پانامہ کیس : حسین نواز کے وکیل نے منروا کمپنی سے متعلق ریکارڈ پیش کر دیا

Panama Leaks Case

Panama Leaks Case

اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت جاری ہے ، حسین نواز کے وکیل نے منروا کمپنی سے سروسز کا معاہدہ اور دیگر ریکارڈ پیش کر دیا ۔ سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں جولائی 2006ء سے آج تک آف شور کمپنیوں کے حصص منروا اور ٹرسٹی سروسز کے پاس ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کے روبرو حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل جاری ہیں ۔ سلمان اکرم راجہ نے عدالت میں حسین نواز اور منروا کمپنی کے درمیان ہونے والے معاہدہ اور منروا کمپنی کی انوائسز پیش کیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ منروا کمپنی نے معاوضے کی جو انوائسز جاری کیں وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ منروا کمپنی کو خدمات کی مد میں رقم کی ادائیگی کیسے ہوئی ۔ دو ہزار چودہ میں منروا کمپنی کو چھ ہزار چھ سو پائونڈ ادا کئے گئے ۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کی بات ماننے کو تیار ہیں ، یہ جاننا چاہتے ہیں کہ نیلسن اور نیسکول کے ڈائریکٹرز کون ہیں۔

سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ منروا کمپنی کے منتظم نے نیلسن اور نیسکول کیلئے اپنے ڈائریکٹرز دیئے۔ حسین نواز اپنے نمائندے فیصل ٹوانہ کے ذریعے منروا کمپنی کو ادائیگی کیا کرتے تھے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ معاملہ ان دستاویزات کا ہے جن سے حسین نواز کا فلیٹس سے براہ راست کنکشن ملے۔ مریم نواز آف شور کمپنیوں کی مجاز نمائندہ تھیں۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ جولائی دو ہزار چھ میں منروا کمپنی کے نام رجسٹرڈ شیئرز جاری ہوئے۔

دو ہزار چودہ میں منروا کمپنی کی جگہ ٹرسٹی سروسز کی خدمات حاصل کی گئیں۔ فروری سے جولائی دو ہزار چھ تک مریم نواز ٹرسٹی شیئر ہولڈر تھیں۔ جولائی دو ہزار چھ میں بیریئر سرٹیفکیٹ کی منسوخی پر مریم نواز کی شیئر ہولڈر حیثیت ختم ہوگئی اور اس کے بعد سے ان کی حیثیت صرف ٹرسٹی کی ہے۔ اس کے بعد سے آج تک آف شور کمپنیوں کے حصص منروا اور ٹرسٹی سروسز کے پاس ہی ہیں ۔ فروری سے جولائی دو ہزار چھ تک بیریئر سرٹیفکیٹس مریم نواز کے پاس تھے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا جولائی دو ہزار چھ میں مریم نواز کی ٹرسٹی کی حیثیت ختم ہوگئی تھی۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ موزیک فونسیکا کے مطابق مریم نواز آف شور کمپنیوں کی بینیفشل مالک ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ جب جولائی دو ہزار چھ میں بیریئر شیئرز منسوخ ہوئے تو مریم نواز ٹرسٹی رہیں۔ مریم نواز کہتی ہیں کہ انھوں نے منروا کمپنی کی کسی دستاویز پر دستخط نہیں کئے۔ جس شخص نے یہ دستاویز پیش کی ہے وہ بتائے کہ یہ کہاں سے لائی گئی ہیں۔ مریم نواز سے متعلق جعلی دستاویز عدالتی ریکارڈ پر لائی گئیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ منروا کمپنی کے نمائندے نے بھی مریم نواز کی زیردستخطی دستاویز کی تردید کی ہے۔ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ فلیٹس کی ملکیت سے متعلق آپ کی چین مکمل ہے، جس کسی کو شک و شبہ ہے وہ ثابت کرے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اگر مریم نواز زیر کفالت ثابت ہو بھی جائیں تب بھی فلیٹ کی مالک ثابت نہیں ہوتیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز کے پاس لندن کے پوش علاقے میں مہنگی جائیدادوں کیلئے سرمایئے کو بھی دیکھنا ہے۔ اگر مریم نواز حسین نواز کے نمائندے کے طور پر کام کرتی تھیں تو ان دستاویز کو بھی دیکھنا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ وہ دستاویز ایک ٹرسٹ ڈیڈ ہے جو مریم نواز اور حسین نواز کے درمیان فروری دو ہزار چھ میں ہوئی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ جولائی دو ہزار چھ میں بیریئر سرٹیفکیٹس کی منسوخی کیلئے حسین نواز گئے یا مریم۔ سلمان اکرم راجہ نے اصغر خان کیس کا حوالہ دیا تو جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا اصغر خان کیس میں شواہد ریکارڈ کئے گئے تھے۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ کیس میں چونکہ اسد درانی اور اسلم بیگ نے الزامات تسلیم کرلئے تھے اس لئے شواہد ریکارڈ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ جسٹس آصف کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ خود سے کمیشن تشکیل دیکر انکوائری نہیں کرسکتی۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ آئین کے آرٹیکل دس اے میں شفاف ٹرائل کا کہا گیا ہے۔

کمیشن کسی شخص کو سزا دے سکتا ہے اور نہ ہی بری کرسکتا ہے۔ وہ اپنی انکوائری میں کسی کو صرف ملزم ہی ٹھہرا سکتا ہے۔ فوجداری معاملے کا ٹرائل کمیشن نہیں کرسکتا۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کمیشن ہمیشہ شواہد اکٹھے کرنے کے لئے بنایا جاتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ بینچ اس وقت کوئی شواہد ریکارڈ نہیں کرارہا۔ اب تک کی ساری عدالتی کارروائی ایک شخص کا دوسرا کیخلاف مقدمہ ہے۔ فریقین کو سن کر ہی فیصلہ کریں گے کہ کیا کرنا ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت براہ راست مجاز اداروں کا کام اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ارسلان افتخار کیس میں معاملہ متعلقہ اداروں کو بھیجا گیا تھا۔ آپ کہتے ہیں کہ درخواست گزاروں نے شواہد نہیں دیئے اور پھر خود ہی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس بھی کچھ نہیں اور لندن فلیٹس الثانی خاندان نے دیئے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ اگر حسین نواز کے موقف کو تسلیم نہ کریں تو پھر کس کا موقف مانیں۔ وزیراعظم کے اسمبلی کے بیان پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست بھی دائر ہوئی تھی مگر اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے اسے خارج کیا۔

وزیراعظم آج ہیں کل نہیں ہوں گے اور ہم بھی آج ہیں کل نہیں ہونگے۔ اس لئے قانون کو دیکھنا ہے وزیراعظم کو نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اربوں روپے کا معاملہ تھا مگر آپ کہتے ہیں کہ کوئی دستاویز ہی نہیں۔ کیا چیئرمین نیب اور ایف بی آر کو تحقیقات کا کہہ دیں۔ اگر تحریک انصاف کی دستاویز کی تصدیق ہوگئی تو پھر آپ کی کہانی کہاں جائے گی۔ اس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے برجستہ کہا کہ پھر آپ راول ڈیم پر مچھلیاں پکڑنا۔ اس ریمارکس پر کمرہ عدالت میں قہقہ بلند ہوا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ راجہ صاحب ؛ کیا دستاویزات فراہم نہ کرنا آپ کی حکمت عملی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے لقمہ دیا کہ اگر یہ آپ کی حکمت عملی نہیں ہے تو پھر جوا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جوا کسی کے بھی حق میں جاسکتا ہے اس لئے یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدلیہ نے آرٹیکل دس اے اور قانون کے اصولوں کو ہمیشہ برقرار رکھا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ اس لئے بھی ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کا حق نہیں ہے صرف نظرثانی درخواست دائر ہوسکتی ہے مگر نظرثانی کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل ایک سو چوراسی کی ذیلی شق تین کے تحت مقدمے میں بھی اپیل کا حق نہیں ہوتا۔ کیس میں وقفہ کردیا گیا۔