شاید کہ بدل جاے زندگی تیری

Journalist

Journalist

تحریر : رشید احمد نعیم
صحافی دوست ایک ساتھ جمع ہوں اور وہاں حالات ِ حا ضرہ پر گفتگو نہ ہویہ کیسے ممکن ہے ؟؟؟ ایسے مواقع پر مفید خیالات، احساسات،تجربات اور مشاہدات سامنے آتے ہیں جو میعارِ زندگی کو ایک نیا رخ دینے میں ممدومعاون ثابت ہوتے ہیں۔ایسی ہی ایک نجی محفل سجی ہوئی تھی ۔مزے دار چاے کا دور چل رہا تھا ۔سیاسی و سماجی موضوعات پر بات ہو رہی تھی بات چیت جاری تھی کہ ممتاز صحافی اسد محمود مغل صا حب نے ایک ایسا سبق آموز واقعہ سنایا جو دل میں اترتا گیا آپ بھی سنیے شا ئد آپکی زندگی میں انقلاب برپا کر دے ”ا س نے ایک مانگنے والے کو جھٹ سے کچھ نکال کر دے دیا ـ میں نے کہا کہ” بھائی !دیکھ بھال کر دینا چاہے یہ فراڈ لوگ ہوتے ہیں اور عام انسان کے جذبہ نیکی کو ایکسپلائٹ کرتے ہیں”فرمانے لگے” آپ نے بجا فرمایاہے میں پہلے ایسا ہی کیا کرتا تھا ،پھر ایک واقعے نے میری دنیا بدل کر رکھ دی۔

میں دھرم پورہ لاہور میں اپنے گھر سے سائیکل پہ نکلا تھا کہ ٹھیکدار سے اپنے بقایا جات وصول کر لوں ،میں اسٹیل فکسر تھا اور ایک کوٹھی کے لینٹر کے پیسے باقی تھے مگر ٹھیکدار” آج کل” پر ٹرخا رہا تھا، میں سائیکل پہ جا رہاتھا کہ ایک شخص اپنا بچہ فٹ پاتھ کے کنارے لٹائے اسپتال پہنچانے کے لئے ٹیکسی کا کرایہ مانگتا پھر رہا تھا۔وہ کبھی کسی پیدل کا بازو پکڑ کر ہاتھ جوڑ دیتاکہ” میرا بچہ بچا لیں ،مجھے ٹیکسی کا کرایہ دے دیں” تو کبھی موٹر سائیکل والے کو ہاتھ دے کر روکتا ، کبھی کسی کار والے کے پیچھے بھاگتا کہ وہ کار میں اس کے بچے کو اسپتال پہنچا دے ،کوئی رکتا تو کوئی نہ رکتا ،، جو رْکتا وہ بھی اسے گھور کر دیکھتا اور آپ والی سوچ ۔۔۔سوچ کر اسے ڈانٹتا ۔۔۔ کام کر کے کھانے کی نصیحت کرتا اور آگے نکل جاتا۔میں جو سائیکل سائڈ پہ روکے ایک پاؤں زمیں پر ٹیکے اس کا تماشہ دیکھ رہاتھا۔

اچانک اس کی نظر مجھ پر بھی پڑی اور اس نے میری سائیکل کا ہینڈل پکڑ لیا ” بھائی جان خدا کے لئے میرے بچے کی زندگی بچا لیں اس کو سخت بخارہے۔ آپ نیچے اتر کر اس کو دیکھ تو لیں آپ کو یقین آ جائے گا ، آپ دیں گے تو شاید کسی اور کو بھی اعتبار آ جائے۔مگر میں بھی آپ کی طرح سوچ رہاتھا ،پھر جس جارحانہ انداز میں اس نے میری سائیکل کا ہینڈل پکڑ رکھا تھا لگتا تھا کہ ادھر میں سائیکل سے اترا اور ادھر وہ سائیکل پکڑ کے بھاگ جائے گا ۔میں نے بھی اسے کام کر کے کھانے کی تلقین کی اور پچھلے جمعے میں سنی ہوئی حدیث مبارکہ ۖ ا س کو بھی سنا دی کہ ،الکاسب حبیب اللہ : کما کر کھانے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے ، اور اپناہینڈل چھڑا کر بڑبڑاتا ہوا آگے چل پڑا ” حرامخور ہمیں بے وقوف سمجھتے ہیں۔

Dead Body

Dead Body

دو تین گھنٹے کے بعد جب میں بقایا جات وصول کر کے واپس آیا تو وہ ابھی اسی جگہ کھڑا مانگ رہا تھا ،بچے کو اب وہ سڑک کے پاس لے آیا تھا ، اور اس کے چہرے سے کپڑا بھی اٹھا رکھا تھا ،، وہ دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ اب وہ بچے کے کفن دفن کے لئے مانگ رہاتھا۔میں نے سائیکل کو روک کر پاؤں نیچے ٹیکا اور میت کے چہرے کی طرف دیکھا ۔۔۔پھول کی طرح معصوم بچہ ۔۔زندگی کی بازی ہار گیا تھا ، میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ،میں نے جیب میں جو کچھ تھا بقایا جات سمیت سب بغیر گنے نکال کر باہر پھینکا اور اس سے پہلے کہ اس کا باپ میری طرف متوجہ ہو ،سائیکل اس تیزی سے چلا کر بھاگا گویا سارے لاہور کی بلائیں میرے پیچھے لگی ہوئی ہیں۔میں گھر پہنچا تو میرا برا حال تھا۔

تھوڑی دیر کے بعد مجھے بخار نے آ گھیرا ،بخار بھی کچھ ایسا تھا گویا میرے سارے گناہوں کا کفارہ اسی بخار سے ہونا تھا۔ گھر والے مجھے ہسپتال کے لئے لے کر نکلتے اور میں چارپائی سے چھلانگ لگا دیتا ،مجھے اسپتال نہیں جانا تھا ، میں اسی بچے کی طرح ایڑیاں رگڑ کر مرنا چاہتا تھا۔دو تین دن کے بعد بخار سے تو آرام آ گیا مگر میں ذھنی مریض بن گیا ،مجھے لگتا گویا میرا اپنا اکلوتا بیٹا جو تیسری کلاس میں پڑھتا تھا وہ اس بچے کے کفارے میں مر جائے گا۔ میں نے بچے کا اسکول جانا بند کر دیا ، بیوی کے بار بار اصرار کے باوجود میں بچے کو اسکول تو کیا دروازہ کھولنے بھی نہیں جانے دیتا تھا ـ40 دن گزر گئے تھے اور بچے کا نام اسکول سے کٹ گیا تھا۔

وائف نے اپنے بھائی سے بات کی جو دبئی کی ایک کمپنی میں کیشئر تھا اس نے مجھے باہر بلانے کے لئے پاسپورٹ بنانے کو کہا ،مگر ایک تو میں شناختی کارڈ بھی پیسوں کے ساتھ نکال کر بچے کی میت پر پھینک آیا تھا ،دوسرا میں خود بھی بچے کو اکیلا چھوڑ کر باہر نہیں جانا چاہتا تھا ـ وہ چالیس دن قیامت کے چالیس دن تھے۔چالیسویں دن دس بجے کے لگ بھگ ہمارے گھر کا دروازہ بجا ، دروازہ میں نے خودہی کھولا اور سامنے اس بچے کے باپ کو دیکھ کر مجھے چکر آگئے۔ مجھے لگا جیسے ہم دونوں آمنے سامنے کھڑے خلا میں چکر کاٹ رہے ہیں ، درمیان میں بچے کا چہرہ بھی آ جاتا۔ میری کیفیت سے بے خبر اس بچے کے باپ نے مجھے دبوچ لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔وہ کچھ کہنے کی بجائے میری ٹھوڑی کو ھاتھ لگاتا اور اسے چوم لیتا۔

Water

Water

جبکہ میں پتھر کا بت بنے اس کی گرفت میں تھا ، کہ اچانک مجھے جھٹکا لگا اور میری چیخ کچھ اس طرح نکلی جیسے کسی کو پانی پیتے وقت اچھو لگ جاتا ہے اور پانی اس کے منہ اور ناک سے بہہ نکلتا ہے۔میں اس بچے کے باپ کو سختی کے ساتھ سینے سے لگائے یوں رو رہاتھا گویا اس کا نہیں بلکہ میرا بچہ مر گیا ہے ،ہمارے رونے سے گھبرا کر پورا محلہ اکٹھا ہو گیا تھا۔ آئستہ آئستہ 40 دنوں کا غبار نکلا ،، اس کو میں گھر میں لے کر آیا محلے والے بھی آگئے تھے جنہوں نے اس آدمی سے بہت افسوس کیا۔کچھ دیر بعد اس نے اپنی جیب سے میرا شناختی کارڈ نکالا اور مجھے واپس کیا ،پھر جیب میں ھاتھ ڈال کر کچھ پیسے نکالے اور میرا شکریہ ادا کر کے کہنے لگا کہ آپ کے پیسے بڑے برکت والے تھے۔

شاید یہ آپ کے خلوص کی برکت تھی کہ میرے بہت سارے کام ہو گئے سارے اخراجات کے بعد کچھ پیسے بچ گئے تھے ان میں کچھ پیسے میں نے ادھار لے کر ڈالے ہیں۔ یہ آپ قبول کر لیجئے ،باقی میں بہت جلد آپ کو واپس کر دونگا۔میں نے پیسے واپس لینے سے سختی کے ساتھ انکار کر دیا ،، اور منت سماجت کر کے اسے پیسے رکھنے پر راضی کر لیا۔ اس کے بعد میں یہاں بطور اسٹیل فکسر آ گیا ، میں جی جان سے کام کرتا تھا چند ماہ میں ترقی کر کے فورمین بن گیا ـ تین سال بعد میں نے سالے کی مدد سے اپنی کمپنی بنا لی اور اس بچے کے والد کو بھی اپنی کمپنی میں بلا لیا ، آج وہ میری کمپنی میں فورمین ہے اس بچے کے بعد اللہ نے اسے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا ھے۔

میں اسے آپ سے ملواؤں گا مگر اس سے سائیکل والا قصہ مت بیان کیجئے گا ، وہ آج تک نہیں پہچانا کہ میری سائیکل روک کر اس نے مجھ سے سوال کیا تھا ! وہ مجھے ولی اللہ سمجھتا ہے جس نے اس کے بچے کی لاش دیکھ کر سب کچھ نکال کے دے دیا !!قاری صاحب اس دن کے بعد میں کسی کا ھاتھ خالی نہیں لوٹاتا ،تھوڑا سا دینے سے نہ وہ امیر ہوتا ہے اور نہ میں غریب ہوتا ہوں ،، بس دل کو تسلی ہوتی ہے کہ میں اس بچے کا خون بہا ادا کر ہاہوں۔رہ گئی لْوٹنے کی بات تو قاری صاحب ہمیں کون نہیں لْوٹتا ؟؟؟ جوتے والا ہمیں لوٹتا ہے ،کپڑے والا ہمیں لوٹتا ہے ، سبزی اور گوشت والا ہم کو لوٹتا ہے، اتنا لٹنے کے بعد اگر کوئی ہمیں اللہ کے نام پہ لوٹ لے تو شایدیہ حشر میں ہماری نجات کا سامان ہو جائے کہ یہ بندہ میری خاطر، میرے نام پہ لْٹتا رہا ہے۔

Rasheed Ahmad Naeem

Rasheed Ahmad Naeem

تحریر : رشید احمد نعیم