پیرس میں حملے! عالمی ردعمل اور مسلمانوں کی مشکلات

Paris Attack

Paris Attack

تحریر: محمد صدیق پرہار
فرانس کے دارالحکومت پیرس کے سات مختلف مقامات پر دہشت گردوں کی فائرنگ اور خود کش دھماکوں کے نتیجے میں ١٨٠ افرادہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہوگئے سب سے زیادہ جانی نقصان کنسرٹ ہال میں ہواجہاں دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے پہلے خوف وہرا س پھیلایا ایک سواٹھارہ افرادکویرغمال بنایا اورپھرسب لوگوںکوگولیوں سے چھلنی کردیا۔ ایک گھنٹے میں فورسز وہاں پہنچ گئیں جن کی فائرنگ سے آٹھ دہشت گردہلاک ہوگئے ایک حملہ آورکوزخمی حالت میں گرفتارکرلیا گیا جس نے پولیس کوبیان دیا کہ یہ فرانس کی شام میںمداخلت کانتیجہ ہے۔تھیٹر میں فائرنگ سے سوافرادہلاک ہوئے۔ فٹبال سٹیڈیم کے باہرتین خود کش دھماکے ہوئے ،کیفے اورریستورانوں کوبھی نشانہ بنایا گیا۔عینی شاہدین نے اپنے تاثرات میں کہا ہے کہ ہرطرف خون ہی خون تھا افراتفری تھی اورسائرن بج رہے تھے لوگ جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے۔

وزیراعظم نوازشریف نے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوںکوانصاف کے کٹہرے میں لانے کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔مصیبت ودکھ کی اس گھڑی میں فراسیسی حکومت اورعوام کے ساتھ ہیں۔تعزیتی پیغام میں عزیراعظم نے کہا کہ بے گناہ افرادکونشانہ بنایا گیا میری دعائیں بربریت کانشانہ بننے والے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ پاکستان شرپسندوں کوکیفرکردارتک پہنچانے میںمددکرے گا۔سوات میں خطاب کرتے ہوئے نوازشریف نے کہا پاکستان دنیا کودہشت گردی سے نجات دلانے کے لیے اپناکرداراداکرتا رہے گا۔ہم چاہتے ہیں کہ پوری انسانیت کودہشت گردی سے نجات ملے۔امریکی صدرباراک اوباما نے واشنگٹن میں پریس کانفرنس میں کہا اس مشکل وقت امریکہ فرانس کے عوام کے ساتھ ہے۔ دہشت گردوں کوکیفرکردارتک پہنچانے کے لیے امریکہ فرانس کے ساتھ مل کرکام کریں گے۔

یہ مشترکہ عالمی روایات پرحملہ تھا۔دہشت گردوںکوانصاف کے کٹہرے میںلانے کے لیے جوبھی ہوسکا کریں گے۔دہشت گردوںکاہرجگہ پیچھا کیاجائے گا۔ہم بھی اس صورت حال سے گزر چکے ہیں۔اوبامانے فرانسیسی ہم منصب فرانسو اولاند کوفون کیااورواقعہ کی تحقیقات کے لیے تعاون کی پیشکش کی اورکہا ہم دہشت گردوں کو شکست دے کردم لیں گے۔ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون نے پیرس کی کارروائیوںکوقابل نفرت دہشت گرد قراردیا۔نیٹوکے سیکرٹری جنرل نے کہا دہشت گردی کبھی جمہوریت کوختم نہیں کر سکتی۔ پوپ فرانس نے کہا پیرس حملے تیسری عالمی جنگ کی طرف ایک قدم ہیں۔جانی نقصان پربہت صدمہ ہوا۔تیسری عالمی جنگ کی طرف حالات بڑھنا شرو ع ہوگئے ہیں۔وہ ان حملوں پر لرز کررہ گئے ہیں۔امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے کہا پیرس حملوں کے بعد دہشت گردی کوشکست دینے کاعزم اورمضبوط ہوگیا ہے۔شامی مسئلے کے منفی اثرات پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔

Condemnation

Condemnation

ان کے علاوہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون ،روسی صدرولادی میرپوٹن ،جرمن چانسلر انجیلا مرکل ، افغان صدراشرف غنی ،چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ ،برطانوی شہزادہ چارلس ،چین، نریندرمودی ،وزیراعظم کینیڈاجسٹن ٹروڈو نے بھی پیرس پر حملوں کی مذمت کی ہے۔ فرانس سے اظہاریکجہتی کرتے ہوئے ٹورنٹو، سڈنی اورسان فرانسسکوکی مشہور عمارتیں فرانس کے پرچم کے رنگ میں رنگ دی گئیں۔کئی شہروںمیں مرنے والوںکی یادمیں شمعیں روشن کی گئیں۔دنیابھرمیں فرانس کے سفارتخانوں کے باہرلوگوںنے گلدستے رکھے اور اظہار تعزیت کیا۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا دہشت گرد گروپ کسی اصول پریقین نہیں رکھتے اورنہ ہی ان کااسلام سمیت کسی الہامی مذہب سے تعلق ہے۔عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف متحدہوجائے۔وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے پاکستان میں متعین فرانسیسی سفیر کو ٹیلیفون کرکے پیرس حملوں کی شدید مذمت کی اور کہا ہے کہ پنجاب سمیت ملک بھرکے عوام مصیبت کی اس گھڑی میں فرانسیسی عوام کے ساتھ ہیں۔

دہشت گردپوری انسانیت کے کھلے دشمن ہیں۔پاکستان دنیامیں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہونے والاملک ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک پچاس ہزارسے زائدپاکستانی شہری اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاراپنی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔ سفاک درندے ہیں وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں۔کڑی سے کڑی سزاکے حق دارہیں ۔سابق صدرآصف زرداری نے کہا ہے کہ اقوام عالم کومتحدہوکردہشت گردی کے خلاف جنگ لڑناہوگی۔ساری دنیاکی عوام کودہشت گردی سے ڈرایانہیں جاسکتا۔امن پرست عوام دہشت گردی کے خلاف جدوجہدجاری رکھیں گے فرانسیسی عوام کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔سعودی سرکاری خبرایجنس کیمطابق شاہ سلمان بن عبدالعزیزنے فرانسیسی صدرفرانسواولاندسے ٹیلی فون پربات کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردامن واستحکام کے دشمن ہیں۔اس لیے دنیاکوان کے رحم وکرم پرنہیں چھوڑاجاسکتا۔

پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کی شدیدالفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی ایک ناسورہے ہم سب مل کراس کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔دریں اثناء شاہ سلمان نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئٹرپراپنے بیان میں لکھا ہے کہ اسلام کاایسے وحشیانہ افعال سے کوئی تعلق نہیں ۔عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف جنگ موثربنائے۔اخباری رپورٹس کے مطابق حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی ہے۔اس سے پہلے حملوں کی ذمہ داری طالبان قبول کیا کرتے تھے۔دہشت گرد تنظیم داعش نے پیرس میں حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے یورپ اورامریکہ کے متعدد شہروں کونشانہ بنانے کااعلان کردیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق داعش نے اپنے اعلان میں کہا کہ مستقبل میں روم، لندن اورواشنگٹن سمیت کئی شہروںپر حملے کیے جاسکتے ہیں۔

ISIS

ISIS

داعش نے فرانس کودھمکی دی ہے کہ اگراس نے صلیبی مہم جاری رکھی تواس پرمزیدحملے کیے جائیں گے۔غیرملکی میڈیاکے مطابق داعش نے آن لائن جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ آٹھ بھائیوں نے صلیبی فرانس پریہ حملہ کیا ہے انہوںنے بارودسے بھری جیکٹیں پہن رکھی تھیں۔یہ بیان عربی اورفرانسیسی زبان دونوںمیں جاری کیاگیا ہے ۔بیان میں کہاگیا ہے کہ جمعہ کی رات حملوں کے اہداف کابڑی احتیاط سے انتخاب کیاگیاتھا۔داعش نے کہا ہے کہ فرانس اپنے لڑاکاطیاروں کے ذریعے خلافت میں مسلمانوںپرفضائی حملوںکاقصوروارہے۔فرانس امریکہ کی قیادت میں داعش مخالف اتحادمیں شامل ہے اوراس کے لڑاکا طیارے گذشتہ ایک سال سے عراق میں داعش کے ٹھکانوںپربمباری کررہے ہیں اوراس سال ستمبرسے فرانسیسی لڑاکاطیارے شام میں بھی داعش پربمباری کررہے ہیں۔فراسیسی صدرفرانسو اولاند نے دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کردیا۔

فرانسیسی وزیراعظم نے کہا ہے کہ داعش کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔ترکی کے شہرانطالیہ میںجی ٢٠ ممالک کی سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے باراک اوباما نے کہا ہے امریکہ حملوں کے ذمہ داروںکوپکڑنے اورانہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے فرانس کے ساتھ کھڑاہے۔داعش کے خلاف پہلے سے زیادہ شدت سے کارروائی کریں گے۔شام میں سیاسی طریقے سے حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ترکی مضبوط ساتھی ہے۔امریکہ اپنے اتحادیوں سے مل کرشام کے تنازع کے پرامن تصفیے اورمشرق وسطیٰ سے داعش کے مکمل خاتمے کی کوشش کرے گا۔داعش ایک ایسی قوت بن چکی ہے جس نے انقرہ سے پیرس تک لوگوں کودکھ اورتکلیفوںمیں مبتلاکررکھا ہے۔گمراہ نظریات کی بنیادپر معصوم انسانوںکی جان لینا صرف فرانس یا ترکی نہیں بلکہ پوری مہذب دنیاپرحملہ ہے۔

جس کامل کرمقابلہ کرناچاہیے۔اوباما اپنے اس خطاب میں یہ بتادیتے کہ پاکستان میںڈرون حملوں میں اس نے کتنے بے گناہ اورمعصوم انسانوں(مسلمانوں) کوشہیدکیا ہے۔اور وہ بھی مہذب دنیا پرحملے تھے یاوہ پاکستان کومہذب دنیا کاملک نہیں سمجھتے۔امریکی صدرباراک اوباما اورروسی صدرولادی میرپیوٹن کے درمیان داعش کے خاتمے اور شام کے تنازع کے سیاسی حل پراتفاق ہوا ہے۔ فرانس نے شام میںفضائی کارروائیاں تیز کردی ہیں۔ ترجمان وائیٹ ہائوس نے کہا ہے کہ روس بشارالاسد کے مخالفین کے بجائے داعش کے خلاف فضائی حملے کرے۔فرانس اورامریکی فضائیہ کی رقہ میں بمباری سے داعش کاتربیتی کیمپ تباہ ہوگیا۔ فرانسیسی وزیراعظم نے کہا کہ دولت اسلامیہ ہم سے جیت نہیں سکتی۔

Abdulhamid

Abdulhamid

فرانسیسی وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ شام میں کارروائی کا حق رکھتے ہیں ۔برطانوی میڈیا کیمطابق پیرس حملوں کے ماسٹرمائنڈکی شناخت عبدالحامد کے نام سے ہوئی ہے جوکہ بیلجیئم کا رہنے والا ہے۔امریکی میڈیاکے تحقیقاتی ذرائع نے بتایا کہ مرکزی ملزم عبدالحامد عبادنے گذشتہ سال اگست میں ایمسٹرڈیم سے پیرس آنے والی ہائی سپیڈ ٹرین پربھی حملے کی کوشش کی تاہم ناکام رہے اس کے ساتھ تین امریکی شہری بھی تھے۔جنہوںنے گارڈ پرحملہ کیا۔قبل ازیںپیرس کے سرکاری وکیل کے دفترسے جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق دوخودکش حمل آوروں احمدالمحمد اورسمعی امیمورکوشناخت کرلیا گیا ہے۔دوسری طرف پیرس میں حملوں کے بعد مغربی ممالک میں مسلمانوں کی مشکلات بڑھنے لگی ہیں۔فرانسیسی وزیرداخلہ نے کچھ مساجدکوبندکرنے کاعندیہ دے دیا ہے۔ایک فرانسیسی ٹی وی کوانٹرویودیتے ہوئے اس نے واضح طورپرکہا کہ نفرت پھیلانے والے علماء کوملک بدرکرکے ان کی مساجدکوبندکردیناچاہیے۔

فرانس سے گزشتہ تین سال میں چالیس مسلم مذہبی راہنمائوںکوملک بدرکیا جاچکا ہے۔جن میں سے پچیس فیصدرواں سال کے ٦ ماہ میں نکالے گئے۔دوسری جانب امریکی ریاست مشی گن کے گورنرنے مزیدشامی مہاجرین کوپناہ دینے سے انکارکردیا ہے۔غیرملکی میڈیا کے مطابق کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کے شہر پٹیربرومیں نامعلوم افرادنے مسجدکوآگ لگادی ہے۔پولیس کے مطابق آگ لگنے سے مسجدکا٨٠ فیصدحصہ جل گیا ہے۔مسلم کمیونٹی کے مقامی راہنماکے مطابق واقعے کے بعدمسجد ناقابل استعمال ہوگئی ہے۔پولیس کاکہنا ہے کہ ابھی یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ واقعہ پیرس حملوںکاردعمل ہے یانہیں۔پیرس میں حملوں کے بعد فرانس کی سرحدوںکوسیل کردیا گیا تاکہ کوئی دہشت گردملک سے بھاگنے نہ پائے۔جبکہ پاکستان کوافغانستان سے دہشت گردوں کی پاکستان میں آمدروکنے کے لیے پاکستان افغانستان سرحدسیل نہیں کرنے دی گئی۔

پاکستان کوکہا جارہا ہے کہ وہ سزائے موت پرعمل درآمدروک دے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے کہا گیا کہ یہ ظالمانہ اقدام ہے۔اورخود فائرنگ کرکے آٹھ حملہ آور ہلاک کرڈالے۔وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے کہا ہے کہ پیرس حملے سمیت دنیامیں دہشت گردی کے حالیہ واقعات سے بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کے لیے مشکلات اورمسائل میں اضافہ ہوگا۔اس سلسلے میں وزارت داخلہ ،وزارت خارجہ اورایف آئی اے سے مل کرایسی پالیسی اورلائحہ عمل وضع کرے جس میں غیرممالک میں بسنے والے پاکستانیوں سے کسی غیرقانونی سلوک پران کی مددکی جائے۔ایک بیان میں وزیرداخلہ نے کہا کہ غیرممالک میں رہنے والے ہم وطن پاکستان کااثاثہ ہیں اورانہیں بلاوجہ کسی مشکلات اورمسائل سے بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔فرانس میں پاکستانی سفارت خانے نے کہا ہے کہ وہاں مقیم پاکستانی برادری پیرس حملوں کے بعدکسی دبائو کا شکار نہیں۔

Problems of Muslims

Problems of Muslims

امریکہ میں نائن الیون کے بعد مسلمانوں کے مسائل اور مشکلات میں اضافہ ہوگیا تھا ۔اب پیرس میں حملوں کے بعد بھی مسلمانوں کی مشکلات اور مسائل میں اضافہ ہو گیا ہے۔تب بھی اسلام نشانے پرتھا اوراب بھی اسلام نشانے پرہے۔ان حملوں کے بعد بھی مساجداور مدارس اور مسلمانوں کو نشانے پر رکھا گیا۔ اب بھی فرانس میں مساجد بند کرنے کاعندیہ دیاجاچکا ہے۔یہی فرانس ہے جس میں گستاخانہ خاکے شائع ہوئے تھے جس کو آزادی اظہارکانام دیا گیا تھا۔مسلمانوں کے دینی جذبات اوران کی دینی حمیت پر حملہ کیا جائے تووہ اظہارکی آزادی کہلاتا ہے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے والوں پر حملہ ہوجائے تووہ دہشت گردی کہلاتا ہے۔نائن الیون کی منصوبہ بندی بقول امریکہ افغانستان میںہوئی جس کے بعد افغانستان کے خلاف اعلانیہ اورپاکستان کے خلا ف غیراعلانیہ جنگ شروع کردی گئی۔

پیرس میں حملوںکی منصوبہ بندی شام میں ہوئی جس کے بعد فرانس نے شام میں حملوںمیں تیزی کردی ہے اورامریکہ کارروائی بڑھانے کااعلان کردیا ہے۔نائن الیون کے حملوں کی ذمہ داری طالبان پرعائد کی گئی جبکہ پیرس کے حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی ہے ۔یہی فرانس ہے جس میں مسلمان خواتین پرسکارف پہننے پر پابندی لگائی گئی۔ ہم داعش پر لکھی گئی اپنی تحریر میں لکھ چکے ہیں کہ یہ مسلمانوں کے لیے ایک نئی مصیبت ہے۔اب اس مصیبت کاآغازہوچکا ہے۔اب تمام مسلمان ممالک کے سربراہان کومل کریہ مہم چلانی چاہیے کہ دنیابھرمیں دہشت گردی کے واقعات کومسلمانوں اوراسلام سے نہ جوڑاجائے۔ کوئی تنظیم اسلام کانام استعمال کرکے دہشت گردی کرتی ہے تواس کااسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اوردنیا میں کسی جگہ بھی دہشت گردی کے واقعہ کے بعد مسلمانوں پر شک کرنا اور انہیں مشکلات میں مبتلا کرنے کا سلسلہ بند کر دیا جائے۔

Siddique Prihar

Siddique Prihar

تحریر: محمدصدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com