درداں مارے لوگ

Construction

Construction

تحریر : مسز جمشید خاکوانی
ریال اتنی آسانی سے نہیں کمائے جاتے ،ذرا درجہ حرارت پہ نظر دوڑائیں ساٹھ سینٹی گریڈ ہے آپ کے پیارے اپنی کمائی آپکو بھیجتے ہیں ان کی کمائی کی قدر کریں سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں تارکین وطن اتنی شدید گرمی میں کام کر کے اپنی خون پسینے کی کمائی آپکو بھیجتے ہیں ان پردیسیوں کی قدر کی جائے جو کسی کردہ نا کردہ جرم میں جیل بھی چلے جائیں تو کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا ہماری حکومتیں انکے بھیجے ہوئے زر مبادلہ پر عیش تو کرتی ہے مگر ان کے مسائل سے نہ صرف نظریں چرا لیتی ہے بلکہ ان پہ مزید ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیتی ہے ۔بھارت بنگلہ دیش سمیت اکثر ممالک اپنے سفارت خانوں کے ذریعے اپنے لوگوں سے رابطے میں رہتے ہیں اور کسی مصیبت میں مبتلا ہونے پر انکی مدد بھی کرتے ہیں ۔ایک ہمارا واحد ملک ہے جو ان پردیسیوں کو صرف ان کا خون نچوڑنے کو یاد کرتا ہے اب تو یہ وطن آنے پر بھی ٹیکس دیں گے اور جانے پر بھی ،کیا ظلم ہے یار۔۔۔۔۔کتنے نوجوان ہیں جو اپنی مجبوریوں کی وجہ سے ملک بدر ہوتے ہیں۔

یہاں ملازمتیں نہیں ملتیں ،ملتی ہیں تو تنخواہیں کم ہوتی ہیں سفارش اور رشوت کی دیواریں عبور کر کے کوئی نوکری حاصل کر بھی لے تو اوپر تک تاوان بھرنا پڑتا ہے انہی مجبوریوں سے گھبرا کر ہمارے ملک کا نوجوان باہر کا رخ کرتا ہے اور بوڑھا ہو کر واپس آتا ہے صد افسوس کہ خالی ہاتھ جاتا ہے اور خالی ہاتھ ہی واپس آتا ہے جوانی،طاقت،توانائی گنوا کر اپنوں کی خواہشوں کا دم بھرتے بھرتے اس کی سانس پھول جاتی ہے مگر اس کے باہر جاتے ہی اپنوں کی خواہشوں کا بے لگام گھوڑا سرپٹ دوڑنے لگتا ہے یہ سوچے بغیر کہ ان کا بہت اپنا جانے کس حال میں رہتا ہوگا ویسے تو ہزاروں کہانیاں بکھری پڑی ہیں مگر چند ایک جو میرے علم میں آئیں وہ بہت ہی دل دکھانے والی تھیں۔ایک بہت اچھے گھرانے کا کم عمر نوجوان جو ماں باپ کی اچانک وفات کے بعد بھائیوں بھابھیوں پر بوجھ بننے لگا تو اس نے گھر سے باہر یار دوستوں میں پناہ ڈھونڈی ۔فطرتاً اچھا تھا جرائم اور منشیات سے دور رہا مگر انڈر میٹرک کو کہیں نوکری بھی نہ ملتی تھی ۔محنت مزدوری اس کے بھائیوں کے لیئے باعث شرم تھی وہ جو کبھی ماں کا راج دلارا تھا پیار کے دو بولوں اور روٹی کے دو نوالوں کو ترسنے لگا ایسے میں سعودیہ سے آئے دوست نے مشورہ دیا۔

میرے ساتھ چلو کسی نہ کسی طرح غیر قانونی طور پر باہر پہنچ تو گیا مگر چھپ کر رہنے پر مجبور ،نوکری ملتی نہ تھی مزدوری کرتا تو ہاتھوں کے چھالوں سے خون بہنے لگتا ،عمارتوں کی بلندی پہ ٹانگیں کانپنے لگتیں ۔جب باقیوں نے یہ حال دیکھا تو کھانا بنانے اور ڈیرے کی صفائی پر لگا دیا ،فلش تک صاف کرواتے تب حقیقتاً اسے وطن کی قدر ہوئی وہ راتوں کو ہچکیوں سے روتا ساتھی پریشان ہوئے تو انہوں نے اسے چندہ کر کے واپس بجھوا دیا۔اپنے وطن میں اب اسے محنت کرنا عار نہیں لگتی ،حالات بدلے نہیں مگر اپنے ہونے کا احساس ہے وہ بتاتا تھا کہ جن کو ہم سمجھتے ہین وہاں عیش کر رہے ہیں کتنے کٹھن حالات میں جیتے ہیں ،اب وہ دور نہیں جب دبئی چلو جیسے ڈرامے بنا کرتے تھے محنت مشقت کرنے کی ہمتیں تھیں حالات واقعی بدل جایا کرتے تھے اب تو ہر بات پہ بھارتیوں اور بنگلہ دیشیوں کے طعنے بھی سننا پڑتے ہیں اپنے ملک کی قدر بھی ہوتی ہے اور اپنے حکمرانوں کی نا عاقبت اندیشیوں پر شرمندگی بھی ،تاکین وطن دوسرے ملکوں میں اپنے ملک کے سفیر بھی ہوتے ہیں انکی بری حرکتوں سے ملک کا نام بدنام ہوتا ہے۔

Saudi Arab Labor

Saudi Arab Labor

ایک نوجوان تھک کر ریت کے بھرے ٹرک میں سو گیا تو کرین سے سینکڑوں من ریت اس پر پھینک دی وہ بے چارہ دب کر مر گیا ایسے حادثات اکثر ہو جاتے ہیں تپتی سڑکوں پر سر کے نیچے اینٹ رکھ کر سونے والے پاکستانی محنت کش ،اپنی ہڈیاں گھسا گھسا کر ریال بھیجنے والے اس بات کو ترستے رہتے ہیں کہ کوئی انھیں کبھی صرف پیار بھیجے ،فرمائش نہیں مگر ایسا ہو نہیں سکتا ۔کیونکہ جونہی ہمارے ملک میں کسی گھر کا کوئی بندہ خلیجی ممالک میں کمانے چلا جائے لوگ سمجھتے ہیں وہ درختوں سے ریال توڑنے گیا ہے جن کی سائیکل کی اوقات نہیں ہوتی وہ بھی جہیز میں گاڑی مانگتے ہیں خاص طور پر جن کی کنواری بہنیں بیٹھی ہوں یا بیٹیاں ان کے لیئے ایسے مسائل سے نمٹنا بہت مشکل ہو جاتا ہے فرمائشوں کی ایک لمبی قطار ہوتی ہے ،انہیں انسان سمجھنا ترک کر دیا جاتا ہے ایک پیسے کمانے والی مشین سمجھا جاتا ہے ۔۔۔۔ان مشینوں نے اس بار اپنی توقعات عمران خان سے وابستہ کر لی تھیں کہ وہ دوسرے سیاستدانوں سے مختلف ہے۔

ان کے مسائل سے نمٹنے میں ان کا معاون ہوگا دھرنے ہوں یا کوئی اور اخلاقی مدد تارکین وطن اس میں پیش پیش رہے شومئی قسمت اقتدار سے جونک کی طرح چمٹے حکمرانوں کی وجہ سے حالات تو نہیں بدلے مگر موجودہ حکومت نے تارکین وطن کو عمران خان کی حمایت کی سزا دینی شروع کر دی ہے با نسبت اس کے کہ انھیں کوئی ریلیف ملتا مزید ٹیکسز لگا دیئے گئے ہیں ۔بے شک ان میں کچھ دو نمبری لوگ بھی ہوتے ہیں مگر مجارٹی درداں مارے لوگ ہوتے ہیں میرے پاس سینکڑوں لوگوں کی کہانیاں آتی ہیں کبھی کبھی کسی کی درد بھری داستان وطن کی ہوائوں میں چکراتی پھرتی ہے۔

مگر غیر تو غیر اپنے بھی اس پر توجہ نہیں دیتے کمانے کی اس چاہ میں واپسی پر کوئی اپنی بیوی کھو چکا ہوتا ہے تو کسی کی بیٹی گھر سے بھاگ چکی ہوتی ہے ،کسی کا بیٹا باپ کی عدم موجودگی کی وجہ سے بری صحبت میں پڑ کر آوارہ ہو چکا ہوتا ہے تو کوئی اپنی عمر بھر کی کمائی سے محروم ہو جاتا ہے ۔ایسے میں یہ پردیسی کبھی تو ہمیشہ کے لیئے اپنے گھر کا راستہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا خون نچوڑنے والے رشتے خون کا رشتہ جو بھول جاتے ہیں۔

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی