جذبات، احساسات سے عاری صحافت

Journalism

Journalism

تحریر: عامر نواز اعوان
محترم قارئین! آج میں جس موضوع پر قلم اٹھا رہا ہوں گو کہ یہ میرے اپنے طبقے کے بارے میں ہی ہے۔ لیکن میرے مزاج سے تمام قارئین آشنا ہیں کہ میں سچ لکھنے سے کبھی گریز نہیں کرتا اور نہ ہی سچ لکھنے کے بعد اس کے نتیجے سے کبھی ڈرا۔ مجھے وہ وقت بہت اچھی طرح یاد ہے کہ جب تھانہ سٹی میں راجہ جاوید انور ایس ایچ او کی سیٹ پر تھا وہ بدتمیز افسر تھا تو تمام لوگ اس کے شر سے بچنے کی کوشش کرتے تھے۔

میں نے تب اس کی بدتمیزانہ زبان جو کہ وہ تھا نہ میں جانے وا لے مسائل زدہ لوگوں پر استعمال کرتا تھا کی روک تھام کیلئے خبر چلا ئی تھی تو اس پر جاوید انور آگ بگولہ ہو گیا تھا اور پھر اس نے موقع تلاش کر کے مجھ پر لاٹھی چارج کرایا تھااس وقت بھی بہت سی صحافتی کا لی بھیڑوں نے ٹاؤٹ مافیا کا کام کیا تھا اور اس کی پوری پوری سپورٹ کی تھی ۔تو یہ لاٹھی چارج بھی میرے سچ لکھنے پر ہی مجھ پر ہوا تھا۔

کیو نکہ سچ لکھنا وہ بھی اس دور میں اتنا آسان نہیںوہ اس لئے کہ آج کل کچھ مافیا نے اپنے صحافی رکھ لئے ہیں جو ان کو تحفظ دیتے ہیںجس کا نقصان ایک طرف ہما رے معاشرے کا ہے تو دوسری طرف ہماری صحا فتی برادری کونقصان ہوتا ہے ۔معاشرے کا یہ نقصان ہے کہ عوامی مسائل کا حل مشکل ہو جا تا ہے۔ صحا فت ایک بہت ہی اعلیٰ شعبہ ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ اب پڑھے لکھے اور تربیت یافتہ صحافی کی عزت بھی پامال ہو رہی ہے اس نقصان کی پوری ذمہ داری چند غیر سنجیدہ ،غیر تربیت یافتہ ، کم پڑھے ہو ئے اور چند پے رول پر کام کر نے والے صحا فیوں پر ہے۔

Encouragement

Encouragement

میں نے اپنے پچھلے کالم میں سرداران ٹمن سے جان چھڑانے کا مشورہ جب اپنے قارئین کو دیا تو اس پر مجھے بہت سی فون کالز موصول ہوئیں سب سے پہلی کال مجھے چوہدری سلطان جن کا تعلق نور پور( ٹمن) سے ہے ان کی موصول ہو ئی انہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی اور اپنے علاقہ کے مزید مسائل سے بھی آگاہ کیا مجھے دلی طور پر خوشی ہو ئی کہ میرے قاری نے مجھے پڑھا اور اس کا فیڈ بیک دیا جبکہ مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اس فون کال کے بعد آج کا دن میرے کالم پر مجھے اور بھی بہت سی کالز موصول ہوں گی۔

بحرحال کالز کا سلسلہ پورا ہفتہ جاری رہا تقریباً تمام طرف سے مثبت کالز کا سامنا رہا لیکن ایک کال میرے لئے بہت اہم تھی جس کی وجہ سے میں اپنے قارئین کو یہ تمہیدسنا رہا ہوں ایک صاحب نے مجھے کال کی نہ حال پوچھا نہ حال دیا بس کال کرتے ہی چڑھ دوڑے کہ تم کون ہوتے ہو سرداران ٹمن پر لکھنے والے ، یہ ہما رے علا قہ کے محسن ہیںتمہیں معلوم ہے کہ وہ کیا کر سکتے ہیں وہ بندہ غائب کرا دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ ان کی تمام باتیں میں نے پورے سکون سے سنیں نام پوچھا تو انہوں نے بتا نے سے انکار کر دیا۔

میں نے ان کو پوری تحمل مزاجی سے سنا پھر ان سے بات شروع کی اور بتایا کہ نہ میں کسی کا پیڈ صحا فی ہوں اور نہ ہی میری کسی سے دشمنی ہے میں نے جو لکھا وہ عوام کی بھلا ئی اور بہتری کیلئے لکھا۔ اس پر انہوں نے جواباً مجھے دو تین صحا فیوں کے نام گنوا ئے کہ ہم ان سے اپنے حق میں لکھوا لیں گے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ زیادہ ایمان دار نہ بنتے پھریں ہم صحا فیوں کو خریدنا جا نتے ہیں۔جوا ب میں ان کو میں نے بتا یا کہ آپ سبھی لوگوں کو خرید نہیں سکتے بس کچھ وہ صحا فی جن کو تر بیت کی ضرورت ہے یا جو اپنے شعبے سے مخلص نہیں وہ تو ایسے چکر میں آسکتے ہیں۔ بحرحال مجھے دلی دکھ ہوا کہ اگر یہ خامی ہما رے چند گنے چنے صحا فیوں میں نہ ہو تی تو اس طرح کسی کو بو لنے کی ہمت ہی نہ ہو تی ۔ اسی لئے اصلاح کی نیت سے میں نے ضرورت محسوس کی اور اپنے ہی شعبہ پر قلم اٹھا نے کی جسارت کی۔

ان موصوف کی باتیں سن کر جہاں دکھ ہوا وہاں یہ بات بھی محسوس کی کہ ہم میں بھی کالی بھیڑیںشدت سے مو جود ہیں اور ان کا یا تو سد باب کیا جا ئے یا ان کی صحا فتی تربیت میں جو کمی با قی رہ گئی ہے اس کو پورا کیا جا ئے ۔ کیو نکہ صحا فت کے اصول کے مطابق ایسے کو صحا فی تو نہیں کہا جا سکتا۔مو جودہ حالات میں اچھے اور سلجھے ہو ئے صحا فیوں کے علا وہ تین طرح کا ماحول چل رہا ہے ایک وہ صحا فی ہیں جو پولیس کے سا تھ تعلقات نبھا رہے ہیں اور عوام میں ان کو ٹاؤٹ ما فیا کے نام سے جا نا اور پکارا جا تا ہے۔

Justice

Justice

ان کا نقصان ہمارے معاشرے کو یہ ہو رہا ہے کہ عوام کو انصاف کی فراہمی پوری طرح ممکن نہیں ہو رہی ۔ کیو نکہ یہاں بات تعلقات اور پیسے کی آجا تی ہے جس نے پولیس ٹاؤٹ صحا فی سے رابطہ کر لیا اس کا کام تو ہو گیا کیو نکہ کچھ پیسے پولیس کو لے دیں گے وہ موصوف اور کچھ اپنی جیب گرم کر لیں گے۔ دوسرے قسم کے وہ صحا فی میدان میں آگئے ہیں جن کا شوق سیاسی پارٹیوں سے تعلقات بنا نا ہے اور ان کی سچی جھوٹی ملی جلی خبریں چلا کر عوام کی آنکھ میں دھول جھونکنا ہے ۔ اس طرح کے صحا فیوں کو یہ سیاسی لوگ پراپیگنڈہ ماسٹر کے نا م سے یاد کر تے ہیں کہ فلاں ہما را پراپیگنڈہ ماسٹرہے ہم اس سے یہ خبر لگوا لیں گے۔

اس طرح کے لوگوں سے یہ نقصان ہو تا ہے کہ عوام تک درست خبر نہیں پہنچتی بلکہ سیاسی لوگ اپنے مفاد والی نیوز چند روپوں میں لگوا کر ایک طرف اپنی جھوٹی شہرت کروا تے ہیں اور اس کے ساتھ عوام کے کام بھی نہیں ہو تے یہی تو وجہ ہو تی ہے کہ ہما رے علاقوں کی گلیاں ، نا لیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہتی ہیں ۔مین ہول کھلے رہتے ہیں کسی سیاسی نما ئندے کو عوام کے مسائل دیکھا ئی نہیں دیتے۔

تیسری قسم کے لوگ جو خود کو صحا فی گر دانتے ہیں وہ سرکاری افسران اور کاروباری احباب سے اپنے تعلقات استوار کر تے ہیں ۔یہ لوگ سرکاری افسران کوجہاں مکمل تحفظ دینے کی کوشش کر تے ہیں وہاں نیم حکیم ، نیم ہو میوڈاکٹرز (جو ہو میو کی بجا ئے ایلوپیتھک ادویات کا استعمال کر تے ہیں )،جعلی پیروں ،جعلی عاملوں یا دونمبر دھندہ کر نے والوں کی پوری طرح سے پشت پنا ہی کر تے ہیں اور وہاں سے منتھلی لیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری افسران پوری طرح سے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے سے قاصر ہو تے ہیں اور دو نمبر لوگ بھی کھلم کھلا اپنے دھندہ میں لگے رہتے ہیں ۔جس کا نقصان معاشرے میں رہنے والے مڈل طبقے یا پسے ہو ئے طبقے کو ہو تا ہے۔

یہ لوگ جذبات ، احساسات سے عاری ہو تے ہیں کیو نکہ ایک صحا فی کی خصوصیات میں یہ چیزیں شامل نہیں۔ جو لوگ صحافت کو مقدس پیشہ سمجھ کر معاشرے میں اپنا کردار ادا کر تا ہے ان کو معاشرہ بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تمام صحا فتی حلقوں سے میر ی التماس ہے ۔کہ کا لی بھیڑوں کو بے نقاب کریں اور ان سے معاشرے کو پاک کریں تا کہ عوام کے مسائل میں کمی آئے۔

Amir Nawaz Awan

Amir Nawaz Awan

تحریر: عامر نواز اعوان
aamir.malik26@yahoo.com
0300-5476104