کاغذ کی کشتی

Paper Boat

Paper Boat

تحریر : فہمیدہ غوری
ہر انسان جو بھی ہو مرد، عورت، بزرگ ان کی زندگی کی سب سے سنہری یاد ہوتی ہے بچپن کی یاد جب بھی کسی بچے کو اپنی دنیا میں مگن دیکھتے ہی ہر کسی کی آنکھوں کے سامنے اپنا بچپن کبھی نہ کبھی ضرور آتا ہے اور ان بچپن کی یادوں کے اڑن کھٹولے میں بیٹھے ہم دور کہیں چلے جاتے ہیں جہاں ہمارے نانا نانی دادا دادی کی شفقتیں تھیں خالہ پھپو کی بے انتہا چاہتیں تھیں ۔ بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلنا لڑنا روٹھنا منانا ، اماں کی پیار بھری ڈانٹ ابا کا بن کہے کا بے غرض دلاد۔ سخت گرمی میں اسکول سے آکر گرم گرم کھانا. اور کبھی ٹھنڈی لسی کبھی آم کا شیک کبھی روح افزا جس میں رنگ سے زیادہ مامتا کا خلوص اور مٹھاس سے زیادہ باپ کی محنت کا عرق شامل ہوتا۔ سب بڑوں کے لیٹتے ہی موقع دیکھ کر باہر نکل جانا جہاں پہلے ہی سے منتظر دوست کھڑے ہوتے ..کبھی چھت پر کبھی گلیوں میں جہاں پودوں درختوں کی ٹھنڈی چھاوں ہماری منتظر ہوتی تتلیوں کے پیچھے بھاگتے کچے امرود کیری توڑتے اور مزے سے کھاتے.. اس سے زیادہ مزیدار شاید آپ کو کبھی کچھ نہیں لگا ہوگا۔

سخت گرمی کے موسم میں تپتی دھوپ میں مٹی کے برتن میں لکڑیاں جلا کر ہنڈیاں پکانا .اور اس مٹی کے برتن میں اماں کے ڈبے سے نکالے کچے پکے چاول مزے لے کر کھانا سچ بتائیں کیا یہ من و سلوی آپ نے کبھی کھایا ہے۔ .ہمارے محلے میں آم کے درختوں پر جھولے اور لمبی لمبی پنگیں اور جھولے سے گر کر خود پر ہنسنا۔ اسکول میں اماں کے لاکھ منع کرنے کے باوجود املی کھٹائی والے چھولے تیز مرچ ڈال کر کھانا… املی میں نمک مرچ ڈال کر خوب آنسو بہاتے ہوئے چٹخارے لینا ..چھوٹے چھوٹے کینو کی کھٹی پھانکیں امرود پر چاٹ مصالحہ ڈال کر کھانا اب بھی ایسا لگتا ہے یہ مزہ زبان پر رکھا ہے ..کیا آپ کو میکڈونلڈز کے برگر یا کے ایف سی کا زنگر زیادہ مزے کا لگتا ہے یا بچپن میں گلی کے نکڑ پر کھڑے ٹھیلے پر بکتی بن کلیجی۔۔ صبح صبح حلوہ پوری قلچے کا ناشتہ اماں کے ہاتھ کی دودھ پتی چائے ..سردی میں گرم گرم دودھ بن کا ناشتہ کیا یاد آتا ہے آپکو ..دوپہر میں قلفی ملائ والے کا انتظار چنا جور گرم کی گرم گرم آواز گولے گنڈے والے کی ٹن ٹن ہمارے تو آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے نانی کے پان دان سے سونف الائچی چپکے سے نکال کر بھاگ جاتے.. اور پکڑے جانے پر مسکین سا منہ بنا کر ڈانٹ سے بچ جاتے۔ ایک کپ شکر کے بدلے ڈھیر سارے گڑیا کے بال مل جاتے۔ یا چڑیا یا طوطے بنوا کر مزے سے کھاتے نہ ہی بھوک لگتی نہ پیاس کھیل میں مگن اس وقت ہوش آتا جب اماں کی آواز ہمیں ہوش میں لاتی۔ رات کو تھک کے چور ہوکر جہاں بھی جی چاہتا سوجاتے اور صبح آنکھ کھلتی تو اپنے بستر پر ہوتے کیا آپ کو نیند کی گولی کھا کر بھی ویسی نیند آتی ہے اب۔ محلے کے بزرگ سب کے دادا نانا اور جوان سب کے مامو ں چاچا۔ ایسا لگتا تھا سب ایک ہی خاندان ہیں کسی کا بھی بچہ ہو ہر ایک اپنے بچوں کی طرح نظر رکھتا۔ غلط کام یا شرارت کرتے دیکھ کر سرزش اور اچھی بات پر شاباشی وصول کرتے تھے۔

چھٹیوں میں نانا کے گھر جانے کی خوشی۔ ہماری نانی بہت خوبصورت تھیں دودھ میدے جیسی سفید لال گلاب محنتی سارے مصالحے سل پر پیس کر کھانا بناتیں تو کھانے کی خشبو سارے محلے میں چکراتی۔ ذائقہ ایسا کہ بپیٹ بھر جاتا مگر نیت سیر نہ ہوتی نانی کے ہاتھ کی نرم نرم پھولی پھولی روٹیاں ایک کے بعد ایک توے سے اترتی اور ہم سب چولہے کے گرد بیٹھ کر کھانا کھاتے اور نانی سے مزے مزے کے قصے سنتے.. ہماری نانی بلکل کہانیوں والی نانی جیسی ہی تھیں.. پیار کرنے والی مزے مزے کے کھانے کھلانےاور کہانیاں سنانے والی۔ ہمارے گھر کی منڈیر پر آنے والی چڑیا جسے سب دھوبن چڑیا کہتے تھے.

دیوار پر پھدکتی گلہری اتنی پیاری لگی کہ ہم سارے کام چھوڑ کر گلہری کو دیکھتے رہتے۔ ہمارا گھر پہاڑی علاقے میں تھا بہت پیارے گھر بنے تھے.. ہر گھر کے باہر گیلری اور گیلری کے باہر رات کی رانی بوگن ویلیا، تلسی چنبیلی کے پودے. صدا بہار کی بہارتھی . ہر طرف خشبوئیں تھیں محبت کی ٹھنڈک تھی ،خلوص کی چاندنی تھی، اتفاق دوستی کا اجیارہ تھا، یگانگی بھائی چارگی کا موسم گل تھا، جو کبھی خزاں میں نہیں بدلتا تھا ہمارے گھر سے پہلے چھوٹی سی پہاڑی تھی بارش ہوتے ہی ہم سب دیوانے ہوجاتے، پہاڑی پر جاکر بیر بہوٹیاں جمع کرتے لال سرخ بیر بہوٹیاں ہمارے بچپن کی سب سے خوبصورت یاد ہے۔

پہاڑی پر بارش کا پانی بہتا ہوا ہمارے گھر کر سامنے سے گزرتا اور ہم کاغز کی کشتیاں بنا کر بہاتے جو پانی کے ریلے کے ساتھ دور تک چلتی جاتیں چھت سے بہتے پرنالے کا آبشار کو شرماتا شور،، اور اس شور کی دھن میں سارے بچوں کی کھلکھلاہٹیں، یہ ساری یادیں ہیں جو ہر پل ساتھ رہتی ہیں، اور غم روزگار میں کبھی بھول بھی جائیں تو کبھی نہ کبھی پازیب بجاتی چلی آتی ہیں۔ ہم بڑے ہوجاتے ہیں لیکن دل کے کسی کونے میں ایک ننھا سا بچہ اب بھی کاغذ کی کشتی لئے ساون کا منتظر ہے …اس بچے کو باہر آنے دیجئے اسے دوبارہ سے زندگی جینے دیجئے یہ بچہ آپ کو وہ ہر منظر واپس دیلائے گا جو آپ بہت پیچھے چھوڑ آئیں ہیں۔

Fahmida Ghauri

Fahmida Ghauri

تحریر : فہمیدہ غوری