کیا پٹرول بھی ختم ہو گیا ہے

Petrol Pumps

Petrol Pumps

تحریر : حفیظ خٹک
خاور نے کہا کہ نماز فجر کے بعد اخبارات کا مطالعہ اور اس کے ساتھ ہی ناشتہ کیا ۔اس عمل کے بعد دفتر جانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ بچوں کو اک نظر دیکھا تمام ہی بچے گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہے تھے۔ جلد اسکول کی چھٹیاں ختم ہو جائینگی اس کے بعد بچے اس وقت پر تیزی کا مظاہرہ کررہے ہونگے۔بس یہ خیال آیا اور گھر سے باہر آنے کے بعد موٹر سائکل پر دفتر کی جانب روانہ ہوا۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد پٹرول کی کمی کا احساس ہوا تو قریب کے اک پٹرول پمپ کی جانب مڑا تاہم وہاں اک لمبی قطار لگی ہوئی تھی ۔ ابھی پٹرول ہے ، آگے چل کر کسی اور پٹرول پمپ سے ٹنکی میں پٹرول ڈلوالونگا ۔ اس خیال کے آنے پر فوری عملدرآمد بھی ہوا اور آگے کی جانب بڑھ گیا۔

پھر کیا ہوا یہ سوال خاور کے لمبے سکوت کے درمیان ناصر نے پوچھا ۔ اس پر خاور نے بھی اک اور لمبا سانس لیتے ہوئے کہا کہ بھائی پھر یہ ہوا کہ میں آگے بڑھتا رہا اور ہر پٹرول پمپ پر مجھے قطار نہیں قطاریں نظر آنے لگیں۔ بعض پر تو نوبت یہ تھی کہ قطار نام کی کوئی کہانی نہیں تھیں بس بے ہنگم انداز میں بچے ،بوڑھے ،جوان، تنہا بیٹھے ہوئے اور اپنے ساتھ خواتین کو بٹھائے ہوئے بھی بد انتظامی کا شکار ہوئے نظر آئے ۔ ہر فرد یہ چاہتا تھا کہ اسے پٹرول ملے اور وہ با آسانی اپنی منزل کی جانب بڑھنا شروع کردے۔ اسے کسی بھی مرحلے پر انتظار نہ کرنا پڑے ۔ موضوع کو ایک جانب رکھتے ہوئے یہ کہا اور سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ صورتحال وطن عزیز کے کے ہر شعبہ زندگی میں اور ہر فرد کا ہے۔ کسی بھی معاملے میں ، کسی بھی شعبے میں جائیں، کسی سے بھی کام کرانا ہے ، کرنا ہے ،غرض ہر سو یہی صورتحال ہے ۔ یہی اک کھلی اور واضح حقیقت ہے کہ ہر فرد یہ چاہتا ہے کہ اس کا کام تمام تر مصروفیات کو اک جانب رکھ کر کردیا جائے۔اسے کسی بھی ، کوئی بھی انتظار نہ کرنا پڑے۔ بحرخال خاور کا کہنا تھا کہ بس بھائی کیا بتاﺅں ۔ پٹرول پمپ تھے اور وہاں عوام کا جم غفیر تھا ۔ بسا اوقات تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید یہاں آج پٹرول مفت مل رہا ہے اور یہ پٹرول لینے کیلئے عوام یہاں جمع ہوئی ہے۔ لیکن وہاں کی بد انتظامی کا حال نہ قابل بیان ہے۔

دفتر آتے ہوئے متعدد پمپ تو ایسے بھی ملے کہ جہاں پر صرف ایک جگہ سے پٹرول فراہم کیا جارہا ہوتا تھا اور باقی ماندہ جگہوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں تھیں۔ اس مقام پر تو موٹر سائکل والے اور گاڑیوں والے سبھی عجب صورتحال سے دوچار تھے ۔ کوئی بھی پولیس کا یا پٹرول پمپ کا اپنا اہلکار نہ تھا کہ وہ منظم کرنے کی کچھ تو کوشش کرتا ۔ بحرکیف سفر جاری رہا اور تکالیف کا سلسلہ تیزی کے ساتھ جاری تھا ۔ ایک درجن سے زیادہ پٹرول پمپ دیکھ لینے کے باوجود بھی مجھے پٹرول کا حصول نہ ہوسکا اور نتیجہ ایسا وقت آیا کہ مجھے موٹر سائکل کو لیٹی لگانی پڑی ۔ جانتے ہونا یہ لیٹی کیا ہوتی ہے ؟ بھئی موٹر سائکل کو ایک جانب لیٹا دیا جاتا ہے جس سے نالیوں میں بچا ، کچا پٹرول آگے بڑھتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ موٹر سائکل اسٹارٹ ہونے کے بعد کچھ دیر کی مسافت طے کر لیتی ہے۔ غرض ہم نے یہ بھی دیکھ لیا اس کے بعد جونہی پہلا پٹرول پمپ نظر آیا اس کی جانب میں بڑھے اور لائن میں جاکر کھڑا ہوگیا۔ اب جو انتطار کی کیفیت تھی وہ نہ پوچھیں اور نہ ہی میں بتانے کی استطاعت رکھتا ہوں۔

کوئی 23منٹ کے بعد میرا نمبر آیا ، پٹرول بھروایا اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے آگے کی جانب بڑھا ۔ دفتر کے راستے میں مجھے کئی افراد ایسے نظر آئے جو کہ موٹر سائکل کو گھیٹتے ہوئے آگے کی جانب بڑھا رہے تھے اور تو او ر کچھ گاڑیو ں والے بھی اسی مرحلے سے گذر رہے تھے۔ سبھی تکلیف میں تھے اور ہر چہرے سے اس کے اندر کی حالت کا اندازہ ہورہا تھا ۔ کچھ شہریوں نے تو بلند آواز میں ملک کے وزیر اعظم کو صدر اور وفاقی وزیر کو اور ان کے ساتھ سبھی عہدیداران کو جی بھر کہ بھر ا بلا کہا اورنازیابہ الفاظ استعمال کرتے ہوئے گالیاں بھی دیں۔

اسی طرح کی ایک محفل میں ، میں نے بھی دل کا غبار نکالا اور وہاں موجود لوگوں سے پوچھا کہ یہ چکر کیا ہے ؟ آخر اتنا رش کیوں ہے؟ پٹرول کی قیمت بڑھ گئی ہے ، معیار میں تبدیلی آگئی ہے یا کوئی اور بات ہے ۔ مجھے اصل مسئلے تو کوئی بتائے ۔ اس سوال پر وہاں موجود سبھی افراد نے مجھ کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور ایک صاحب نے کہا کہ بھائی آپ کو معلوم نہیں کہ یہ کیا چکر چل رہا ہے؟ میرا نفی میں سر ہلانے پر انہوںنے ایک اور چھوٹا سا انٹرویو کیا اور اس دوران وہ تواتر کے ساتھ اپنے دل کے غبار و نکالتے رہے اور ذمہ داروں کو ، ان حالات کے آنے پر جی بھر کر کوس رہے تھے ۔ ایک صاحب نے بتایا کہ بھائی سیدھی بات یہ ہے کہ پٹرول لے جانے والے آئل ٹینکر کی آج ہڑتال ہے ۔ اور یہ ہے بھی پورے ملک میں ۔ کوئی بعید نہیں کہ جو حال یہاں ہورہا ہے وہی کسی اور شہر میں نہ ہو۔ بھائی پورے ملک میں پٹرول کی ترسیل مانند پڑ گئی ہے اور یہ آئل ٹینکر والے کہتے ہیں کہ پہلے ہمارے مطالبات تسلیم ہونگے تو ہم اپنی ہڑتال ختم کرینگے۔

اب یہ ایک اور الگ صورتحال تھی کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو ان کے اپنے گھروں میں ابتری کی صورتحال ہوگی اور اس کے ساتھ پوری قوم کا بھی حال ناقابل بیاں ہوگا۔ ابھی چند دن پہلے ریلوے کے ڈرائیورز نے بھی ہڑتال کی تھی جس کی وجہ سے مسافر عوام کو شدید تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ۔ تاہم اس وقت انتظامیہ کی بروقت کاروائی کی وجہ سے ہڑتال جلد ختم ہوئی اور مسافروں کی مشکلیں آسان ہوگئیں۔ دفتر تو جیسے تیسے کر کے ہی میں پہنچ گیا اب واپس کیسے جاﺅنگا ؟ شاہراہ فیصل پر تو عام دنوں میں حالت قابل دید ہوتی ہے آج جبکہ پٹرول بھی نہیں ہے تو آج کیا کریں گے؟ یہ سوچتے ہوئے میرا پورا دن کام میں نہ لگ سکا اور پے درپے غلطیاں ہوتی رہیں ۔ بلاآخر چھٹی کے وقت سے پہلے ہی میں کام کو ادھورا چھوڑ کر گھر کی جانب نکل آیا اور دورا ن سفر جو حالت دیکھی وہ قابل مذمت تھی۔

گھر آکر پہلے تو کچھ آرام کیا اس کے بعد اخبارات اٹھائے اور مطالعہ کیا تو معاملہ سمجھ میں آگیا ۔ چند دن قبل آئل ٹینکرز یونین والوں نے کراچی پریس کلب میں کانفرنس کی تھی اوران سارے مسائل سے حکومت کو آگاہ کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہیں ہوئے تو وہ ہڑتال کریں ۔ اب آج تو اس ہڑتال کا پہلا دن تھا ، اس صورتحال میں کیا کیفیت رہی اور اس سے آمدورفت کے کیا معاملات رہے ؟ دفاتر میں سمیت دیگر شعبہ زندگیوں میں کس طرح سے کاموں کو بڑھایا گیا ہوگا وہ سب کچھ اک الگ طویل دورانیہ ہے۔ تاہم قابل افسوس عمل یہ تھا کہ اب تلک حکومت نے کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا۔آخر کب تک عوام ان مسائل کو جھیلتی رہی گی؟ کب تک ؟ حکومت کے سربراہ میاں نواز شریف تو اس وقت جس کیفیت سے گذر رہے ہیں اسے ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ہے۔

پانا مہ کیس کا فیصلہ آنے تک جو کیفیت اس شاہی خاندان کی ہے یا ان کے تمام وزراءکی ، ان کے چمچوں کی وہ سبھی اس وقت کسی بھی اور معاملے کو ہاتھ لگانا تو دور کی بات ہے اس جانب دیکھنا بھی اک المیہ کے مترادف ہے۔ لیکن اس بات کو وہ مانیں یا نہ مانیں تکلیف تو بحرحال عوام کو ہوئی ہے، نا؟ سانحہ بہاولپور کے بعد رونما ہونے والے حالات کے باعث جس تیزی سے انتظامی سطح پر کاروائیاں کی جارہی ہیں ان سے آئل ٹینکرز کے مالکان اور ڈرائیورز سمیت دیگر عملے کو شدید مشکلات کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے ۔ آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کے سربراہ کا یہ کہنا تھا کہ جو رویے انتظامیہ اور ان کے اہلکاروں نے اپنا رکھے ہیں ان سے ہمارے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا جارہا ہے ۔ اب جب تک مسائل کو حل نہیں کیا جائیگا اس وقت تک ہماری ہڑتال برقرار رہے گی۔ شہر میں متعدد مقامات پر ٹینکرز کو کھڑا کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی شیریں جناح کالونی میں کیمپ لگادیا گیا ہے ۔ ملک بھر میں30ہزار سے زائد چھوٹے اور بڑے آئل ٹینکرز موجود ہیں جن میں ہزاروں لیٹر تیل ڈال کر انہیں ملک کے طول و عرض میں پہنچایا جاتا ہے ۔ اس دوران اس پورے عمل میں بھی ہمیں کئی دشواریاں درپیش ہوتی ہیں لیکن حکومت اور ان کے دیگر اہلکاروں کی جانب سے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان میں اضافہ ہی کیا جاتا ہے ۔ جو کہ قطعی نامناسب ہے اور ہمارے پاس اس عمل کے سوا کوئی دوسرا چارہ نہیں ۔

آئل ٹینکرز کے مالکان اور دیگر تمام عملہ اسی عوام میں سے ہیں ، پٹرول کی ضرورت انہیں بھی ہوتی ہے اور زندگی کی دیگر ضروریا ت کی طرح یہ بھی اک بنیادی ضروریات ہیں۔ تاہم مسائل وطن عزیز کے ہر شعبہ زندگی میں موجود ہیں ، ان کو حل کئے جانے کی کاوشیں بروقت اور عملاَ ہونگی تو اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ ملک و قوم کا نقصان کم بلکہ نہ ہوگا اور کسی بھی احتجاجی تحریک کی نوبت آنے سے مسائل حل ہوجایا کریں گے۔ لیکن یہ اک کھلی حقیقت اور المیہ ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی بات کو دیر سے سمجھتے ہیں ، کچھ دیر سے نہیں بہت دیر سے اس پر عملدرآمد کرتے ہیں ۔ بروقت کئی بھی کام کرنے سکت رکھنے کے باوجود نہیں کرتے ہیں اور تمام تر توجہ اس وقت ہمارے سامنے آجاتی ہے جب ہمارے سروں پر آں پڑتی ہے۔

پانامہ کیس کے معاملات کو ہی دیکھ لیں ، پانچ ججز میں سے دو نے اپنا فیصلہ دے دیا جبکہ تین نے کہا کہ جے آئی ٹی معاملے کی پوری رپورٹ مرتب کرئے گی ۔ اس بات پر حکومت وقت نے جی بھر کے مٹھائیاں کھائیں اور کھلائیں پھر جب جے آئی ٹی نے اپنا کام مکمل کیا اور اس میں وزیراعظم سمیت ان کی اولاد کو بھی بلایا گیا تو اس وقت حکومت وقت کے تیور کچھ اور تھے ۔ جے آئی ٹے کی کاروائی مکمل ہونے کے بعد اب فیصلے کا انتظار کیا جارہا ہے تو حکومت اس ایک فیصلے کی وجہ سے دیگر کاموں پر کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ شعبہ جات کے وزراءاپنی ذمہ داریوں کو احسن انداز میں پورا کریں ۔ ان کے اس عمل سے مثبت نتائج ہی مرتب ہونگے اور معاشرہ مصائب و مشکلات کا بحسن وخوبی مقابلہ کریگی ۔ ملک میں تعمیر و ترقی کا سفر بھی آگے بڑھے گا۔۔۔

تحریر : حفیظ خٹک

hafikht@gmail.com