راہیں جدا جدا

MQM and Rangers

MQM and Rangers

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
تالی دونوںہاتھوں سے بجتی ہے لیکن اگر ایک ہاتھ پیچھے کھینچ لیاجائے توتالی نہیںبجا کرتی۔ کراچی کی صورتِ حال پرآجکل یہی کچھ ہورہاہے ۔سندھ اسمبلی نے رینجرز اختیارات کے بارے میںجوقرارداد پاس کی اُس کومدّ ِنظر رکھتے ہوئے توبحالیٔ امن کاخواب ادھوراہی رہے گاکیونکہ اِس قرارداد سے صاف ظاہرکہ سندھ حکومت ایم کیوایم کو تو ”رگڑا” دینے کوتیارلیکن اپنے لیے کھلی کرپشن کی طلبگار۔ اسی لیے وہ کرپشن کے معاملات پربدک اُٹھتی ہے جبکہ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کانقطۂ نظریہ کہ صرف دہشت گردوں ،بھتہ خوروں اورٹارگٹ کلرزپرہاتھ ڈالنے سے بات نہیںبنے گی جب تک اُن کے سہولت کاروںکے گردشکنجہ نہیںکسا جاتا۔اسٹیبلشمنٹ کی بات بالکل درست کہ برائی کے تن آوردرخت کی صرف شاخیںکاٹنے سے برائی ختم نہیںہوا کرتی ،اُسے جڑسے ہی اکھاڑنا پڑتاہے ۔لیکن سندھ میںتو برائی کی جڑیںدُور دورتک پھیلی ہوئی ہیںاورسہولت کاروہ کہ جن پرہاتھ ڈالنابظاہرناممکن ۔ویسے ہم سمجھتے ہیںکہ پیپلزپارٹی کے ساتھ ”ہَتھ” ہوگیا ہے۔ہماراسارا غُصّہ نوازلیگ پرجس نے بیچاری پیپلزپارٹی کو”کھَبی دِکھاکر سَجی” ماری ہے۔ بھلایہ بھی کوئی بات ہوئی کہ اتنی محنتوںسے کمائی گئی دولت کوہمارے”زَربابا” اوراُن کے دستِ راست ”ایویںای” ضائع کردیں۔

رینجرزکو کیاپتہ کہ ” ایسی دولت” کمانے کے لیے کتنے پاپڑبیلنے پڑتے ہیں۔ کہایہ گیاکہ ساراآپریشن ایم کیوایم کے خلاف کیاجا رہاہے اوراِس کے کپتان بھی وزیرِاعلیٰ سندھ سیّدقائم علی شاہ ہونگے لیکن نوازلیگ کے ذہن میںکچھ اورہی کھچڑی پک رہی تھی۔ قارئین کویاد ہوگا کہ ہمارے خادمِ اعلیٰ پیپلزپارٹی کے دَورمیں ”زَربابا ،چالیس چوروں” کوسڑکوںپر گھسیٹنے کے دعوے کرتے رہے اورایسا کہتے ہوئے اُنہوںنے عالمِ غیض میںکئی مائیک بھی توڑے۔ بڑے میاںصاحب اُنہیں ”ہَتھ ہَولا” رکھنے کی تلقین کرتے رہے لیکن خادمَ اعلیٰ اپنی ”حَرکتوں” سے باز نہ آئے۔اکثرایسا ہوتاکہ اِدھرخادمِ اعلیٰ سڑکوںپر گھسیٹنے کے نعرے لگارہے ہوتے اوراُدھر میاںنواز شریف صاحب ایوانِ صدرمیں زرداری صاحب سے خوش گپیوںمیں مصروف ہوتے ۔جب نوازلیگ مرکزمیں برسرِاقتدار آئی توہماراخیال یہی تھاکہ اب پیپلزپارٹی کی شامت ”آوے ای آوے” لیکن ایسا”کَکھ” بھی نہیں ہوا ۔غصّہ توہمیں بھی بہت آیالیکن یہ سوچ کر چُپ ہورہے کہ کپتان صاحب کے ”دھرنوں” میںپھنسے میاںنواز شریف صاحب بے بَس ہیں۔لیکن حقیقت یہ کہ خادمِ اعلیٰ جس منصوبے پرکام کررہے تھے وہ تو ہمارے وہم وگمان میںبھی نہ تھا ۔جونہی حکومت کپتان صاحب کے دھرنوںسے فارغ ہوئی اُسے کراچی کاامن بحال کرنے کاخیال ستانے لگا۔

وزیرِاعلیٰ اِس نشے میںسرشارکہ ساراآپریشن ایم کیوایم کے خلاف ہی ہوگا اِس لیے وہ لمبی تان کر سوتے رہے اورپُلوںکے نیچے سے بہت ساپانی گزرگیا ۔ہمارے سینیٹرمشاہداللہ خاںبھی عجیب ہیں۔ پہلے اُنہیںایک بیان پروزارت سے ہاتھ دھونے پڑے اوروہ منصہ شہودسے ایسے غائب ہوئے کہ ہم تواخبارات میںتلاشِ گمشدہ کااشتہار دینے والے تھے لیکن جب ظاہرہوئے توایک دفعہ پھر ”کھڑاک” کردیا ۔اُنہوں نے سینٹ کے اجلاس میںیہ بیان داغ دیاکہ مرکز حا لتِ جنگ میںہے اورسندھ حکومت ”حالتِ بھنگ” میں۔ مشاہداللہ خاںکے اِس بیان پرساری اپوزیشن احتجاج کرتی ہوئی واک آؤٹ کرگئی جس پرمشاہداللہ خاں کومعافی مانگنی پڑی۔ شایداُنہوں نے یہ سوچاہو گاکہ اب وزارت تورہی نہیںاِس لیے ایسابیان دینے میںحرج ہی کیاہے۔ ویسے ہم سمجھتے ہیںکہ مشاہداللہ خاںکا بیان بالکل درست تھاکیونکہ ہم نے توالیکٹرانک میڈیاپر قائم علی شاہ صاحب کوہمیشہ سوتے ہی پایاہے۔ پتہ نہیںیہ وزارتِ اعلیٰ کانشہ ہے یاکہنہ سالی کا۔

Rangers

Rangers

جب رینجرزنے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، محکمہ فشریزاور واٹربورڈ پر چھاپے مارنے شروع کیے اورمحمد علی شیخ پرہاتھ ڈالا، زرداری صاحب کے قریبی ساتھی انور مجیدکے گھرچھاپہ پڑاتو منظورکاکا ،انورمجید ملک ،ایم ڈی واٹربورڈ سمیت سبھی ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سرسے سینگ ۔زرداری صاحب بھی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاںدیتے دیتے کھِسک لیے ۔اُنہیںغصّہ اِس بات کاتھا کہ وزیرِاعظم میاںنواز شریف صاحب نے بھی اُن سے ملاقات کرنے سے صاف انکارکر دیا اور”مُک مکا” کی سیاست کوخیرباد کہتے ہوئے اپناسارا وزن اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میںڈال دیا۔ اب نوازلیگ بذریعہ رینجرز قوم سے کیے گئے وعدوںکی تکمیل کررہی ہے اور”زَربابا ،چالیس چوروں” کی شامت آئی ہوئی ہے ۔اب توعمران خاںصاحب بھی ”مُک مکا” کی سیاست کاالزام دھرنے سے بازآ گئے ہیں۔یہی نہیںاُنہوںنے توایک بارپھر یوٹرن لیتے ہوئے پارلیمنٹ میںنوازلیگ کو” ٹَف ٹائم” دینے کے لیے قائدِ حزبِ اختلاف سیّدخورشید شاہ کے ہاتھ پربیت کرلی ہے۔

تحریکِ انصاف کی سیاست بھی عجیب کہ سندھ میںپیپلزپارٹی کی شدیدمخالف اورنوازلیگ کے ساتھ مل کرسڑکوں پراحتجاج کرتی ہوئی اورمرکز میںپیپلزپارٹی کی بانہوںمیں باہیںڈالے نوازلیگ کے خلاف ”متحدہ اپوزیشن” کاکردار نبھاتی ہوئی ۔آخری خبریںآنے تک یہ پتہ نہیںچل سکا کہ وہ کِس کے ساتھ ہے ،نوازلیگ یا پیپلزپارٹی کے ساتھ۔
ہم سمجھتے ہیںکہ اگرکراچی کی روشنیاں لوٹانی ہیں تورینجرزکو فری ہینڈدینا ہوگا ،مشروط اختیارات سے بات نہیںبنے گی۔ وزیرِاعظم صاحب کی زیرِصدارت سول وعسکری قیادت کے 18 دسمبر کوہونے والے اجلاس میںبھی رینجرزکے اختیارات میںکمی پرگہری تشویس کااظہار کرتے ہوئے یہ کہاگیا ہے کہ کراچی آپریشن کی کامیابیوںکو ضائع نہیںہونے دیاجائے گااور ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے روشنیوںکے شہرکو کسی بھی صورت میںجرائم پیشہ افرادکے رحم وکرم پرنہیں چھوڑاجا سکتا۔

یہ بھی فیصلہ کیاگیا کہ رینجرزکے اختیارات کے لیے وفاق، صوبائی حکومت سے رابطہ کرے گا۔ اُدھرکور کمانڈرکراچی لیفٹیننٹ جنرل نویدمختار نے رینجرزہیڈ کوارٹرکا دورہ کرتے ہوئے کہا ”رینجرزکو خصوصی اختیارات دینے سے ہی کراچی میںامن ممکن ہوا ،کراچی کے عوام کے تحفظ کے لیے رینجرزاپنا کردارادا کرتی رہے گی”۔ اب صورتِ حال یہ کہ سول وعسکری قیادت بہرصورت رینجرزکو خصوصی اختیارات دینے کے لیے بضدکہ اِس کے بغیرکراچی میںامن کی بحالی ناممکن جبکہ دبئی میںبیٹھے ”زَربابا” کسی بھی صورت میںخصوصی اختیارات دینے پرآمادہ نہیںکیونکہ اُنہیںاپناسب کچھ ہاتھ سے جاتانظر آرہاہے اِس لیے تصادم کی فضاء پیداہونااظہرمِن الشمس۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر