پارا چنار، انسانیت مر چکی ہے

SOOJH

SOOJH

تحریر : سید انور محمود
تیئس (23) جون کو قبائلی علاقے پاراچنار کے طوری بازار میں تین منٹ کے وقفے سےیکے بعددیگرے دودھماکے ہوئے، اس دن 27 رمضان المبارک اور جمعہ الوداع ساتھ ساتھ تھے، تین دن بعد عید کی خوشیاں منانے کی بھی تیاریاں ہو رہی تھی۔طوری بازار میں لوگ عید اور افطار کی خریداری میں مصروف تھے کہ پہلا دھماکا ہوا، جس کے بعدمتاثرین کی مدد کی جارہی تھی کہ دوسرا دھماکا ہوگیا۔ ان دو بم دھماکوں میں 75سے زیادہ افراد کے جاں بحق اور150 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ ان بم دھماکوں کے کچھ ہی دیر بعد ان کی زمہ داری تنظیم لشکر جھنگوی نے قبول کرلی تھی۔ یہ دہشتگردی نواز شریف کے چار سالہ دور میں پارا چنار میں 11ویں مرتبہ ہوئی ہے۔ بم دھماکوں کے بعد سے ہی متاثرین اورشہریوں نے دھرنا شروع کردیا تھا جس میں خواتین بھی شریک تھیں، بدنصیبی سے دھماکے کی جگہ پر متاثرین کے احتجاجی مظاہرئے پر ایف سی اہلکاروں کی فائرنگ کی وجہ سے بھی چار افراد جاں بحق ہوگئے۔عید والے دن شہدا کے لواحقین اور شہریوں نے دھرنا جاری رکھا اور شہید پارک میں عید کی نماز ادا کی ۔دھرنے کے شرکا کا کہنا تھا کہ ’’بار بار پاراچنار کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔اس علاقے میں فوج و ایف سی عرصہ دراز سے آپریشن کررہی ہے مگر انکی موجودگی میں دہشتگردانہ کاروائیاں ہوتی ہیں جسے روکنے میں ایف سی مکمل طور پر ناکام ہے‘‘۔

دھرنے کے شرکا کا مطالبہ تھا کہ جبتک وزیر داخلہ سمیت اعلیٰ شخصیات یہاں نہیں آئیں گے دھرنا جاری رہےگا۔ ساتھ ہی انکے مطالبات میں یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ ’ایف سی کمانڈنٹ کو برطرف کیا جائے‘۔جس وقت دہشتگردی کا یہ واقعہ ہوا اس وقت وزیراعظم سعودی عرب میں تھے، وزیر اعظم نے ایک رسمی مذمتی بیان دیا اور اپنی اگلی منزل کا سفر جاری رکھا اور لندن پہنچ گئے۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ملک سے باہر تھے لیکن وزیر داخلہ چوہدری نثار اسلام آباد میں موجود تھے۔ وزیر داخلہ نے اس سانحے کو کوئی اہمیت نہیں دی اور ان کا اس واقعے پراس طرح کا کردار رہا جیسے پارا چنار انکی حکومت کا حصہ نہ ہو۔ 23 جون کو ہی دو اور دہشتگردی کے واقعات ہوئے تھے ایک کوئٹہ میں اور ایک کراچی میں۔ صبح کو کوئٹہ میں ایک بڑی دہشتگردی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں7پولیس اہلکاروں سمیت 14افراد جاں بحق اور21زخمی ہوگئے تھے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اس دہشتگردی کا فوراً نوٹس لیااور اپنے ماتحت حکام سے کوئٹہ سانحہ کی رپورٹ طلب کی تھی۔ پارا چنار کے واقعے فوراً بعد افطار کے وقت کراچی کے علاقے سائٹ ایریا میں دو موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح دہشتگردوں نے افطار کرنے والے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ایک اے ایس آئی سمیت 4پولیس اہلکار جاں بحق ہوگئے، وزیر داخلہ نے اس واقعہ کا بھی نوٹس لیا اور ماتحت عملہ سے سانحہ کی رپورٹ طلب کی تھی۔

آئی ایس پی آر نے27 جون کو اعلان کیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پارا چنار جائیں گے لیکن موسم کی خرابی کے باعث وہ دہشتگردی کے واقعہ کے ایک ہفتہ بعد جمعہ 30 جون کو پارا چنار پہنچ پائے، ان سات دن میں اور بھی بہت سارئے واقعات ہوئے، جن میں احمد پورشرقیہ کا سانحہ ایک بڑا واقعہ ہے جس میں تقریباً ابتک 200 افراد کی موت ہوچکی ہے اور اس سانحے کے بعدہی وزیر اعظم اپنا لندن کا دورہ مختصر کرکے بہاولپور پہنچے تھے لیکن پارا چنار جانا شاید انہیں پسند نہیں یہ ہی وجہ ہے کہ وہ ابتک پارا چنار نہیں پہنچ پائے ہیں، البتہ انہوں نے جمعرات 29 جون کو دھماکوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کو دس، دس لاکھ روپے اور زخمیوں کو پانچ پانچ لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا تھا، دھرنے کے شرکا نے ان کی اس مہربانی کو مسترد کردیا تھا۔دھرنے کے منتظم ثاقب بنگش کا کہنا تھا کہ’وزیر اعظم نواز شریف کو تو یہ اندازہ بھی نہیں ہے کہ پارا چنار پاکستان میں ہے یا یہ کسی دوسرے ملک میں‘۔ انہی آٹھ دنوں میں امریکی حکومت نے بھارتی وزیر اعظم کے دورہ امریکہ سے قبل کشمیری حریت پسند رہنما سید صلاح الدین کو عالمی دہشتگرد قرار دیدیا، اس موقعے پرپارا چنار کے مسلئے پر مسلسل خاموش رہنے والے وزیر داخلہ نے ایک وزیر خارجہ کا روپ اختیار کرتے ہوئے فرمایا کہ ’امریکا بھارت کی زبان بول رہاہے، ہم کشمیری بھائیوں کی حمایت جاری رکھیں گے‘۔بغیر کسی وقفے کے آٹھ دن سے جاری دھرنا اس وقت ختم ہوگیا جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پارا چنار پہنچنے کے بعد متاثرین کے تقریباً تمام مطالبات تسلیم کرلیے، جبکہ ایف سی کمانڈنٹ کو بھی تبدیل کردیا گیا ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بتایا کہ حالیہ واقعات میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کے واضح شواہد ہیں لیکن مقامی سہولت کاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جس پر فوجی عدالتوں میں مقدمے چلائے جائیں گے۔

آٹھ دن جاری رہنے والا دھرنا جو اب ختم ہوچکاہے اور جس کو ختم کرانے میں سول حکومت کا کوئی کردار نہیں جاتے جاتے ایک پیغام دئے گیا ہے کہ پاکستان کی بقا کو بیرونی اور اندرونی خطرات کا بہت زیادہ سامنا ہے، دہشتگردی سے اب تک 70ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کی جان لی جا چکی ہے، اور 23 جون کو ملک کے تین شہروں میں ہونے والے دہشتگردی سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ دہشتگردوں کی کمر اب تک سلامت ہے، لیکن پاکستان کے عوام نے بھی اب تک بڑی بہادری سے دہشتگردی کو جھیلا ہے۔ شاید اب پاکستان کے دشمنوں نے جو اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی، خدا نہ کرئے پاکستان کو شام اور عراق بنانے کا سوچا ہےجس کے لیے پہلی مرتبہ پارا چنار کے دھرنے کو استمال کیا گیا ہے۔ پارا چنار کے پہلے دو دن کے دھرنے میں میڈیا اور سوشل میڈیا دہشتگردی پر بات کرتے رہے، لیکن پھر اچانک میڈیا اور خاصکر سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ جنگ شروع ہوگئی ، اب دہشتگردی کورونے کے بجائے سعودی عرب اور ایران کے حامی ایک دوسرئے کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ بہت سےشعیہ سنی نام نہاد دانشور ایک دوسرئے کے مسلک کو برا ثابت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ پاکستان فوج کو کہنا پڑا کہ ’دشمن کی خفیہ ایجینسیاں اور ملک دشمن عناصر حالیہ واقعات کو جان بوجھ کر فرقہ وارانہ اور نسلی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں‘۔ افسوس ایسا اب تک ہورہا ہے، اس ملک میں رہنے والے ہر فرد کو بغیرنسلی یا مذہبی امتیاز برابر کے حقوق حاصل ہیں۔

وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے وزیر داخلہ نے پارا چنار نہ جاکروہاں کے عوام کوشایدیہ پیغام دیا ہے کہ ’ہم میں سےانسانیت مرچکی ہے‘، لیکن میری پاکستان کے عوام سے ہاتھ جوڑ کر عرض ہے کہ اس ملک کے اصل مالک آپ ہیں لہذا خدارا متعصب مذہبی اورفرقہ وارانہ تحریروں کا اثر نہ لیں اور آپس میں اتحاد قائم رکھیں۔ میری اپنے دانشوروں سے بھی درخواست ہے کہ اپنی تحریروں سے پاکستان مخالف عناصرکی مذمت کریں اور عوام کے لیے وہ تحریریں لکھیں جس سے عوام میں یکجھتی پیدا ہو۔

Syed Anwer Mahmood

Syed Anwer Mahmood

تحریر : سید انور محمود