عہد اضطراب

Sahil Munir

Sahil Munir

تحریر: مرزا نصیر خالد
پاکستان ادبی لحاظ سے ایسا خوش قسمت خطہ ہے کہ بقول ڈاکٹر سلیم اختر ہر سو مربع میل میں ہزاروں شاعر پائے جاتے ہیں۔اور میرے خیال میں دنیا میں صرف پاکستان ایسا ملک ہے جو شاعری کے لحاظ سے بہت زیادہ زرخیز ہے۔دنیا کے کسی خطے میں اتنے شاعر نہیں جتنے پاکستان میں ہیں۔اتنی کثیر تعداد میں اپنے آپ کو منوانا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے۔

ساحل منیر اپنے لہجے کا منفرد شاعر ہے۔قدیم و جدید کا حسین امتزاج لئے ہوئے ساحل منیر کی شاعری کا اپنا ہی آہنگ ہے۔مثلاً

تیرے میرے درمیاں جو فاصلے رکھے گئے
میرے تیرے گھر میں ہی وہ بیٹھ کر سوچے گئے

موسمِ ویراں میں جشنِ گل منانے کے لئے
سر ہمارے مقتلوں کی سیج پر رکھے گئے

ساحل منیر بیک وقت مزاحمتی شاعر بھی ہے اور انقلابی رنگ بھی رکھتا ہے۔اور کہیں کہیں پرانی قدروں کا بھی امین نظر آتا ہے۔

مجھ کو میری شناختِ گم گشتہ اے خدا
اس خاکدانِ دہر میں اِک بار بخش دے

Poet

Poet

ملک اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ہر طرف قتل و خون کا بازار گرم ہے۔کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ملک میں کہیں خود کش حملہ نہ ہوتا ہو۔یوں لگتا ہے پاکستان کے سب دشمن اکٹھے ہو گئے ہیں اور انہوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ اس ملک کے لوگوں کو چین سے نہیں رہنے دینا۔اللہ کے نام پر قتل و غارت ہو رہی ہے اور اللہ کے ماننے والوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔انسانی خون پانی سے بھی سستا ہو گیا ہے۔اس وحشت زدہ ماحول میں عہدِ اضطراب کا شاعر ساحل منیر بے ساختہ پکار اٹھتا ہے۔

سوچو کبھی تو غور سے اک بار دوستو
بدلے ہوئے ہیں وقت کے معیار دوستو

اپنے ہی ہاتھ کاٹتے پھرتے ہیں جسم کو
اب کیا کریں گے خنجر و تلوار دوستو

اور پھر اس کے یہ چونکا دینے والے اشعار ملاحظہ کریں:
رقص کرتی ہوئی ظلمت کی رِدا ہوجائو

جائو اس شہرِ صعوبت کے خدا ہو جائو
اپنے ناپاک ارادوں کا عَلم تھامے ہوئے

صبحِ ماتم کی لہو رنگ ضیاء ہو جائو
ساحل منیر کا یہ منفرد اور چونکا دینے والا لہجہ یقینی طور پر ادبی حلقوں میں شرفِ پذیرائی حاصل کرے گا۔