چیف جسٹس کے نام خط

Chief Justice of Pakistan Saqib Nisar

Chief Justice of Pakistan Saqib Nisar

تحریر : شاہ بانو میر

جناب والا بطور امت جہالت کی گہری کھائی میں گر کر تباہ ہو رہے ہیں تقویٰ کی بجائے نا اہلی بزریعہ روپیہ آج معیار کامیابی بن گیا ظلم زیادتی نا انصافی بد دیانتی ریاکاری چوری ڈاکہ قتل و غارت گری صرف اس وجہ سے عام ہو رہی ہے کہ ہم قرآنی تعلیمات سے دور ہو کر جہالت کی تاریکی میں کھو گئے ظلم جبر بے رحمی ہماری آج پہچان بن گئی معاشرے میں باہمی احترام عزت مفقود صرف دولتمند عزت کے مستحق کیسا دیوالیہ کر دیا روایات کو معاشرہ جہالت کا پلڑا بھاری ہونے سے مسلسل عجیب و غریب جرائم کی وجہ سے جھکتا ہی چلا جا رہا ہے
اگر
اس وقت اس کو مہمیز نہ ڈالی گئی تو
اللہ ہی حافظ ہے
آپ سے درخواست ہے کہ دیگر کئ معاملات میں آپکی توجہ سے بہتری کی شنید سنی ہے
وطن عزیز میں جہالت کے اندھیرے کو دور کر کے علم کی قرآن کی شمع اس طرح سے روشن کریں
کہ
ہر سکول میں میٹرک کی سند اس وقت طالبلم کو دی جائے
جب وہ قرآن مجید کا ترجمہ کا امتحان پاس کرے
جس کا جو مسلک ہے اسی مسلک کا ترجمہ اسے پڑہایا جائے
یقین کریں
اس ملک میں 25 سال کے اندر حقیقی انقلاب برپا ہوگا
قرآن ہی اصل فرقان ہے
اس کو پڑھ کر ظالم سے ظالم انسان جب زندگی کے کسی بھی شعبے میں ظلم کرنا چاہے گا
تو ایک بار تو آیات کا ترجمہ اس کے کانوں میں گونجے گا
اور
یہ گونج
اسے ظلم سے باز رکھنے کا موجب بنے گی
آج ہم معاشرے میں امت مسلمہ میں زوال ہی زوال دیکھتے ہیں
وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ظلم کرنے والے ظالم کو معلوم ہی نہیں کہ وہ اپنا”” کاسہ حرص”” کن عذابوں سے بھر رہا ہے
قرآن پاک کی تعلیم کو اداروں میں لاگو کرنا ترجمے کے ساتھ فی الحال مشکل ہے
کیونکہ
اس اسلامی ملک میں 70 سالوں سے ہر شعبے میں مصنوعی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ہے
سنہری پنّی میں لپیٹ کر سستی شے بیچی گئی ہے
معیار اور اعلیٰ سوچ کی سطح گرا دی گئی ہے
اسلام قرآن کی تعلیم سے شناخت پاتا ہے اور یہ شناخت اسے زندگی کے ہر شعبے میں مدد دیتی ہے
جناب والا
سوچیں
اس ملک میں کونسا کام ہے جو نہیں ہورہا کیسے کیسے انداز سے کس کس طرح کے پروگرامز کئے جا رہے ہیں
تعلیمی تفریحی یا دینی یا سیاسی یا تعمیری
مگر

سوائے وقت کے ضیاع اور ملبوسات کی نمائش کے آپکو ذہنی جِلا کیلئے یہاں سے کچھ نہیں ملتا
یہ کوششیں اس وقت بارآور ثابت ہو گی جب بلانے والوں کے پاس سنجیدہ سوچ ہوگی
اور
آنے والے وقت نکال کر نئی سوچ نئی فکر لے کر واپس جائیں
پھر درجہ بدرجہ قوم کا مزاج شعور کا جانچے گا اور اعلیٰ معیار قائم ہوگا
جناب والا
یہ قوم اس وقت سوچنے لائق ہوگی
جب اس کو سوچنے کیلئے اور غور کرنے کیلئے قرآن کے ساتھ حدیث کا علم بآسانی میسر ہوگا
یہ مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے
جناب والا
آپ جتنا چاہیں کام کر لیں بنیاد یہی ہے
اگر آج بھی آپ اس ضرورت کو سمجھ گئے اور آپ نے یہ بنیاد مستحکم انداز سے رائج کر دی تو یقین کریں
بے مقصدیت کی روایت دم توڑ جائے گی
وقت کی اہمیت کو سمجھ کر اس سے درست فائدہ اٹھا کر یہ ہجوم پھر سے قوم کی ہر جامع تعریف پر پوری اتر سکتی ہے
موجودہ چل چلاؤ کے دور میں اس صرف چلنا نہیں ہے
بلکہ
اس اسلام کی تعلیم سے اپنے قد میں مضبوطی پیدا کر کے
حق کو لاگو کرنا ہے اور اصلاح کر کے نظام کی معاشرے کی لوگوں کو ترغیب دینی ہے
ہمارے پاس ایک مستند طاقتور عمدہ مضبوط نظام حیات قرآن و حدیث کی صورت محفوظ ہے
ضرورت اس امر کی ہے کہ
پڑھے لکھے حضرات کو اس طرف متوجہ کروایا جائے
یہ معاشرتی انحطاط اور زوال جو آج ہم دیکھ رہے ہیں
کہ
نہ ہمیں بنیاد کا علم ہے اور نہ تکمیل کا
رونا آج ہر انسان کا ملک میں یہ ہے کہ
اسے کسی طرح ان بڑے لوگوں کی طرح دولت حاصل کرنی ہے
اور
اس دولت کے ساتھ اسے طاقت حاصل کر کے اپنے بے معنی وجود کو جھوٹی شان کی پہچان دینی ہے؟
جھاگ جیسا وقتی رویہ؟
تمام عمر گزار کر موت کے دروازے پر جا کر پتہ چلتا ہے کہ کچھ نہیں حاصل کیا ؟
کیا فائدہ ایسی تگ و دو کا جس میں جھوٹ کو خوشنما بنا کرترقی کے مصنوعی زینوں پر چڑھا جائے ؟
جناب والا
قرآن مجید کا ترجمہ دراصل وہ حقیقی قوم بنانے میں مددگار ثابت ہوگا جس کو “”نیب “” سے نہیں
اللہ سے ڈر لگے گا
خوف خُدا جاہلیت کی وجہ سے آج ملک میں مفقود ہے
زبان کی تیزی جس کو آج ہم ہر سیاسی پلیٹ فارم پر دیکھتے ہیں
صرف
اس قرآن سے دوری کی وجہ سے ہے
یہ ذہنی غربت جہالت ہے جسے اچھی گفتگو میں صرف اور صرف اللہ کا ڈر
اللہ کی پکڑ اور عذاب کی فکر درست کر سکتی ہے
آپ ہر شعبہ زندگی کو ٹھیک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں
خوش آئیند بات ہے
مگر
آپ انسان ہیں عارضی زندگی عارضی قیام
سلسلہ تو ایسا مستقل ہونا چاہیے کہ آپ کے ہونے یا نہ ہونے سے بنیاد سے تعمیر تک کوئی فرق نہ پڑے
احسان عظیم ہوگا اس ملک پر اس قوم پر
کہ
آپ حکم دیں کہ
“”ایک پاکستان””
صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اس ملک میں موجود ہر سوچ ایک نہج پر آئے
اور
وہ صرف اور صرف
قرآن اور سنت کے لاگو ہونے سے ہی ممکن ہے
قرآن ایسا علم ہے جس کی درسگاہ الحمد للہ گھر گھر ہے
صرف اسے نافذ کرنے اور ترجمے سے اس کی اہمیت کو منوانے کی اولین ضرورت ہے
اس کے لئے ہمیں استاذہ کرام چاہیے
اور
استاذہ کیلئے ہمیں محنت کر کے انہیں تیار کرنا ہوگا
یاد رکھیں
قرآن کا ترجمہ انسان کے اندر “”فرقان”” پیدا کرتا ہے
پھر کوئی سیاستدان عوام کا مال ہضم نہیں کر سکے گا
اور
نہ ہی اختیارات کو حد سے تجاوز کر کے استعمال کر سکے گا
یہ تاثیر ہے اس قرآن کی
یہ تعبیر ہے اس کلام کی
جس جس کی زندگی میں آیا اسے نکھار گیا
جس کی زندگی میں دین آکر نکل گیا
اسے خوار کر گیا اسے لوگوں کے قدموں میں گرا گیا
جناب والا
عوام منتظر ہے آپ کے اس حکم کی جس سے ملک نئی سمت چل کر اصل کامیابی حاصل کرے گا۔

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر