”زہریلی سبزیاں وبال جان،’

Bad Vegitables

Bad Vegitables

تحریر : مجید احمد جائی
انسانی زندگی کے لئے ہوا ،پانی اور خوراک بنیادی ضروریات ہیں۔زندگی کو زندہ رکھنے کے لئے ان کا ہونا بہت ضروری ہے۔ڈاکٹر حضرات اور سائنسدان صحت کا راز تازی سبزیاں اور فروٹ کا استعما بتاتے ہیں۔لیکن ضروت اس امر کی ہے منگائی کے اس اژدھام میں خالص اشیاء کا حصول کیسے مکمکن ہو سکتا ہے۔اشیاء خوردنوش میں ملاوٹ 80فیصد ہے۔دالیں،مرجیں ،سوجی،گندم ،نمک تک ملاوٹ کی جاری ہے۔چینی میں سوجی ،مرچوں میں اینٹیں پِس کر ملاوٹ کی جاری ہے۔کوشت کی بات کریں تو اول تو غریب طبقہ اس ڈش خاص سے محروم ہی ہیں۔جن کو دستیاب ہے ،ان کی سادگی یہ ہے کہ حلال و حرام کی تمیز نہیں کر پاتے۔حرام گوشت کی فروخت عروج پکڑ چکی ہے۔دین اسلام کے پیروکار ہوکر بھی حرام گوشت فروخت کر رہے ہیں ،کھلا رہے ہیں۔گوشت کو پانی کا پریشر کیا جاتا ہے۔لاغر اور بیمار جانوروں کا ذیبح کرکے دولت کے نشے میں انسانی قتل کر رہے ہیں۔

جب سے حرام گوشت متعارف ہوا ہے،بیچارے گدھے نایاب ہو گئے ہیں۔کتے،جو کبھی گلی کوچوں میں وافر ملتے تھے اب قصائی کی دکان کے پاس اکا دکا نظر آتا ہے۔قانون کہاں ہے؟یہ سوال ہر بشر کرتا ہے مگر قانون کو سو رہا ہے۔گوشت کی علاوہ سبزیوں کی بات کریں تو سبز منڈیوں میں خوبصورت ،صاف ستھری سبزیاں نظر آتی ہیں مگر کسی کو خبر تک نہیں کہ یہ سبزیاں وبال جان بنی ہوئی ہیں۔ہزاروں بیماریاں ان کے کھانے سے ہو رہی ہیں۔آج ہر دوسرا شخص سانس کی مرض میں مبتلا ہے۔جلدی امراض کی شدت بڑھ گئی ہے۔شوگر،کینسر،بلیڈ پریشر ،مثانے کے امراض،ان جسی کئی بیماریاں وجود میں آچکی ہیں۔ڈاکٹر حضرات تو زیادہ سے زیادہ سبزیاں کھانے کی ترغیب دلاتے ہیں۔

کوئی اس طرف متوجہ ہی نہیں کہ یہ سبزیاں کیسے تیار ہو کر سبز منڈی میں آتیں ہیں۔سائنسدان تحیقات کر رہے ہیں۔ہمارے کھیتوں میں نہری پانی زہر بن کر جا رہا ہے۔سبزیاں تو کم وقت میں حاصل کر رہے ہیں مگر ہم تو زندگی کی بجائے موت بانٹ رہے ہیں۔ہماری نہروں میں شہر بھر کے گٹروں کا پانی چھوڑا جاتا ہے،کیمکل کی فیکٹریوں کا زہریلا پانی کھلے عام نہروں کے حوالے کیا جا رہا ہے۔جس کے پینے سے نہ صر ف جانوروں کی ہلاکتیں ہورہی ہیں۔بلکہ جو سبزیاں جو ان سے پکائی جا رہی ہیں وہ زہر آلودہ ہیں۔ہمارے بچے کئی امراض میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔

Exercise

Exercise

سبزیوں کو صحت مند زندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے مگر کسی کو فرصت ہی نہیں کہ یہ سبزیاں موت بانٹ رہی ہیں۔ہمارے کھیت زہریلے پانی سے زرخیر کی بجائے ویران ہو چلے ہیں۔انسان موت کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔زہریلے پانی کی روک تھام کون کرے گا۔ذمہ داران کو نذرانوں میں جی رہے ہیں۔کرپشن کے جن نے ہر آفیسر کو جکڑ رکھا ہے۔ضمیر فروشی ،بے ایمانی زوروں پر ہے۔دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹنے کی قسم اٹھا رکھی ہے۔موت کے سوداگر ڈھٹائی سے زہر فروخت کر رہے ہیں۔بیماریاں پھیلانے میں مگن ہیں اور جن کی ذمہ داریاں ہیں،جن کو یہ کام سونپا گیا ہے وہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

انصاف کے دروازوں پر رشوت کے قفل لگا دیئے گئے ہیں۔انصاف شرم سے پانی پانی ہو کر رہ گیا ہے اور کرپشن ہنس ہنس کر تمسخر اڑا رہا ہے۔حکمرانوں کو سیاست بازی سے فروصت ملے تو اس طرف دھیان دیں۔روز نیا تماشہ ،روز نیادھماکہ،روز ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی جا رہی ہیں۔جمہوریت کا الارم الاپا جا رہا ہے۔مگر جمہوریت کا نام و نشان تک نہیں ہے۔آج پیارے وطن میں انصاف،عدل ڈھونڈننے سے بھی نہیں ملتا۔سپریم کورٹ،یا ہائی کورٹ ہزاروں فیصلے سنا چکی ہے مگر آج تک نہ کسی کو سزا ملی ہے اور نہ ہتھکڑی لگی ہے۔جس میں ملک میں 17سکینڈ کی سزا سنائی جائے ،جیلوں میں پروٹوکول ہو،جیلوں میں ہر سہولت میسر ہو،

جہاں پولیس میں سیاست کے جراثیم کی کثرت ہو،وہاں انصاف مانگنا ہی بیوقوفی کے زمرے میں آتا ہے۔انصاف تو حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے جاتے ہی رخصت ہو گیا ہے۔نہ انصاف رہا نہ انصاف کرنے والے۔اب ہر کسی کا اپنا ایک قانون ہے۔دن ڈیہارے لوگوں کو سڑکوں پر جانوروںکی طرح کاٹ دیا جاتا ہے،عوام کے محافظ دہشت گرد ،ڈاکو بن گئے ہیں۔اس زمرے میں تازی سبزیاں کھا کر ،جینے کی آرزو بھلا کون کرے گا۔زہربک رہا ہے،زہر کھلایا جا رہا ہے۔کسی کو فروصت ہی نہیں ہے۔کوئی پوچھنا ہی نہیں چاہتا ۔کوئی مر رہا ہے ،ہمیں کیا ،بس دولت ،دولت،کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔اگر اب بھی زہریلی پانی کا سدباب نہ کیا گیا تو عوام کا منہ زور طوفان اٹھ کھڑا ہو گا اور اس طوفان کو کوئی روک نہیں پائے گا۔حکمرانوں کے پاس وقت ہے کہ اس طرف توجہ کر کے مرتکب افراد کو کیفرکردار تک پہنچائے اور جو زہر ہماری رگوں میں ڈور رہا ہے اس سے نجات دلائیں ورنہ وقت کسی کو معاف نہیں کرتا۔

Abdul Majeed Wafa

Abdul Majeed Wafa

تحریر : مجید احمد جائی