(امن نوبل انعام اور برما (میانمار

Burma Muslim And Peace Award

Burma Muslim And Peace Award

تحریر: عتیق الرحمن
دوسری جنگ عظیم کے بعد ہٹلر ومسولینی کی تحریکوں کے ساتھ ساتھ برطانیہ کا سورج بھی ڈوب رہاتھا ۔1948ء میں برماکو آزادی ملی۔ آمریت سے چھٹکارے کے لئے جنرل آنگ سان کی بیٹی آنگ سان سوچی نے ’’نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی‘‘بنائی اور عوام کونعرہ دیا ’’خوف سے آزادی‘‘ ۔1990ء میں بھاری اکثریت سے کامیابی سمیٹی لیکن فوجی حکمرانوں نے سوچی کو حراست میں لے کر بندکردیا۔دوران قید ہی نوبل انعام دینے والوں نے آنگ سان سوچی کو1991ء میں امن نوبل انعام سے نوازا۔2010ء میں عالمی دباؤکے پیش نظر ان کی نظربندی ختم ہوئی۔اِس وقت آنگ سان سوچی برماحزب اختلاف کی رہنماء ہیں اور نومبر میں ہونے والے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی سمیٹنے کی کوشش میں ہیں ۔یہ انتخابات اس وقت ہورہے ہیں جب برما میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے۔ تقریباََ11لاکھ کے قریب مسلمان دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ۔ 3سال قبل بھی بدترین تشدد کی وجہ سے ڈیڑھ لاکھ کے قریب برما کے مسلمانوں کو برما سے نکالاگیا ۔شاید دنیا میں معلوم تاریخ کے مطابق اس قدر بدترین ظلم وتشدد شاید ہی کسی قوم پر ہوا ہو جو آج برما کے مسلمان سہہ رہے ہیں۔ سوچی اس وقت برما کی حزب اختلاف کی رہنماء ہیں اورانہوں نے اپنے 15سال قید میں کاٹے ہیں جو ان کی جمہوریت سے محبت کو ظاہر کرتے ہیں۔

لیکن مقام حیرت ہے کہ سوچی کا نعرہ’’خوف سے آزادی ‘‘ اور برما کے مسلمان جو کے خوف کی لیکر سے بھی کہیں نیچے اِسی سوچی کے ملک میں زندہ رہنے کی کوشش کررہے ہیں کسی بھی طرح میل نہیں کھاتے ۔آنگ سان سوچی امن نوبل انعام یافتہ کی طرف سے ایک لفظ تک ان مظلوم مسلمانوں کے لئے نہیں بولا گیا ۔میں نے تو سنا تھا کہ امن انعام ان کو ملتا ہے جن کے دل میں انسانیت کا درد کوٹ کوٹ کربڑا ہوتا ہے جو انسانیت کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔لیکن سوچی کو دیکھ کر مجھے سنی ہوئی یہ بات غلط لگتی ہے ۔سوچی کو اپنے امن نوبل انعام کی ہی لاج رکھ لینی چاہیے تھی ۔

سوچی کے ملک میں مسلمانوں پر مظالم کوئی نئی بات نہیں یہ مظالم ایک لمبی تاریخ رکھتے ہیں ۔1978ء میں ہونے والے حملوں کے بعد کم وبیش تین لاکھ برمی مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کرنے پرمجبور ہوگئے تھے ۔ 1982ء میں برمی مسلمانوں کو برما کا شہری تسلیم کرنے سے برمی حکومت نے انکار کردیا ۔بہرکیف ایک لمبی تاریخ ہے جو برمی مسلمانوں کی خون سے رقم ہے ۔اب بھی ایک عرصے سے برما کے مسلمان مظالم کی چکیوں میں پس رہے ہیں لیکن عالم اسلام کی طرف سے کوئی ٹھوس ردعمل سامنے نہیں آیا۔چند ایک ممالک اور تنظیموں نے اس معاملے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور ایک آدھی تنظیم نے انڈونیشیامیں پناہ گزین برماکے مسلمانوں کی بحالی اور ان کی امداد کے لئے کام شروع کیا ہے۔

Atrocities

Atrocities

پچھلے دنوں سینیئر کالم نگار سیدعاصم محمود کا کالم نظروں سے گذرا اس میں انہوں نے ان مظالم کے متعلق تفصیل سے لکھا کہ موجودہ مظالم کب سے شروع ہیں ان کے کالم کے ہی الفاظ قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ’’1947ء میں اراکان کی 50فیصد آبادی روہنگیا مسلمانو ں پر مشتمل تھی ۔جبکہ بقیہ باشندے مختلف بدھی نسلی گروہوں خصوصاََ راخینی سے تعلق رکھتے ۔تب مسلمانوں نے یہ تحریک چلائی کہ شمالی اراکان کا علاقہ مشرقی پاکستان میں شامل ہوجائے ۔ اس ضمن میں محمدعلی جناح سے رابطہ بھی کیا گیا ۔تاہم برطانوی اور برمی لیڈروں کی سازباز نے تحریک آزادی کامیاب نہ ہونے دی ۔جب برمی فوج نے بزورطاقت تحریک کو ختم کرنا چاہا ،توروہنگیا مسلمانوں سے تصادم ہوگیا ۔یوں برمی حکمران طبقے(فوج،سیاست دانوں ،افسرشاہی اور راہبوں ) اور مسلمانوں کے مابین طویل لڑائی کا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے ۔برمی حکومت نے وقفے وقفے سے اسلامیوں پر عسکری حملے کئے ۔ان کی وجہ سے سیکڑوں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا ۔دس لاکھ سے زائد بنگلہ دیش ،پاکستان ،ملائشیااور سعودی عرب ہجرت کرگئے ‘‘ گویا کہ روہنگیا مسلمان قیام پاکستا ن میں حصہ لینے کی وجہ سے ان مظالم کا شکارہیں اور اراکانی مسلمان دوسرے کشمیری ہیں جو پاکستان سے محبت کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد پاکستان دشمنی میں بھارت سے بھی دوہاتھ آگے نظر آتی ہیں ۔ان کا بیان ہے کہ برما کے مسلمان برمی حکومت کا مسئلہ ہے ہمارا نہیں۔گویا انہوں نے اپنے آپ کو امت مسلمہ کے بلاک سے نکالنے کی کوشش کی ہے اور مسلمانوں کے زخموں کو کرید کریدکر نمک چھڑکا ہے ۔برمی حکومت ، افسر شاہی اور حزب اختلاف اس جرم میں برابر کے شریک ہیں بلکہ یہ سب ان کی اجازت سے ہورہا ہے لیکن مسلمان حکمرانوں کی خاموشی کو کیا نام دیا جائے ؟مسلم ممالک کو اپنی ذمہ داریوں کااحساس کرتے ہوئے برمی مسلمانوں کے حق میں ایک مؤثر آواز اٹھا نی چاہیئے اور برما کی حکومت کو مجبور کرنا چاہیئے کہ وہ مسلمانوں کی نسل کشی سے باز آئے ۔ورنہ مسلمانوں کو بچانے کے لئے اگر کوئی انتہائی قدم بھی اٹھانا پڑتا ہے تو گریز نہ کیا جائے ۔اور وہ لوگ جو مسلم ممالک میں جہاد کے نام پر مسلمانوں کا خون بہارہے ہیں ان کو برما میں مسلمانوں پرہونے والے مظالم کیوں نظر نہیں آتے؟ اقوام متحدہ ، سلامتی کونسل اور ہیومن رائٹس کے ادارے کہاں ہیں؟

Hanging

Hanging

جو سعودی عرب میں چوروں کو ملنے والی سزا پر شور مچاتے ہیں اور پاکستان پر زور ڈالا جاتا ہے کہ پھانسی پرعمل درآمد روکا جائے۔ بین الاقوامی ادارے اور ورلڈآرڈر ملک جن کا نشانہ مسلم ممالک کی معصوم اور نہتی عوام ہی بنتی ہے روہنگیا مسلمانوں کے لئے کچھ کرنے کی بجائے خاموشی سے مسلمانوں پرہونے والے مظالم دیکھ رہے ہیں اور اگر کل کو یہی مسلمان مظالم سے تنگ آکر جہاد کا رستہ اپناتے ہیں تو یہ دہشت گرد بن جائیں گے کیونکہ لغت جدیدکے مطابق دہشت گرد ہونے کیلئے مسلمان ہونا لازمی ہے۔انسانی حقوق کے ادارے جو دن رات مسلم ممالک کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں ان کو برمی مسلمانوں پر ہونے والا تاریخ کا بدترین تشدد نظر نہیں آتا یا وہ مسلمانوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے؟

اخیر پر میں ان لوگوں اور تنظیموں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں جو امت مسلمہ کے امت واحد ہونے کی لاج رکھتے ہوئے انڈونیشیا میں روہنگیا مسلمانوں کی امداد میں سب سے پیش پیش ہیں ۔ میں سلام پیش کرتا ہوں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن( پاکستان)اور اس کے چیرمین حافظ عبدالرؤف کو کہ انہوں نے پاکستانیوں کے نام کی لاج رکھتے ہوئے اپنے روہنگیائی مسلمانوں کی امداد شروع کی ہے ۔امداد میں ان کی جماعت خشک راشن ، پہننے کے لئے کپڑے ،دیگر اشائے ضروریہ اور ان کی رہائش کے لئے شیلٹر بنارہی ہے ۔ان حالات میں جب روہنگیا مسلمان بیچارگی کے عالم میں دست دعابلند کئے ہوئے امداد کے منتظر ہیں ،ان کے دکھوں کا مداواکرنا اور ہرممکن امداد پہنچانا ہم سب کا فرض بنتاہے کہ اپنے ان بھائیوں کی جس قدر اور جس طرح ہوسکے مدد کریں لیکن کسی بھی ادارے یا تنظیم کوامداد دینے سے پہلے تحقیق کرلیں کہ امداد آپ کے بھائیوں تک لازمی پہنچ جائے کیونکہ نام نہادتنظیموں اور این جی اوز کی

Atiq Rahman

Atiq Rahman

تحریر: عتیق الرحمن
03216563157