پودے سوکھ جاتے ہیں

Dry  Plants

Dry Plants

تحریر : مسز جمشید خاکوانی
آج کئی دنوں بعد اپنے لان میں نکلی تو کونے میں ایک سوکھے پودے پر نظر پڑی میں نے مالی سے پوچھا بابا یہ پودا کیسے سوکھ گیا؟ کہنے لگا بس بی بی اصل میں جب تک میں پائپ لے کر اس پودے تک پہنچتا ہوں لائٹ چلی جاتی ہے یوں یہ مسلسل پانی نہ ملنے سے سوکھ گیا پ فکر نہ کریں میں اس کو نکال کے اور پودا لگا دوں گا میں نے تاسف سے پودے کو دیکھا وہ اتنا اداس لگا کہ مجھے شرمندگی ہونے لگی میں نے مالی سے کہا بابا اگر آپ کو پتہ ہے کہ اس ٹائم لائٹ جاتی ہے تو آپ ٹائم چینج کر لیں یا پھر اس پودے کو سب سے پہلے پانی دینا شروع کر دیتے تاکہ یہ مرتا نہیں کہنے لگا چھوڑیں بی بی اس کی قسمت یہی تھی روزانہ کتنے انسان مر جاتے ہیں کوئی فکر نہیں کرتا آپ ایک پودے کے لیے پریشان ہو رہی ہیں ؟ میں نے دل میں سوچا کہہ تو ٹھیک رہا ہے ابھی چند دن پہلے بادشاہ سلامت کے قافلے نے ایک پھول کو روند دیا اور پلٹ کر دیکھا بھی نہیں ،میڈیا کے دبائو پر ٠٣ لاکھ اس کے گھر بھیج دیا بھلا کہیں تیس لاکھ میں زندگی ملتی ہے؟ زندگی تو کروڑوں اربوں سے بھی واپس نہیں آتی
لیکن ہمارے ہاں اب انسانی زندگیوں کی تجارت ہونے لگی ہے جتنے مرضی مار دو پھر ان کے گھر چیک پہنچا دو انہی دو تین دنوں میں دو خبریں ایسی پڑھیں کہ غم اور غصہ ذہن سے ہٹتا ہی نہیں ایک خبر اس بستی کے بارے میں چھپی ہے جہاں آئل ٹینکر الٹا تھا اور پیٹرول لینے کے چکر میں سینکڑوں اموات ہوئیں وہ بستی مین سڑک کے کنارے واقع ہے اب پڑھا کہ وہاں بلڈوزر چلا کر غریبوں کے گھر گرا دیے گئے ہیں وہ بے چارے روتے پیٹتے رہے عورتیں قران مجید اٹھا کر دہائیاں دیتی رہیں لیکن پولیس کے ذریعے ان پر لاٹھی چارج بھی کیا گیا اور یوں وہ ”قیمتی سرکاری زمین ” واگذار کرا لی گئی اب سمجھ آئی یہ نیا طریقہ واردات ہے بے نظیر کے قتل کے بعد بھی ” زمین ” حاصل کرنے کا یہی طریقہ اختیار کیا گیا تھا راتوں رات کیمیکل ڈال کر برسوں پرانی مارکیٹیں جلائی گئیں اس کے بعد ان جگہوں پر قبضہ کر کے من پسند افراد کو بیچ دیے گئے۔

یہی طریقہ اب ادھر بھی رائج ہے آئل ٹینکر الٹائو ،غریبوں کو آوازیں دے دے کر بلائو ،پھر آگ لگائو ْپھر بوگس جعلی چیک دے کر جان چھڑائو اس کے بعد بلڈوزر چلائو ،مال کمائو اور مٹی پائو جس پولیس کے زریعے ایسے کمال کیے جاتے ہیں ان کا حال بھی سن لیں ڈاکوئوں نے پولیس والے اغوا کر لیئے سب جانتے ہیں یہ ڈاکو کون پال رہا ہے پھر کہا گیا جو پولیس والا مارا گیا اس کے گھر دس لاکھ پہنچ جائیں گے جب سوشل میڈیا پہ لعن طعن ہوئی تو سات پولیس والے سات دہشت گردوں کے بدلے میں واپس آ گئے یعنی دھشت گردوں کو چھوڑنے کے لیے پولیس کو قربانی کا بکرا بنایا گیا یہ سارے ” انتظامات ” کیوں ہو رہے ہیں قوم سب جانتی ہے کل کو یہی دھشت گرد گواہ بھی بن سکتے ہیں لہذا ان کو چھوڑ دینا ہی بہتر تھا جس طرح ان کا ہر ریکارڈ جل جاتا ہے اسی طرح دھشت گرد ”ٹھکانے ” لگائے جا رہے ہیں یہ پولیس والے کتنے قصور وار ہیں اگر ان کی اصلیت دیکھیں تو ان سا مظلوم کوئی نہیں سارا دن بھوکے پیاسے سردی گرمی میں چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دینے والے کچھ سوچنے کے قابل ہی نہیں رہتے ان میں چند یقیناً ایسے ہیں جن کا شمار ”ظالموں ” میں ہوتا ہے لیکن زیادہ تر صرف مظلوم ہیں ان کو جو حکم ملتا ہے وہ اسے بجا لانے کے پابند ہیں مگر دل ان مظالم کو قبول نہیں کرتا ان کا پروٹوکول ہی ان پر بار گراں ہے لیکن بے چارے مجبور ہیں۔

اتنی سخت گرمی میں جب چیل انڈا چھوڑ جاتی ہے سڑکوں پہ دھکے کھانا آسان نہیں ہوتا بھوک سے تنگ آ کر لوگوں سے چھین چھپٹ کرنا ان کی مجبوری ہے جسکے بدلے بد دعائیں کوسنے الگ ملتے ہیں تھکے ہارے گھر میں داخل ہوتے ہیں تو بیمار بچوں اور روتی دھوتی بیویوں سے پالا پڑتا ہے اور یہی مجبوریاں انہیں اہل اقتدار کی چوکھٹ پہ سجدہ ریز کر دیتی ہیں اکل حلال سے حرام کمائی تک کا سفر زیادہ آسان لگتا ہے جرائم کی طرف سے آنکھیں بند کرنا ضرورت بن جاتا ہے حالانکہ پولیس اپنے فرائض ایمانداری سے انجام دے تو جرم پنپ ہی نہیں سکتا لیکن قلیل تنخواہ میں کنبہ پالنا زندگی کا رسک لینا اور حکمرانوں کے اشاروں پر ناچنا اتنا آساں نہیں اس کی بجائے پیسے پکڑنا سر جھکا کے ڈیوٹی کرنا اور ضمیر سلا دینا زیادہ آسان ہے جس طرح ایک پودا غفلت سے مر گیا اس طرح سینکڑوں لوگ وزانہ ان حکمرانوں کی غفلت کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔

کرنے والے کام تو یہ کرتے نہیں ایک خوراک کو ہی لے لیں کمیکل ملے دودھ ،ناقص بیمار جانوروں کے گوشت گندے پانی کی سبزیاں نا قابل استعمال پانی پینے سے چھوٹے چھوٹے بچے اب شوگر اور کینسر کا شکار ہو رہے ہیں ہر گھر میں صف ماتم بچھی ہے ہر گھر میں ایک دو شوگر یا کینسر کے مریض ہیں لیکن کوئی نوٹس نہیں لیتا کہ میتوں کے بدلے لاکھوں دینے سے اگر انہیں اچھی خوراک مہیا کر دی جائے تو زندگیاں بچ جائیں مائوں کو اپنے معصوم بچوں اور بچوں کو اپنے والدین سے محروم نہ ہونا پڑے۔

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی