صبر لیکن کیسے

Patience

Patience

تحریر : عبداللہ ابن علی
السلام و علیکم! زندگی کے سفر کے دوران کئی نشیب و فراز آتے ہیں جس سے رفتار میں فرق آتا ہے اور یہی فرق انسان کوعرش کی مانند بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے یا پھر فرش کی طرح زمین پر پٹخ دیتا ہے حالانکہ یہ بہت ہی معمولی سا فرق ہوتا ہے مگر دو انسانوں کے درمیان واضح طور سے تفاوت کردیتا ہے، ایسی کیا بات ہے کہ ایک انسان درجوں کی بلندیوں پر چلے جاتا ہے جبکہ دوسرا تنزلی کا شکار ہوجاتا ہے ، جی ہاں صبر جس کے بارے میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے ، مفہوم :’صبر اور نماز سے اللہ کی مدد مانگو’ ،’اور اللہ صابرین کے ساتھ ہے’ اور ‘ صبر کرنے والے اور شکر کرنے والے اللہ کے دوست ہیں۔

آپ نے وہ حدیث بھی لازماً پڑھی ہوگی کہ ‘پہلوان وہ نہیں جو اپنے مد مقابل کو پچھاڑ دے بلکہ پہلوان وہ ہے جو اپنے غصے پر قابو پالے ‘۔اب ایک بات صاف طور سے واضح ہے کہ صبر کرنے والے کا مقام یہ ہے کہ قرآن پاک جو کہ سب سے عظیم’ سیلف ہیلپ’ کتاب ہے اس میں کائنات کا خالق و مالک کئی مقامات پر صبر کرنے کی تلقین فرماتا ہے اور اس کے فوائد بھی بتاتا ہے سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ جو بندہ صبر کرتا ہے وہ اللہ کا دوست یعنی ‘ولی’ کہلاتا ہے۔ ہم اس بہت مرتبے والے عمل کو بہت معمولی خیال کرلیتے ہیں اور اس کیلئے ہم نے کئی محاوروں کا سہارا لے رکھا ہے۔ اللہ نے ہمیں انتخاب ‘چوائس’ کی صلاحیت عطا کی ہے کہ اب یہ ہماری مرضی ہے کہ ہم اپنے لئے کیا پسند کرتے ہیں ، اب یہی بات صبر کرنے اور نہ کرنے میں بھی صادر ہوتی ہے کہ آیا ہم صبر کرلیتے ہیں یا کوئی غلط قدم اُٹھا لیتے ہیں۔

Patience and Thanks

Patience and Thanks

اچھا جناب صبر کے بارے میں ہم نے جان لیا کہ صبر کرنے کے کیا فوائد ہیں لیکن آپ سوچ رہے ہونگے کہ میں نے آپ کو صبر کی تلقین یا پھر نصیحت کی ہے لیکن صبر کرتے کیسے ہیں ؟ جی ہاں اگر آپ اپنی زندگی میں اس ہتھیار کے استعمال سے نابلد ہیں کیونکہ یہ ہنر نہ ہی آپ اسکول میں سیکھتے ہیں نہ ہی کسی اور ادارے میں ، بہت کم خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں ایسے اساتذہ ملتے ہیں جو کہ زندگی کے مضمون میں کافی مہارت رکھتے ہیں یہاں یہ بات بھی واضح کردوں کہ آپ کو زندگی میں بہت سارے مضامین مل جائیں گے لیکن زندگی کا موضوع نہیں ملے گا ۔ اور یہ وہ موضوع ہے جو آپ اسکول کالج یا یونیورسٹی سے نہیں سیکھتے بلکہ اپنے مشاہدات ، مطالعے اور بڑے اساتذہ جنہیں میں اپنی زبان میں ‘گُرو’ کہتا ہوں جو ولی اللہ ہوتے ہیں اللہ سے قریب ہوتے ہیں اور زندگی پر بہترین مشاہدہ رکھتے ہیں ان کی صحبت میں نہ صرف آپ صبر کرنا سیکھ لیتے ہیں بلکہ زندگی کے اور بہت سارے موضوعات سیکھ لیتے ہیں اور آپ کو زندگی بہترین طریقے سے گزارنے کا سلیقہ آجاتا ہے۔

صبر کا معاملہ آپ کے دماغ میں موجود نیورونز سے ہے اور نیورونز کس طرح کام کرتے ہیں میں آپ کو سادہ الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں جناب ہم روزانہ کی بنیاد پر اپنے آپ سے بہت کچھ کہتے ہیں اور اسے بار بار دہراتے ہیں اوروہ تمام باتیں نیورونز کے ذریعے آپ کے دماغ کے لاشعوری حصے میں پہنچ جاتی ہیں تو اگر یہ خیالات اور باتیں منفی قسم کی ہیں تو آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور آپ کا ردّعمل منفی ہوگا، اب یہاں صبر کس طرح لائیں؟ بہت ہی آسان ہے ، آپ اپنے آپ سے جو بھی بات کرتے ہیں ان پر دھیان دیں کیا وہ مثبت ہیں یا منفی ہیں؟ اور صرف یہی نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کے بارے میں ضرور جانیئے جو آپ کے بہت قریبی دوست ہیں جو ہر وقت آپ کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔

جی ہاں حدیث ِمبارکہ ہے کہ ‘انسان اپنے دوست سے پہچانا جاتا ہے’، اسی طرح اپنے ماحول پر نگاہ اُٹھائیں کہ کیا وہ ماحول مثبت ہے یا منفی ہے،ایسا کیوں؟ اس کی وجہ بہت سادہ سی ہے جس طرح کے لوگوں اور ماحول میں آپ کا زیادہ وقت گزرتا ہے چونکہ ان کی باتیں آپ بڑے غور سے سنتے ہیں اور ماحول کو دیکھتے ہیں تو یہ سب کچھ لاشعوری طور پر آپ کے دماغ میں بیٹھ جاتا ہے اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر کسی پیالے میں پانی ہے تو اس میں سے پانی ہی نکلے گا اور اگر اس میں شربت ہے تو شربت ہی نکلے گا۔ ایک چینی کہاوت ہے کہ ‘ اپنے پیالے کو صاف کرتے رہاکرو تاکہ وہ صاف رہے’۔ امید ہے آپ اس کام میں مہارت حاصل کرلیں گے اور اپنی زندگی کو مثبت بنالیں گے، اب اجازت چاہتا ہوں، اللہ حافظ۔

Abdullah Ibn Ali

Abdullah Ibn Ali

تحریر : عبداللہ ابن علی