پاناما کیس کی سماعت: قانونی حد کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے، جسٹس اعجاز افضل

Supreme Court

Supreme Court

اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی اہم ترین سماعت جاری ہے جس میں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے وکلا نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد شیخ رشید کے دلائل جاری ہیں۔

جے آئی ٹی کی تشکیل:

پاناما کیس پر سپریم کورٹ کی بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے گزشتہ ہفتے 10 جولائی کو اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی جس کے بعد اس کیس کی آج پہلی سماعت ہے۔

سپریم کورٹ کے حکم پر 20 اپریل کو شریف خاندان کی منی ٹریل کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی جسے 60 روز میں اپنی تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دیا گیا۔

جے آئی ٹی نے 10 جلدوں پر مشتمل اپنی حتمی رپورٹ میں کہا کہ شریف خاندان کے معلوم ذرائع آمدن اور طرز زندگی میں تضاد ہے۔

عدالتی بینچ:

سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں اس کیس کی سماعت کررہا ہے جب کہ جسٹس عظمت سعید شیخ اور اعجاز الاحسن بینچ کا حصہ ہیں۔

عدالت عظمیٰ میں سماعت کے موقع پر حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) اور فریقین سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنما بھی سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔

سخت سیکیورٹی انتظامات:

اس موقع پر سیکیورٹی کےانتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ پولیس اور رینجرز کے 700 اہلکار عدالت عظمیٰ کے اطراف سیکیورٹی کے لیے مامور ہیں جب کہ کسی غیر متعلقہ شخص کو عدالت میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔

پی ٹی آئی وکیل نعیم بخاری کے دلائل:

سماعت کے موقع پر تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری عدالت میں دلائل دے رہے ہیں جس میں ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے طارق شفیع کا بیان غلط ثابت کیا، جے آئی ٹی رپورٹ جمع کرائی جا چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گلف اسٹیل مل فروخت نہیں ہوئی، گلف اسٹیل مل سے متعلق شریف خاندان اپنا مؤقف ثابت نہ کرسکا جب کہ الثانی خاندان کو 12 ملین درہم کی حوالگی بھی ثابت نہ ہوئی۔

نعیم بخاری نے کہاکہ گلف اسٹیل مل 33 ملین درہم میں فروخت نہیں ہوئی، وزارت انصاف یو اے ای نے14 اپریل 1980 کےگلف اسٹیل معاہدے کی تصدیق نہیں کی، برٹش ورجن آئی لینڈ کی ایجنسی نے موزیک فونسیکا کے ساتھ خط وکتابت کی اور جے آئی ٹی نے اس خط وکتابت کی تصدیق کی۔

تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ ٹرسٹی ہونے کے لیے ضروری تھا کہ مریم نواز کے پاس بیریئر سرٹیفکیٹ ہوتے، تحقیقات کےدوران مریم نواز نے اصل سرٹیفکیٹ پیش نہ کیے، بیئررسرٹیفکیٹ کی منسوخی کے بعد کسی قسم کی ٹرسٹ ڈیڈ موجود نہیں، فرانزک ماہرین نےٹرسٹ ڈیڈ کےفونٹ پر بھی اعتراض کیا اور جےآئی ٹی نےکہا 2006 کی ٹرسٹ ڈیڈ میں استعمال ہونے والا فونٹ متعارف ہی نہیں ہوا تھا۔

نعیم بخاری نے کہا کہ جے آئی ٹی کو دستاویزات ایک فریق کی جانب سے فراہم کی گئیں جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا دستاویزات کی کاپی تصدیق شدہ ہے؟ نعیم بخاری نے نفی میں بتایا کہ نہیں، دستاویزات غیر تصدیق شدہ بلکہ جعلی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نوازشریف کا قطر سے متعلق مؤقف تبدیل ہوتا رہا، وزیراعظم نے اسمبلی فلور اور قوم سے خطاب میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ حدیبیہ کیس کے فیصلے میں قطری خاندان کا کہیں تذکرہ نہیں جب کہ قطری سرمایہ کاری کی ورک شیٹ پر تاریخ تھی نااس کا ریئل اسٹیٹ بزنس سے کوئی تعلق تھا۔

نعیم بخار ی نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ قطری شہزادے کا بیان لینا ضروری نہیں جب کہ قطری شہزادہ پاکستانی قانونی حدود ماننے کو تیار نہیں، جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کو طلبی کے لیے چار خط لکھے، قطری شہزادے نے عدالتی دائرہ اختیار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے قطری خط اور قطری کاروبار کی ورک شیٹ کو بھی افسانہ قراردیا۔

انہوں نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے لندن فلیٹس کو مریم نواز کی ملکیت قراردیا اور جے آئی ٹی کے مطابق لندن فلیٹس شروع سے ہی شریف خاندان کے پاس ہیں۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کے مطابق قطر میں سرمایہ کاری کے لیے رقم ہی موجود نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف جے آئی ٹی کے سامنے بطور گواہ پیش ہوئے ان کا بیان صرف تضاد کی نشاندہی کیلیے استعمال ہوسکتا ہے۔

جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ ہم نے قانونی حدود کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔

پاناما کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے آدھے گھنٹے کا وقفہ لیا۔

وقفے کے بعد دوبارہ دلائل شروع کرتے ہوئے نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ حسن اورحسین نواز کے بیانات میں تضاد ہے، حسن نواز نے کہا کہ 2006 سے پہلے انہیں رقم کی برطانیہ منتقلی کا علم نہیں تھا۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی کے مطابق برطانیہ کی تمام کمپنیاں خسارے میں چل رہی ہیں اور کمپنیوں کا خسارہ 10 ملین پاؤنڈسے بھی زیادہ ہے۔

اس دوران جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ قطری خطوط بوگس ہیں یا ان کے حوالے سے بنائی گئی کہانی؟ نعیم بخاری نے اپنے جواب میں دونوں کو بوگس قرار دیتے ہوئے کہا کہ قطری خطوط اور ورک شیٹ دونوں خود ساختہ اور بوگس ہیں۔

نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ شریف خاندان کے پاس آمدن سے زائد اثاثے ہیں اور آمدن سے بڑھ کر اثاثے بنانے کا ذکر جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل ہے جب کہ جے آئی ٹی نے کہا کہ حسن نواز کے پاس کاروبار کے لیے پیسے نہیں تھے اور جے آئی ٹی کے ہی مطابق حسن نواز کے اثاثے آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔

ان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کے خلاف مقدمات 1991سے زیر التوا ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کیسز میں لکھا ہے کہ تحقیقات ابھی تک جاری ہیں جس کے بعد جواب میں نعیم بخاری نے کہا کہ تحقیقات کہاں جا رہی ہیں یہ نہیں بتایا گیا۔

نعیم بخاری نے کہا کہ جے آئی ٹی نے شریف خاندان کے تمام اثاثوں کا جائزہ لیا اور شریف خاندان کےمقدمات کے حوالے سے سفارشات پیش کی ہیں، جے آئی ٹی نے اسحاق ڈار اور کیپٹن (ر) صفدرکے اثاثوں کا بھی جائزہ لیا، اسحاق ڈار کے اثاثے بھی آمدن سے زائد قرار دیئے گئے، مریم نواز لندن فلیٹس کی بینیفشل مالک ثابت ہو گئیں جب کہ ٹرسٹ ڈیڈ کو بھی جعلی قرار دیا گیا۔

جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیا جےآئی ٹی دستاویزات کو ذرائع جانے بغیر درست قرار دیا جا سکتا ہے؟ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ دستاویزات قانونی معاونت کے تحت جے آئی ٹی کو فراہم کی گئیں۔

نعیم بخاری نے کہا کہ شریف خاندان نے جعلی دستاویزات پیش کیں، جعلی دستاویزات پیش کرنے والوں کے خلاف فوجداری مقدمہ بنتا ہے، نواز شریف کے خلا ف نیب کا مقدمہ بھی بنتا ہے۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل خان کا کہنا دیکھنا ہوگا کیا دستاویزات قانون کے مطابق پاکستان منتقل ہوئیں۔

نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ نواز شریف ہل میٹل کے بینیفشل مالک ہیں، ہل میٹل کےفنڈز کے ذرائع نہیں بتائے گئے، نواز شریف کے بیٹے کے مطابق والد کو سیاست کے لیے پیسا دیا، تمام رقم اور فنڈز نواز شریف کے تھے۔

ان کہنا تھا کہ عدالت سے نواز شریف کی نااہلی کا ڈیکلریشن مانگا ہے، نواز شریف جے آئی ٹی کے سامنے جواب دینے سے گریزکرتے رہے۔

نعیم بخاری نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جس میں انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وزیراعظم نوازشریف کو عدالت میں بلاکر ان پر جرح کی جائے۔

جماعت اسلامی کے وکیل کے دلائل:

جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کے مطابق نواز شریف نے تعاون نہیں کیا اور انہوں نے اپنے خالو کو ہی پہنچاننے سے انکار کیا۔ توفیق زاہد کے دلائل پر بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ تو ہم نے بھی پڑھی ہے، ٹیم کی فائنڈنگز سارا پاکستان جان چکا ہے، جے آئی ٹی کی فائنڈنگز پر عمل کیوں کریں؟ یہ آپ نے بتانا ہے۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ جے آئی ٹی کی سفارشات پر کس حد تک عمل کر سکتے ہیں؟ اپنے کون سے اختیارات کا کس حد تک استعمال کر سکتے ہیں یہ بتائیں۔

توفیق آصف کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ نواز شریف نے جے آئی ٹی میں کہا قطری سرمایہ کاری کاعلم ہے مگر کچھ یاد نہیں، نواز شریف نے قطری خطوط پڑھے بغیر درست قرار دی جب کہ انہوں نے اسمبلی تقریر اور قوم سے خطاب میں سچ نہیں بولا، میری درخواست نواز شریف کی اسمبلی تقریر کے گرد گھومتی ہے۔

شیخ رشید کے دلائل:

جماعت اسلامی کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کیے جس کے بعد شیخ رشید نے دلائل کا آغاز کیا۔

شیخ رشید کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی سپر 6 اور ججز کو قوم کی خدمت کا اجر ملے گا، انشاء اللہ انصاف جیتے گا اور پاکستان کامیاب ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہر کیس کے پیچھے ایک فیس یعنی چہرہ ہوتا ہے اور اس کیس کے پیچھے نواز شریف کا چہرہ ہے۔

عوامی مسلم لیگ سربراہ نے کہا کہ نواز شریف نے لندن فلیٹس کے باہر کھڑے ہو کر پریس کانفرنس کی، مریم نواز لندن فلیٹس کی بینیفشل مالک ثابت ہوئیں، ایک بچے کو سعودی عرب، دوسرے کو لندن میں بے نامی رکھا گیا، جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد اب کیس میں کیا رہ گیا ہے؟

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگوں نے جے آئی ٹی کو جن قرار دیا، جے آئی ٹی کو عدالت نے نیب اور ایف آئی اے کے اختیارات بھی دیئے، 60 دن میں تھانے سے چالان بھی نہیں آتا، جس عمر میں ہمارا شناختی کارڈ نہیں بنتا ان کے بچے کروڑوں کما لیتے ہیں، یہ بچے نواز شریف کے ہیں، حمید ڈینٹر کے نہیں۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں تو مزید آف شور کمپنیاں بھی نکل آئیں اور قوم کی ناک کٹ گئی کہ وزیر اعظم دوسرے ملک میں نوکری کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے ثابت کیا کہ ملک میں ایماندار لوگوں کی کمی نہیں۔

شریف خاندان کے اعتراضات:

عدالت میں سماعت شروع ہونے سے قبل شریف خاندان نے جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات سپریم کورٹ میں جمع کرائے۔

شریف خاندان کی جانب سے اعتراض ان کے وکیل خواجہ حارث نے جمع کرایا جس میں کہا گیا ہےکہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) کا رویہ غیر منصفانہ تھا اور اس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا لہٰذا عدالت جے آئی ٹی کی رپورٹ کو مسترد کرے۔

ادھر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے بھی عدالت عظمیٰ میں جواب جمع کرادیا گیا ہے جو اعتراضات پر مبنی ہے۔

سیاسی رہنماؤں کی میڈیا سے گفتگو:

دوسری جانب سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ دباؤ کے باوجود جے آئی ٹی ارکان نے بلا خوف کام کیا، انقلاب کا دن آنے والا ہے، نواز شریف کو اب جانا ہی ہوگا۔

ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا سب کی خواہش ہے کہ کیس منطقی انجام تک پہنچے، اپوزیشن جماعتوں نے فیصلہ کیا تھا کہ اس معاملے پر اکٹھا اور ساتھ ہیں، وزیراعظم کو اخلاقی طور پر استعفیٰ دینا چاہیے۔

تحریک انصاف کے وائس چیرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین دن ہے، پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں وزیراعظم سےاستعفے کا مطالبہ کررہی ہیں، وکلا کا بڑا طبقہ کہہ رہاہے وزیراعظم ملک وجمہوریت کے مفاد میں مستعفی ہوجائیں۔

جب کہ فواد چوہدری نے کہا کہ اتنی زیادہ شہادتوں کے بعد وزیراعظم کا ایک دن بھی کرسی پر رہنا پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے، ملک میں سیاسی بحران ہے اور (ن) لیگ جس طرح مقدمے کو تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہے اس کا نقصان ملکی سیاست، معیشت اوردفاع کو ہورہا ہے۔

عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کاکہنا تھا کہ جو شریفوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ ڈٹ جاؤ، دنیا دیکھے گی کہ یہ لوگ جیلوں میں جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اور قوم سپریم کورٹ کے پیچھے کھڑے ہیں، قوم انصاف چاہتی ہے نوازشریف کا سیاسی تابوت نکلے گا۔

وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ:

پاناما کیس پر فریقین سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کررکھا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی اور آفتاب شیر پاؤ نے وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط کردیا۔

حکومت کو مؤقف:

تاہم وزیراعظم نے استعفیٰ دینے سے صاف انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ سازشی ٹولے کے کہنے پر مستعفی نہیں ہوں گے۔

وزیراعظم کو اپنی کابینہ سے بھی بھرپور اعتماد حاصل ہے اور کابینہ نے انہیں استعفیٰ نہ دینے اور ڈٹ جانے کا مشورہ دیا۔