ہم ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے

English language

English language

تحریر : فرح دیبا ہاشمی
پاکستانی عوام آزادیء جمہور اور ترقی کے نعرے لگاتی ہوئی بہتر معیار زندگی کے لئے کوشاں ہے۔ مگر ان کی ترقی کے پیمانے اور انداز میری سمجھ سے بالاتر ہیں ۔ہر پاکستانی ماڈرن اور ترقی یافتہ نظر آنے کے لئے مغرب زدہ طرز حیات اپنائے ہوئے ہے ۔بدن پر مغربی لباس ،زبان پر انگریزی الفاظ سجا کر ، مشرقیت کو مکمل طور پر اپنی عملی زندگی سے بے دخل کر کے جو آزادی کا نعرہ ہم بلند کر رہے ہیں وہ دراصل غلامی کا نقارہ ہے موجودہ دور میں ہم ہر لمحہ اپنے طرز عمل سے یہ اعلان بر ملا کر رہے ہیں کہ ہم آج بھی انگریز سرکار کے زیر اثر ہیں۔تبھی تو آج تک اس کا قانون اور نظام تعلیم اپنا کر حق غلامی ادا کر رہے ہیں۔ وہی انگریز جس نے تجارت کے بہانے سے بر صغیر میں گھس کر سب سے پہلے ہمارا نظام تعلیم بدلا اور انگریزی زبان کی اجارہ داری قائم کر کے بر صغیر میں انگریزی غلاموں کی فصل بوئی جس کی پیداوار تا حال بڑھ رہی ہے۔ حالانکہ یہ وہی قوم ہے جس نے برصغیر پر قبضہ کر کے اپنے دفاتر اور اہم عمارات پر جلی حروف میں یہ لکھا تھا Indians and dogs not allowd اس دور حکومت میں وطن پرست اور دین پرست مسلمانوں کی زندگی جانوروں سے بد تر تھی انگریز نے حکومت چھوڑنے کے باوجود اپنا اقتدار قائم رکھا اور جاتے جاتے Indians کے گلے میں انگریزی collar پہنا گیا ۔ جس کی پاسداری کو پاک و ہند کے ہر فرد نے اپنے ذمے فرض عین سمجھ رکھا ہے۔ دونوں اقوام میں آزادی کے بعد بلا شبہ انگریزی ہی واحد جنس مشترک ہے۔

ہندوئوں کے انگریزی اپنانے کی وجہ ان کی زبان کا مشکل ، مبہم اور بھارت تک ہی محدود ہونا ہے ۔ تو محدود زبان والے اپنی زبان چھوڑ کر اردو اپنائیں یا انگریزی ۔۔۔۔۔! افسوس ناک اور شرمناک بات یہ ہے کہ میرے ہم وطن بھی مغرب پرستی میں اردو زبان اور اسلامی طرز حیات سے روگردانی کرتے ہوئے مشرقی لباس پہننا ،دوپٹہ اوڑھنا اور اردو بولنا پسماندگی کی علامت سمجھتے ہیں ۔ ستر سال پہلے چلا جانے والا انگریز (آقا )آج بھی ذہنوں پر حکومت کر رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم انگریزی لباس اور لہجے والے کو ہی تعلیم یافتہ اور ماڈرن سمجھتے ہیں ۔ انگریزی الفاظ کا اردو میں اسی تلفظ کے ساتھ استعمال کر کے ہم اپنی زبان کی کم مائیگی کا اعلان کر رہے ہیں اور دامن زبان اردو کی توہین بھی ۔ کم از کم تلفظ ہی اردو بنا لیں جیسے Madam سے مادام ۔دنیا کے تمام ممالک میں بسنے والے زبان غیر کو اپنے تلفظ اور لہجے میں بولتے ہیں ماسوائے پاکستان اور بھارت کے ۔مسئلہ صرف انگریزی تلفظ سے متاثر ہونے کا ہی نہیں ہم اپنی زبان کے لئے اتنے بے حس اور لا علم ہیں کہ انگریز نے ہماری کھاٹ کو Cot کہا تو ہم نے اسے انگریزی Cot ہی مان لیا اور اس پر اردو کھاٹ کے اجارے کا دعوی بھی نہیں کیا ۔قومی زبان کی زبوں حالی کا اندازہ اردو میں رائج انگریزی الفاظ سے ہوتا ہے۔

اردو کے ابتدائی قائدے میں اپنی زبان سے روگردانی برتتے ہوئے انگریزی زبان کے مروجہ حروف کو استعمال کر کے ہم اپنی قومی زبان کی دانستہ توہین کر رہے ہیں مثال کے طور پر الف سے ۔۔ آئیس کریم ،ب سے۔۔بوٹ ، ٹ سے ۔۔ٹیلی ویژن، ٹریکٹر ،ٹرک ، ج سے ۔۔ جیکٹ ،جیپ ،ز سے۔۔زپ ،و سے ۔۔وین ،ہ سے ۔۔ہیلی کاپٹر اور ی سے ۔۔ یاک وغیرہ تو یہ ذہانت نہیں نالائقی ہے کہ اردو قائدہ انگریزی الفاظ سے سجایا جا رہا ہے ۔اردو حروف تہجی سے بے شمار اردو الفاظ بنتے ہیں جو لکھے اور پڑھائے جا سکتے ہیں مگر شائید نصا ب ساز پالیسیاں بھی اردو سے روگردانی کے اصول پر عمل پیرا ہیں ۔سرکاری اور نجی اداروں میں اردو کو دوسرے درجے کی زبان اور مضمون سمجھا جاتا ہے۔

Urdu language

Urdu language

تعلیمی اداروں میں اردو کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کا درست استعمال ،ترویج اور اصل مقام کا تعین تبھی ممکن ہے جب نصاب ساز ادارے اس پر سنجیدگی سے توجہ دیں گے اور اساتذہ کرام اردو کو اپناتے ہوئے درست طریقہ تدریس اختیار کریں گے ۔اکثر سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ اردو زبان کی تدریس کچھ اس انداز سے کرتے ہیں ،Students اپنی اردو کی Books کھولیں ہم آج Lesson نمبر Fourکے Short questionsپڑھیں گے اور اپنی Copies بھی ساتھ ہی Class work کے لئے Ready کر لیں ۔

اگر یہی رویے رہے تو سیکھ چکے ہم اردو ۔۔۔۔!!!
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
ہم ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے

اگر اساتذہ ہی اپنی قومی زبان کو کمتر اور پسماندہ سمجھ کر اس سے اجتناب کر کے زبان غیر میں گفتگو پسند کریں گے تو نسل نو کس طرح قومی زبان کی اہمیت اور مقام سے آشنا ہو گی ؟؟؟بات صرف اردو سے احتراز اور انگریزی کے استعمال کی نہیں ،ہماری نسل نو کے انگریزی پرست قومی زبان کو لکھنے اور بولنے میں اس کی دھجیاں اڑا رہے ہیں لفظ کتابچہ کو کتا ،بچہ پڑھتے ہیں اور بھائی کو بہائی لکھتے ہیں اردو تلفظ اور املاء کے غلط العام ا ستعمال کو پھر کبھی زیر بحث لائوں گی فی الحال میں اردو انگریزی دوراہے کی بات کو آگے بڑھاتی ہوں ۔اردو کی ترویج اور درستی کو تعلیمی اداروں سے بھی شروع کیا جائے تو خاطر خواہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔انگریز نے بھی تو ہمارے ذہنوں پر سوار ہونے کا یہی راستہ ا پنایا تھا یعنی نصاب تعلیم اور نظام تعلیم ۔تعلیمی اداروں میں اردو کے اساتذہ روز مرہ الفاظ کو اس طرح بولیں مثلا Black board اور White board کو تختہ سیاہ ،تختہء بیضا یا تختہء مشق ،Dairyکو روزنامچہ ، Period کو دورانیہ،Seat کو نشست اور Practice کو مشق ۔۔۔۔ تو طلباء بھی بے جھجھک اردو بول پائیں گے ۔اساتذہ کی اردو پرستی مدارس تک محدود ہے۔

اردو کا نفاذ اور ترویج اب بھی حکام بالا کی مرہون منت ہے جو خود اسمبلیوں میں بے ربط اور گلابی انگریزی کے مظاہرے کرنے پر بھی نفاذ اردو پر توجہ نہیں دے رہے ۔قارئین کرام ہمسایہ ملک پاکستان دشمنی کے با وصف ہماری ہی زبان میں فلمیں بنا کر انہیں ہندی فیچر فلموں کے نام سے ریلیز کرتا ہے حالانکہ اس میں ہندی یا سنسکرت کے دو چار الفاظ ہی ہوتے ہیں ۔ ہماری زبان میں اتنی وسعت اور اپنا پن ہے کہ دشمن بھی اپنائے ہوئے ہے پھر کیوں ہم قومی زبان سے سوتیلوں والا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں ۔ پاکستانی عوام بحثیت مجموعی انگریزی زبان و فکر اپنانے کو ترقی سمجھتے ہیں جبکہ ترقی کرنے کے لئے لباس و زبان نہیں سوچ بدلنے کی ضرورت ہے ۔مگر افسوس !!! عام آدمی سے ارکان اسمبلی تک ہر کوئی اردو کے آسمان سے گر کر انگریزی کی زمین پر قدم جمانے کی کوشش میں کسی درمیانی کھجور پر اٹک کر رہ گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عدالت عظمی کے حکم پر بھی پاکستان میں نفاذ اردو کا خواب پورا نہ ہو سکا ۔ ایک عرصہ بعد گذشتہ ماہ کی پچیس تاریخ کو ایڈیشنل چیف سیکریٹری پنجاب نے تمام سرکاری اور غیر سرکاری محکموں میں اردو کے فوری نفاذ کے قلیل المیعاد اقدامات کرنے کا سلسلہ جاری کیا ہے جس کے تحت افسروں کے ناموں کی تختیاں اردو میں تحریر ہوں گی ،تمام محکمے اپنے بل اور گوشواروں پر انگریزی کے ساتھ اردو ترجمہ شائع کریں گے۔

لاہور بھر کی عدالتوں اور سرکاری محکموں کی ویب سائٹس کا اردو پیج بنا کر تمام معلومات اردو میں فراہم کی جائیں گی ( جو تا حال ممکن نہیں ہو سکا ) میں دعا گو ہوں کہ اب کی بار نفاذ اردو کا خواب شرمندہء تعبیر ہو جائے ( آمین ) میری ایڈیشنل چیف سیکریٹری صاحب سے گزارش ہے کہ جناب عالی آپ کے اقدام اور احکامات قابل ستائش ہیں مگر اس کٹھن کام کے لئے محض احکامات کافی نہیں ہیں عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے ۔ جن میں اردو دارالتراجم کا قیام ، اعلی تعلیمی اور تیکنیکی ڈگریوں اور کورسز کا اردو میں اجراء ناگزیر ہے ۔ کیونکہ جب نفاذ اردو کا خواب شرمندہء تعبیر نہ ہو گا تو ہم اپنی کم فہمی اور زبان کی کم مائیگی پر شرمندہ رہیں گے ۔ میری دلی دعا ہے کہ وطن عزیز کے اعلی حکام اس قدر حب الوطن اور اردو پرست بن جائیں کہ بیرون ملک جا کر بھی اردو میں بات کریں اور سعودی فرمانروائوں کی طرح زبان غیر کا مترجم ہمراہ رکھیں کیا یہ ممکن ہے ۔۔۔۔!!! ؟؟؟

Logo Farah Deeba Hashmi

Logo Farah Deeba Hashmi

تحریر : فرح دیبا ہاشمی
Mail; Darenigahse92@gmail.com