی جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

تاہم گزشتہ چند سالوں کے دوران دیگر ملکوں سے ملک بدر کیے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ سالوں میں اس رجحان میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے جسے مبصرین ملک میں میسر روزگار کے کم مواقع کی وجہ سے باعث تشویش قرار دے رہے ہیں۔

حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی اور امور خزانہ کے پارلیمانی سیکرٹری رانا محمد افضل نے کہا کہ ان پاکستانیوں کی ملک واپسی ان کی لیے بھی ایک تشویش کی بات ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران لگ بھگ 23 لاکھ پاکستانی روزگار کے لیے ملک سے باہر گئے ہوئے ہیں۔

” مشرق وسطیٰ میں تعمیراتی کام کم ہو رہے ہیں اور اس لیے جو تعمیراتی صنعت سے منسلک لوگ تھے ان کے واپس آنے کے امکانات ہیں۔ ہم اس (صورت حال) کو دیکھ رہے ہیں اور پاکستان کے اندر بھی جتنے لوگ واپس آتے ہیں انہیں نوکری نہیں چاہیئے ہوتی وہ اپنے طور پر کام کرنا پسند کرتے ہیں وہ چھوٹے چھوٹے کاروبار کرتے ہیں اور ہم اس صورت حال پر قابو پا لیں گے۔”

تاہم حزب مخالف کی ایک جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر اور سمندر پار پاکستانیوں اور انسانی وسائل کی ترقی کی سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے سربراہ باز محمد خان نے کہا کہ ملک میں پہلے ہی بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے اور بیرون ملک سے واپس آنے والے پاکستانیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

“اتنی تعداد میں خلیج کے ملکوں اور یورپ سے لوگ واپس آرہے ہیں اس کا پاکستان کی معیشت پر برا اثر پڑے گا کیونکہ یہاں غربت بہت زیادہ ہے یہ جو لوگ پاکستان سے اور خاص طور پر خیبر پختونخواہ سے جو لوگ گئے وہ یہاں سے غربت کی وجہ سے گئے ہیں کیونکہ یہاں کارخانے نہیں ہیں اور آمدن کے ذرائع بھی نہیں ہیں۔”

حال ہی میں عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹس میں بتایا گیا کہ پاکستان کی معیشت میں گزشتہ چند سالوں سے بہتری آ رہی ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ اس تشویش کا بھی اظہار کیا گیا کہ ملک کی آبادی کی بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے جنہیں روزگار فراہم کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ جب ملک میں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہو۔

تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ حالیہ ملک میں امن و امان کی بہتر ہوئی صورت حال اور توانائی کے منصوبوں پر عمل درآمد سے ملک میں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہو گا۔