فلسطینی بھائی کا مسجد اقصیٰ کے دروازے سے ایک تصوراتی خط

 Masjid Aqsa

Masjid Aqsa

تحریر : صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی
گزشتہ دنوں مجھے فیس بک (سوشل میڈیا) کے ذریعے میری آئی ڈی پر ایک مسلمان فلسطینی بھائی کادرد ناک تصوراتی خط موصول ہواجس میں بالخصوص کشور حسین ، مرکزِ یقین ، پاک سر زمین اسلامی جمہوریہ پاکستان اور بالعموم پوری اُمت مسلمہ کے مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے ہم نے بھیگی پلکوں ، دھڑکتے دل ،سوچتے ذہن اور لرزتے ہونٹوںکے ساتھ درد سے بھرا اور سوز و گداز میں گوندھا خط پڑھتے ہوئے بغیر کسی قط و بُرید کے من و عن سُپرد ِ قرطاس کر دیاہے ۔لہذا آئیے سب مل کر خط پڑھنے کا حوصلہ کرتے ہیں

پوری دنیا کے پیارے مسلمان بھائیو :
السلام علیکم :اُمید ہے آپ سب لوگ خیریت سے ہوں گے آپ کے بچے بھی ٹھیک ہوں گے انہیں دودھ بھی مل رہا ہو گاوہ میٹھی نیند بھی سو رہے ہوں گے اورآپ کا کاروبار اور ملازمتیں بھی ٹھیک چل رہی ہوں گی ، اللہ تعالیٰ اپنے کریم محبوب ۖ کے صدقے آپ کے آنگن کو مزید خوشیوں سے بھر دے اورآپ کے لیے آسانیاں عطا فر مائے ، بس اس شدید سرداور ٹھٹھرتی رات میں ہم لوگ مسجد اقصیٰ کے دروازے پر بیٹھے کسی صلاح الدین ایوبی کا انتظار کر رہے ہیں ، ہماری مائیں کسی محمد بن قاسم کی راہ تک رہی ہیں ، دل مغموم ہیں ، دکھی ہیں اقصیٰ کی سجدہ گاہ نا پاک اسرائیلی قدموں کے نیچے آنے سے بچانے کے لیے اپنی سی کوشش کر رہے ہیں ، ہمارے گھر بارود برسا کر گرا دیئے گئے ہم نہیں روئے ، ہمارے اپنے مصری بھائیوں نے ہمارے قاتلوں کے کہنے پر ہمارے معصوم بچوں کی دوائوں اور گندم کے دانے ہم سے چھین لیے ہمارے راستے بند کر دیئے ہم کچھ نہیں بولے ، ہماری زمین پر قبضہ ہو گیا ، ہم لڑتے رہے ، کسی سے کچھ نہیں مانگا اس سب کچھ کے باوجود ہم نے اپنے سکول بند نہیں ہونے دیئے ایسا نہ ہوتا تو آخر مزاحمت کی تحریک کو خون کہاں سے مل پاتا ، ہم نے اپنے نوجوانوں کو لبرم ازم اور عرب نیشنل ازم سے نکال کر مزاحمت کار بنا دیا ہم نے آپ سے نہ کتابیں مانگیں نہ اپنے بچوں کے لیے پنسلیں اور کلرنگ کا پیاں ۔۔۔۔۔۔ہماری لڑائی تھی ہم لڑ گئے ، مزاحمت کے ہر میدان کو خون سے گلزار کیا اور اُمت مصطفویۖ کے وہ بوجھ بھی اُٹھائے جو واجب بھی نہیں تھے مسجد اقصیٰ کی پہرہ داری کرتے ہوئے اس سخت سرد رات کی قسم ہم اپنا آخری جوان بھی اور خون کا آخری قطرہ بھی بہا دیں گے آپ سے کچھ نہیں مانگیں گے ہاں،،،،،مگر کبھی کبھی تنہائی کے کسی لمحہ میں ہمارے بچے اور ہم اُفق کی طرف دیکھتے ہیں کہ شاید ایٹمی پاکستان سے کسی لشکر کی گرد کے بادل نظر آجائیں ، ٹی وی کھولتے اور دیر تک نیوز چینلز پر کسی مسلم حکمران کا بیان تلاش کرتے رہتے ہیں کہ شاید کسی نے اسرائیل کی ناکہ بندی کا فیصلہ کر لیا ہو سوچتے ہیں وہاں شاید اپنے اکابر کے رستوں پر چلنے والوں کا کوئی قافلہ ہم تک بھی پہنچے گا اور کچھ نہیں تو بیس کروڑ کے ملک میں کوئی بیس لاکھ کا طاقتور مارچ ہی ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید کوئی آقاۖ کے براق باندھنے کی جگہ کی توہین پر کوئی دھرنا دے کر بیٹھ جائے کوئی نماز میں رفع یدین سے آگے بڑھ کر دشمن پر ہاتھ اُٹھانے کا فیصلہ کر لے ، کوئی سعودی ، کوئی ایرانی ، کوئی مصری حاکم کوئی تو ایمانی غیرت کا ثبوت دے ، پیارے بھائیو ، میری کسی بات پر ناراض مت ہونا ہم نے تو محمد ۖ کے ہاتھ پر موت تک جہاد کی بیعت کر رکھی ہے ہم تو دیوانہ وار نعرے لگاتے رہیں گے ۔۔۔۔۔۔۔آج ہم ۔۔۔۔۔۔ہمارے بعد ہمارے بچے پھر ان کے بچے۔۔۔۔۔ مگر آپ سوچ لیں حوض ِ کوثر پر ساقی کوثر ۖ نے پوچھ لیا تو کیا جواب دیں گے ۔۔۔۔۔؟اسراء و معراج کی سر زمین قبلہ اول کو آزاد نہ کرایا تو کس منہ سے روزِ محشر کملی والے آقا کریم ۖ کا سامنا کرو گے ۔۔۔۔؟

پاکستان کے حکمران ایف 16طیاروں کو 7700میل دور بھیج کر یہودی وجود کے سامنے ہماری فوجی صلاحیتوں کو بے نقاب کر نے کے لیے تیار ہیں لیکن القدس کی آزادی کے لیے حرکت میںنہیں آتے ، ٹس سے مس نہیں ہوتے ،جبکہ شاہین 3میزائل یہودی وجود کو نشانہ بنا سکتے ہیں ، پاکستان کے موجودہ حکمرانوں نے پاک فضائیہ کے سکواڈرن 5”فیلکن ”کے ایف سو لہ C/Dجنگی طیارے 15سے 26اگست2016کے درمیان امریکہ کے علاقے نیو اڈا کے فضائی ہوائی اڈے پر ہونے والی ریڈ فلیگ 16/4فضائی لڑائی کی مشقوں میں شرکت کر نے کے لیے 7700میل دور بھیجے تھے ان تربیتی مشقوں میں یہودی وجود کے طیاروں نے بھی شرکت کی تھی اور اس طرح یہودی جابروں کو مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کی فوجی صلاحیتوں کا براہ راست مشاہدہ کرنے کا سنہری موقع ملا ، یکم ستمبر کو ”دی ٹائمز آف اسرائیل ” نے فخریہ دعویٰ کیا کہ ”اس ہفتے اسرائیلی طیارے نیو اڈا کے صحرا میں امریکی فضائیہ کی ریڈ فلیگ مشقوں میں پاکستانی اور متحدہ عرب امارات کے طیاروں کے ساتھ پرواز کر کے واپس آئے ہیں ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے مسلمان بے وقوف اور جابر ٹرمپ کی جانب سے القدس کو یہودی وجود کا دار الحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد غصے سے آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑے ہیں ہم حکمرانوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر پاکستان کے حکمران یہودی وجود کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہمارے جنگی طیارے 7700میل دور بھیج سکتے ہیں تو پھر ہمارے جنگی طیاروں کو القدس کی آزادی کے لیے کیوں نہیں بھیجتے ، جس کا فاصلہ تو امریکہ کے مقابلہ میں ایک تہائی بھی نہیں ہے ۔۔۔۔؟اس کے علاوہ پاکستان کے شاہین ۔3میزائل 1700میل 2750 )کلومیٹر )دور تک وار کر سکتے ہیں اور مغرب میں یہودی جابروں اور مشرق میں برمی قصائیوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں ، لیکن ہمیں یقین ہے کہ مسلم دنیا کے عیاش اور قباش حکمران ،افواج ، اسلام اور مسلمانوں کی کامیابی اور مقبوضہ مسلم علاقوں کی آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں
میرے بھائیو:آپ نے سنا ہو گا کہ ڈو نلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا ہے ، لیکن فرق کسی کو بھی نہیں پڑا ہو گا ، کیوں ؟کیونکہ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ یروشلم کی حیثیت کیا ہے۔

ہم جانتے ہی نہیں کہ اس سرزمین کا اسلام میں کیا کردار رہا ہے ہمیں نہیں پتہ کہ کیوں فلسطین کے مسلمان آج تک اپنے خون پہ بیت المقدس کی نماز کو فوقیت دیتے ہیں ہم نہیں جانتے کہ فلسطینی مائیں اپنے لاڈلوں کو جنتے ہی بیت المقدس کی حفاظت کے لیے وقف کر دیتی ہیں آیئے ۔۔۔۔۔۔میں آپ کو کچھ پیچھے لیئے چلتا ہوں آپ کو پتہ ہے ۔۔۔۔؟حضور ۖ کی معیت میں مسلمان اسلام کے اولین دور میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے مسلمان نماز پڑھتے رہے ہیں ، کیا آپ جانتے ہیں۔۔۔؟حضور نبی کریم ۖ نے معراج کا سفر کیا توپہلے مکہ مکرمہ سے مسجد اقصیٰ بیت المقدس تک براق پر زمینی سفر کیا جس کو اسریٰ کہا جاتا ہے بیت المقدس میں تمام انبیاء کرام کی امامت فر مائی اور امام الانبیاء کے مقام سے سر فراز ہوئے اور اسی بیت المقدس سے عرش الہی کی طرف سفر معراج کا با قاعدہ آغاز فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔کیا معلوم ہے آپ کو ۔۔۔؟خلافت کے تقریباََ 12سالوں میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جزیرہ عرب سے باہر نہ گئے ، ایک مرتبہ گئے ، پتہ ہے کب ۔۔۔؟جب ان کو پتہ چلا کہ اسلامی افواج بیت المقدس ، یروشلم کے باہر پہنچ گئی ہے اور بیت المقدس کے مذہبی راہنما خلیفہ سے مل کر بغیر کسی جنگ کے بیت المقدس کی حوالگی پر آمادہ ہیں سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک اونٹ اور ایک غلام کے ساتھ دیوانہ وار مسلسل سفر کر کے قبلہ اول کی آزادی کے لیے دوڑ پڑے مسند خلافت کو خالی چھوڑ دیا، پھر باہمی چپقلشوں کے نتیجے میں پھر سے جب غیر مسلموں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تو جدوجہد کرتے کرتے عماد الدین زنگی ، نور الدین زنگی اس دنیا سے چلے گئے اور زنگی کے شاگرد سپہ سالار صلاح الدین ایوبی نے مسلسل کئی سال تک جنگ کر کے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر بیت المقدس کو واپس اُمت مسلمہ کی جھولی میں ڈال دیا اور اس کے بعد بھی تقریباََ 5سال تک صرف اپنے حوصلے اور قلیل سپاہ کے ساتھ انگلستان ، فرانس ، اٹلی سمیت کئی ممالک کی افواج سے لڑتا رہا بیت المقدس کو غیروں سے محفوظ رکھا ۔۔۔۔۔۔

یہ وہی بیت المقدس ہے جس پر قبضہ کرنے کے خواب صدیوں سے یہودی دیکھ رہے تھے آج ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کر دیا کہ بیت المقدس یروشلم ہی وہ جگہ ہے جو اسرائیل کا دار الحکومت ہے یہی وہ جگہ ہے جہاں اسرائیلی جمہوریت ناچ کرے گی ،جہاں پرائم منسٹر ہائوس ہو گا ، جہاں صدارتی محل ہو گا،جہاں سپریم کورٹ ہو گی ، جہاں امریکی ایمبسی ہو گی ، اس اعلان کو عالمی امن کی طرف مضبوط قدم بھی کہا گیا حالانکہ ے سب جھوٹ ہے جہاں 65 سال سے فلسطینی مسلمان ذبح کیے جا تے رہے ہیں ، کبھی عرب اسرائیل جنگ کے نام پر ، کبھی اسرائیلی مقبوضات کے نام پر ، کبھی ہیکل سلیمانی کے نام پر ، کبھی یہودیوں کے پیدائشی حق کے نام پر ، وہی بیت المقدس کھلم کھلا ببانگ دہل اسرائیل کی جھو لی میں ڈال دیا گیا ہے نہ میرے کان پر جوں رینگی ، نہ ہی کسی اور کو دھچکا لگا ۔۔۔لُٹ گئی فلسطینی ماں ، پِٹ گئے فلسطینی بچے ، لہو رنگ اوڑھ لیا ،جوانوں نے ، کہ شاید کبھی کوئی مسلمان ریاست ان کے شانہ بشانہ آکر کھڑ ی ہو جائے ،شاید کوئی سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت سے کوئی سبق سیکھ لے،۔۔۔۔۔۔لیکن میرے لاڈلے بڑے ، میرے ممالک کے سر براہ ، میرے راہنما ، میرے اکابر ، میرے سر کے تاج ، سبھی اپنی اپنی بساطوں میں اُلجھے بیٹھے ہیں قومی ریاستوں کی تقدیس میں مگن ، کوئی اپنی ذات کے خول میں بند ہے ،کوئی اپنی کرپشن بچانے کی فکر میں مست الست ہے۔

آج ہماری خاطر بلکہ ہماری نہیں قبلہ اول کی آزادی کے لیے تو کسی مولوی اور مفتی نے دھرنا نہیں دیا ، کسی قائد انقلاب نے ڈیڈ لائن کا اعلان نہیں کیا ، کسی رضوی اور جلالی نے صدائے حق بلند نہیں کی ، کسی ملا فضل الرحمن نے اسمبلی میں قرارداد پیش نہیں کی ، کسی بلاول نے قبلہ اول کی آزادی کے لیے ”مارچ ”کا اعلان نہیں کیا ، شیخ رشید بھی چُپ ہے ،سنا ہے عمران خان بھی جمائمہ کی آمد کی خوشی میںبنی گالہ میں مزے کی نیند سو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔آپ کے ملک پاکستان کا وزیر اعظم تو پہلے ہی کسی اور ” نا اہل ” کو وزیر اعظم تسلیم کرتا ہے ،کسی پیر نے بھی اپنی خانقاہ سے نکل کر ”رسمِ شبیری ” ادا نہیں کیا ہر کوئی اپنی ”دیہا ڑیاں ”پکی کرنے کے چکر میں مبتلا ہے اور اسی چکر میں عوام بھی چکرا سی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

ہاں کچھ دیوانے ہیں جو تڑپ اُٹھے ، یقیناََ تڑپ اُٹھے ہوں گے ، شاید انہوں نے قسمیں بھی کھا لی ہیں شاید وہ لائحہ عمل بھی تیار کر رہے ہیں وہ ننھی ابا بیلوں کا کردار ادا کرنے پہ بسر و چشم آمادہ بھی ہیں اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی رہے ہم سب اور ہمارے اہل دانش محض مکالمہ ہی کر سکتے ہیں، ٹیبل ٹاک کے ماہر ، نا م نہاد دیہاڑی دارتجزیہ کار،صحافتی پنڈت ،قلمی قوال ، قلم کی آبرو بیچنے والے مالشیے اور پالشیے اپنی اپنی گھمن گھیریوں میں مصروف ِ کار ہیں۔۔۔۔ ہمارے اپنے مسائل بہت ہیں ۔۔۔۔۔۔ایک سوال؛ خود سے ضرور کیجیئے گا کیا مکہ شریف یا مدینہ شریف پہ کوئی اس طرح کا بیان داغنے کی جرات کرے تو آپ ایسے ہی ٹھنڈے جذبات کے ساتھ بیٹھے رہیں گے ۔۔۔؟ نہیں نا ،تو جان لیجیء مکہ ، مدینہ ، بیت المقدس۔۔۔۔یہ تینوں جگہیں اسلام میں حرم شریف کا درجہ رکھتی ہیں اپنے جذبات اور سوچ کو سُلانے سے پہلے بیت المقدس کا درجہ ضرور یاد کر لیجیئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رہے نام اللہ کا ۔۔۔۔۔۔۔اپنا اور اپنے بچوں کا خیال رکھیے گا، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ،
والسلام
آپ کا بھائی
محمد طلحہ

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر : صاحبزادہ مفتی نعمان قادر مصطفائی
بانی و مرکزی امیر :تحریک منہاج الرسول ۖ پاکستان ، خطیب ، مرکزی جامع مسجد مدینہ شریف03314403420