پاناما لیکس کے معاملے کو قومی مشاورت سے حل کیا جائے، فاروق ستار

Farooq Sattar

Farooq Sattar

اسلام آباد (جیوڈیسک) ایم کیوایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے کو قومی مشاورت سے حل کیا جائے جب کہ ملک میں سب کا بلا امتیاز احتساب ہونا چاہیے۔

اسلام آباد میں ایم کیوایم کے وفد نے ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں پیپلزپارٹی کے وفد سے ملاقات کی جس کے بعد اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور چوہدری اعتزاز احسن کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کے وفد نے ہماری باتوں کو غور سے سنا اور اس دوران جو ہمارے معاملات ہیں ہم نے اس پر بھی توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا کہ ہم بے امنی اور جرائم کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن ہمارے کارکنوں کو لاپتا کیا جارہا ہے، مارچ سے ہمارے کارکنوں کی گمشدگی کی نئی لہر سامنے آئی ہے، 170 کارکن جبری لاپتا کیے گئے ہیں، یہ انسانی حقوق کی پامالی ہے، سیاسی برادری کو ہمارے معاملات پر بھی توجہ دینی چاہے۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے وفد سے پاناما لیکس پر بھی بات ہوئی، اس معاملے کو قومی مشاورت سے حل کیا جائے اور فوری طور پر قومی مشاورت کا عمل شروع کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بلا امتیاز احتساب ایم کیوایم کی بنیادی پالیسی ہے اس لیے ملک میں سب کا بلا امتیاز احتساب ہونا چاہیے، ایم کیوایم نے سب سے زیادہ کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور پاناما لیکس کے انکشافات انتہائی اہم ہیں اس حوالے سے کمیشن کا معاملہ ٹی او آرز پر رکا ہوا ہے لہٰذا اس معاملے پر قومی مشاورت سے راستہ نہ نکالا گیا تو عدم استحکام بڑھنے کا خدشہ ہے جس سے ملک کو نقصان ہوگا۔

اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اور پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے ساتھ اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی جس میں متحدہ کے مسائل پر بھی بات کی گئی، ایم کیوایم نے اپنے مسائل اور کراچی کے حالات تفصیل سے بیان کیے۔

انہوں نے کہا کہ پاناما لیکس کمیشن پر انٹرنیشنل فارنزک آڈٹ کمپنی کی خدمات لینے پر ہمارا اتفاق ہے لیکن نوازشریف نے اپنے احتساب کے لیے خود ہی اپنے لوگوں سے مشاورت کے بعد ٹرمز آف ریفرنس بنادیئے جو ہمیں منظور نہیں کیونکہ قانون اپوزیشن کی مشاورت سے بننا چاہیے۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ دھاندلی کمیشن کے لیے آرڈیننس پاس کیا گیا تھا، قانون کے لیے حکومت اور اپوزیشن نے ایک ایک لفظ پر اتفاق رائے کیا تھا اور ہم سوچ رہے تھے کہ اس بار بھی یہی ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نئے خصوصی قانون کے تحت کمیشن چاہتے ہیں اور نئے قانون کے تحت ہی ٹی او آرز بنائے جائیں۔