پانامہ اور بہاماس بعد دبئی لیکس

Dubai Leaks Pakistan

Dubai Leaks Pakistan

تحریر : راشد علی
اسلامی فلاحی ریاست پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے والے عرض پاک میں لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کوبے نقاب کیوں نہیں کرتے گزشتہ چارسالوں سے چند افراد کے گرد ہی گھیر اتنگ کیوں ہے ؟ حقائق عوام کے سامنے بروقت لے کر آنا ریاست اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے بلاتفریق عرض پاک کی دولت لوٹنے والوں کے احتساب کا وقت آجانا چاہیے ایک مرتبہ ہی چوروں اورلٹیروں کو کٹہرے میں کھڑا کردینا چاہیے اگرلینڈ مافیا وطن عزیز سے باہر ہے تو انٹرپول کے ذریعے انہیں وطن عزیز میں لانا چاہیے پاکستانی آئین وقانون کے مطابق بروقت سزا دے کر ایک روایت قائم کرنی چاہیے کہ انصاف کی فراہمی بلاتفریق نافذ العمل کی جائے گی پاکستان اسلامی فلاحی ریاست تب ہی بن سکتا ہے جب ہم کرپٹ عناصر اور وطن عزیز کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والوں کا کڑا احتساب کریں مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ مقتدر طبقہ اوران کے منظور نظر طبقہ نظریاتی اور اخلاقی کرپشن کے ذریعے پاکستان کی بنیادیں کمزور کر رہا ہے۔

آئین پوری قوم اورتمام طبقات کی متفقہ دستاویزہے لیکن افسوس مقتدر طبقہ مسلسل آئین سے انحراف کرکے وطن عزیز کی بنیادوں کوکھوکھلی کررہا ہے اشرافیہ نے سارے نظام کو کرپشن سے آلودہ کردیا ہے اس کرپشن کے سرطان نے وطن عزیز کی عزت کو داغدار کیا ہے محبت وطن اور حلال پسند اشرافیہ ہوتی تو آج پاکستان آئی ایم ایف کا مقروض نہ ہوتا امریکہ یوں سرعام ہرزہ سرائی نہ کرتا یوں دربدر بھیک مانگنے کی نوبت نہ آتی قبلہ درست کرنے کی باتیں کی جاتیں ہیں مگر افسوس کرپشن پلس نظام میں سارے ہی ننگے دیکھا ئی دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سالانہ 8000ارب کی کرپشن ہونے کا انکشاف کیا جاتاہے ایسے انکشافات تب حقیقت کا روپ دھارلیتے ہیں جب پانامہ لیکس اورپیرڈائز لیکس کے حقائق سامنے آتے ہیں ابھی پانامہ کا شور تھما نہیں تھا کہ بہاماس لیکس کا انکشاف ہوا یہ معاملہ زیر غور تھا کہ دبئی لیکس کا نیاپنڈوراباکس سامنے آگیا ہے اس لیکس کے متعلق بھی عوام کے چٹ پٹے تبصرے سننے کو مل رہے ہیں کوئی کہتا ہے ہرفرد چور ہے سوائے اس کے جسے موقع نہیں ملتا ،کوئی کہتا ہے حکمران چور ہیں ستر سالوں سے ملک کو لوٹ رہے ہیں کوئی کہتاہے ہمارا ملک ہی خود قسمت ہے اتنے لوٹنے والے آئے ہیں مگر دولت ختم نہیں ہوئی یہ خود ہی ختم ہورہے ہیں چوتھا کہتا ہے ہمارے ملک کی بنیاد میں ہمارے شہیدوں کا لہو ہے یہ چور ٹبر تھک جائے گا مگر یہ پیارا وطن قا ئم رہے گا۔

سب ہی تبصروں سے اتفاق کیا جاسکتا ہے مگر کیا یہ تبصرے ہی عام آدمی کی تقدیر ہیں ارے بھائی جس معاشرے میں عدل وانصاف اورمساویانہ نظام رائج نہیں ہوتا ایسی معاشروں پر اللہ کا غضب نازل ہوتاہے جہاں غریب کا حق تسلسل سے طاقت ور ہڑپ کررہاہووہاں کیسے اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوگی خدا کا نظام ہے وہ جھوٹوں ،چوروں ،رہزنوں کو ہدایت نہیں دیتا اورہدایت مانگنے سے ملتی ہے کرتوت ٹھیک کرنے سے ملتی ہے بگل میں چھری اورمنہ سے رام رام بکنے والوں کو ہدایت نصیب نہیں ہوتی مثل مشہور ہے سیدھی کلہاڑی سے کپڑے دھوئے اوراللہ تعالیٰ سے خیر مانگے ایسے توخیر نہیں ملے گی زبانی جمع خرچ سے فری کرپشن پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا عبرتناک سزا ضروری ہے جس کا خوف چار سو محسوس کیا جائے جناب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک وفد آتا ہے اورایک چور ی میں ملوث بااثرخاتون کے لیے شفارش کرتا ہے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنابان اگر میری لخت جگر فاطمہ زہرہ بھی اس جرم کا ارتکاب کرتی تو میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا بلاتفریق احتساب کے ذریعے ہی کرپشن کا خاتمہ کیا جاسکتاہے پوری قوم کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کرپشن کے خلاف یک سو ہوناچاہیے یقینا اب اس ناسور کے خلاف قوم متفق ومتحد دکھائی دیتی ہے نیب کے ساتھ پنجاب حکومت کا عدم تعاون باعث شرم ہے۔

اگر ریاستی ادارے ہی چوروں کے محافظ بن جائیں تو چور کیوں اپنے اعمال سے نادم و پشیماں ہونگے وہ تو پورے ڈھٹائی سے جرائم کا ارتکاب کریں گے ایسے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کاروائی عمل لائی جائے گی تو پھر پانا مہ اوربہاماس لیک جیسے سکینڈل سامنے نہیں آئیں گے ابھی چند دن پہلے دبئی لیکس کا انکشاف ہوا ہے جس کے مطابق 7 ہزار سے زیادہ پاکستانیوں نے دبئی میں 11 سو ارب روپے سے زیادہ کی جائیدادیں بنا رکھی ہیں جن میں سے 95 فی صد افراد نے پاکستان میں اپنے ٹیکس گوشواروں میں کچھ نہیں بتایادوسری جانب فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور اسٹیٹ بینک کے پاس اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں کہ یہ پیسہ پاکستان سے دبئی کیسے گیاپاکستان کے ایک نجی ٹی وی کی خصوصی تحقیق کے بعد اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ دبئی میں جائیدادیں بنانے والوں میں سیاست دان، اداکار، وکلا، ڈاکٹر، بیوروکریٹ، کاروباری شخصیات اور بینکرز شامل ہیںسوال یہ ہے کہ 11سوارب کس طرح پاکستان سے دبئی منتقل ہوئے اتنی بڑی رقم ارض پاک سے بیرون ملک منتقل ہو رہی تھی توادارے کہاں تھے یا اس تمام کے پیچھے اشرافیہ کا ہاتھ ہے جس نے ہمیشہ ریاست کی خودمختاری اوراساس کو نقصان پہنچایا ہے۔

سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں نے تقریباََ 967 ولاز یا رہائشی عمارتیں گرینز کے علاقے میں خریدیں، پاکستانیوں کے 75 قیمتی ترین فلیٹس ایمریٹس ہلز، 165 جائیدادیں ڈسکوری گارڈنز میں، 167 فلیٹس جمیرا آئی لینڈ، 123 گھر جمیرا پارک، 245 فلیٹس جمیرا ولیج، 10 جائیدادیں پام ڈیرا، 160 پام جبل علی، 25 جائیدادیں پام جمیرا شور لائن، 234 جائیدادیں انٹرنیشنل سٹی اور 230جائیدادیں سلیکون ویلی میں ہیںایک رپورٹ کے مطابق 2002سے اب تک 7000افراد نے دبئی میں جائیدادیں خریدیں جبکہ 2000پاکستانیوں نے فرنٹ مین کے نام پر یہ جائیدادیں لیں اس سے بڑھ کر افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس ایشو کو سرد کھانے میں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے عوام اس انکشاف سے متعلق حقائق جانناچاہتے ہیں اگر یہ انکشافات درست ہیں تو ان پر جلد ازجلد کاروائی عمل میں لائی جائے اگر یہ حقائق غلط بیانی کی نتیجہ ہیں تو اس پروضاحت دی جائے تاکہ گمراہ کن انکشافات سے عامتہ الناس محفوظ رکھا جاسکے البتہ کرپشن کے ناسور کا جڑسے اکھارپھینکا وقت کی اولین ضرورت ہے عام آدمی اداروں کے چکر کاٹتارہتاہے مگر ادارے تعاون نہیں کرتے یہاں وہاں کا بول کر ذہنی استحصال کرتے رہتے ہیں من میں دبی خواہش کو زبان سے کہنے کی بجائے اذیت میں مبتلا کرکے پیسے بٹورنے کا رواج ابھی تک تسلسل سے جاری و ساری ہے۔

Rashid Ali

Rashid Ali

تحریر : راشد علی