پلندری سے ہولی فیملی ہسپتال تک

Palandri

Palandri

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
حادثات جب آتے ہیں تو پھر پوچھ کر نہیں آتے انسانی غلطیوں سے بھی آتے ہیں ۔ آفاقی اور آسمانی آگ پانی سے بھی اچانک رونما ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ ان کی نظر ہوتے ہیں۔ وہ اور ان کے اپنے بس تڑپتے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہمارا پیارا خوش شکل گیارہ سالہ بیٹا سیف اللہ بھی آگ کے حادثے میں شدید طور پر جھلس گی اس کا چہرہ ہاتھ بازو بری طرح متاثر ہوئے اس رات نو بجے گیس چولھا لیکیج ہوا سیف اللہ نے چولھے کا بٹن آن کر دیا چولھا بھڑک اٹھا اس کا چہرہ کپڑے اس نا مراد آگ کی نظر ہو گئے اس نے خود ہی ہمت کی اپنے نازک ہاتھوں سے اپنے کپڑوں سے آگ بجھائی باہر آیا۔ مگر تب تک آگ نامراد اپنا کام کر چکی تھی۔ ہمارا پیارا سیف اللہ اپنا منہ ہاتھ بازو جلے ہوئے کھڑا رہا اور ہم ہاتھ ملتے رہ گئے فوری پلندری ڈسٹرکٹ ہسپتال لے کر گئے۔

وہاں موجود ڈاکٹر نے سرسری نظر ڈالی گلوکوز پانی س صفائی کا حکم دیکر وہ اپنی ایزی چیز پر جا بیٹھا خوش گوئیاں کرتا رہا اور راولپنڈی ہولی فیملی ہسپتال کے لئے ریفر فارم ہمارے ہاتھ میں تھما کر مبلغ تین ہزار ایمبولینس چارج کا حکم دے کر ڈرائیور کے حوالے کر دیا بعد میں پتہ چلا کہ یہاں تو دن رات ایمر جنسی میں ہر دوسرے آنے والے مریض کو راولپنڈی کے ہسپتالوں میں ریفر کر کے یہ خود چین کی نیند سو جاتے ہیں۔ ڈاکٹری پیشے کی توہین کرتے ہیں۔ خیر ہم اتوار کی صبح راولپنڈی ہولی فیملی پہنچے ایمر جنسی والوں نے لے تو لیا مگر اتوار کی چھٹی آڑے آئی برن سنٹر کے ڈاکٹرز اکثر چھٹی پر تھے۔ اڑتالیس گھنٹے سوائے ڈریس انجیکشن کے علاوہ علاج شروع نہ ہو سکا۔ ہمارا سیف اللہ خطرے میں ہی رہا۔ اگلے دن پیر کی صبح اس کا علاج شروع ہوا۔ ڈریسنگ ہوئی جلی ہوئی چمڑی اتاری گئی اور اسے برن سنٹر کی وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ برن سنٹر میں پہنچ کر دوسرے آگ کے شکار مریضوں اور انکے اہل خانہ کی آہ و سسکیوں کو دیکھ کر ہم اپنا درد بھول گئے ۔ برن سنٹر کے انچارج ڈاکٹر حسنین جو کہ بڑے ہی ملنسار شفیق انسان ہیں اپنے سارے چاق و چوبند عملے کے ساتھ ایک ایک مریض کے پاس جاتے علاج تجویز کرتے مریضوں کو حوصلہ دیتے۔ ڈاکٹر علی صاحب اور انکے ساتھی بڑے قابل ڈاکٹرز ہمہ وقت تیار ہم سب کا حوصلہ بڑھاتے اس سنٹر کا سارا عملہ خصوصا حسین و جمیل پڑھی لکھی نرسیز دن رات اپنا کام خوش اسلوبی سے کرتیں ہنستی مسکراتی مریضوں کا حوصلہ بڑھاتیں ۔

اور تو اور اپریشن تھیٹر کا عملہ اور ڈریسنگ کے ماہر میل نرسیز بڑے آرام سے ہر مریض کی ہر تیسرے دن پٹی بدلتے قارئین ہولی فیملی ایک ہسپتال ہیں نہیں ایک مکمل ادارہ ہے ۔ بحیثیت ایک صحافی میں نے وہاں ان آیام میں ہر شعبے کا جائزہ لیا۔ جنرل میڈیکل ہیلتھ کے علاوہ گائنی کا زچہ بچہ سینٹر جہاں ہر روز درجنوں نو مولود اس دنیا میں اتے ہیں وہاں کا عملہ اور فی میل لیڈی ڈاکٹرز ماہر انہ انداز سے اپنا کام سر انجام دیتی ہیں۔ ٹریفک حادثوں کے شکار مریضوں کے ڈیلی کئی اپریشن اور صفائی ستھرائی نے ہمیں کافی متاثر کیا۔ خصوصا حسین و جمیل مسجد ٹھنڈے فلٹر شدہ پانی ساتھ دبنے ہوئے ایک بہت بڑے شیڈ جس میں سینکڑوں عورتیں مرد بچے مریضوں کے ساتھ آئے ہوئے بے بس اور بے کس لوگ آرام اور استحارہ فرما رہے ہیں۔ جن کو دووقت کا بہترین کھانا اور ناشتہ مفت مہیا کیا جاتا ہے۔ اس کا ر خیر میں راولپنڈی ہی کی دو شخصیات اور ملک ریاض کی بحریہ نیکیاں سمیٹ رہی ہیں۔

حتی کہ تمام وارڈز میں بھی دو وقت کا کھانا اور ناشتہ مریضوں کو روزانہ تقسیم کیا جاتا ہے۔ یوں تو اللہ ہر کسی کو تما م حادثات اور امراض سے محفوظ رکھے اللہ اس آزمائش میں کسی کو نہ ڈالے مگر قدرت کا لکھا ہوا کون ٹال سکتا ہے۔ الحمدا للہ آج ہمارا سیف اللہ بہتر ہو رہا ہے بول چال کر رہا ہے۔ کھا پی رہا ہے اپنے بیگانوں کی دعائوں کا اثر اور میرے اللہ کا فضل ہم اسکا لاکھ شکر ادا کر رہے ہیں۔ آپ سب کو اور سب کے بچوں کو اللہ اپنی حفاظت اور امان میں رکھے آمین۔ اور پھر سے راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال کے برن سنٹر کے انچارج ڈاکٹر حسنین ڈاکٹر علی اور انکے ساتھی ڈاکٹروں اور تمام عملے کا شکریہ اللہ انہیں جزائے خیر دے اگر ملک بھر کے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز ایسے ہی رویے اور اپنے مریضوں سے برتائو کریں ۔ بحیثیت کے اس پیشے کا حق ادا کریں تو پھر کیا ہی بات ہے۔ خصوصا گزارش ہے ہمارے ڈسٹرکٹ ہسپتال پلندری کے ڈاکٹرز اورعملہ ان کی تقلید کریں برتائو کریں ہر کس و ناکس کو اپنے سر سے اتار کر راولپنڈی نہ دھکیلیں غریب مریضوں کی دعائیں سمیٹیں اللہ کی خوشنودی حاصل کریں۔ اپنی تنخواہیں حلال کریں پھر ہم سب کے ہاتھ ان کے لئے بھی ضرور اسی طرح اٹھیں گے۔ اسی میں ان کے لئے دنیا و آخرت میں فلاح ہے۔ انشاء اللہ
بیٹھا کے یار کو رات بھر پہلو میں غالب جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں۔
ڈگریاں لے کر مسیحا کی کام جلاد کا کرتے ہیں۔

Haji Zahid Hussain Khan

Haji Zahid Hussain Khan

تحریر : حاجی زاہد حسین خان ممبر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ
hajizahid.palandri@gmail.com