سیاسی ہاتھیوں کے مقابلے میں عوامی ابابیل

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر : صاحبزادہ مفتی نعمان قادر
ہم حکمرانوں کے ظلم اور نا انصافی کا رونا روتے رہتے ہیں یہ سب ہمارا اپنا کیا کرتا ہے الیکشن میں جب یہ ظالم ”مسکین صورت ” بنائے ووٹر کی دہلیز پر ووٹ کی بھیک مانگنے آئیں گے ہم نے پھر اِنہی ظالموں ، لٹیروں ، فصلی بٹیروں پر ترس کھا کر اور برادریوں میں موجود ”ٹائوٹس ”کے کہنے پر اِنہی کے نعرے لگانے ہیں اور قوم و ملک کے دشمن عناصر کی جھولی میں اپنا قیمتی ووٹ ڈال دینا ہے اگر پاکستانی قوم واقعی سیاسی چڑیلوں ، بازی گروں ، ہا تھیوں اور مفاد ِ عاجلہ کے رسیا سیاستدانوں سے خلاصی حاصل کر نا چا ہتی ہے تو اسے ایسے چہروں کو مسخ کرنا ہو گا جنہوں نے ستاسٹھ سال سے ایک ہی چہرے پر کئی چہرے سجا کر عوام کو دھوکے اور فریب میں مبتلا کرنے کی کوشش کی ہے عوام کوآئندہ الیکشن میں ایسے نمائندگان کاچنائو کرنا ہو گا جن کا کردار سفید کپڑے کی طرح بے داغ ہو ، حب الوطنی سے سر شار ہوںعوام ایسے نام نہاد نمائندگان کو قطعاََ ووٹ نہ دیں جنہوں نے رات کی خلوتوں میں غریب کی عزت کو نیلام کیا ، غریب کے جھونپڑوں کو مکا نوں میں تبدیل کرنے کی بجائے اپنی فیکٹریوں ، کار خانوں اور ملوں میں اضافہ کیا اور غریب کی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کی بجائے اپنے چہروں کی لالی میں اضافہ کرتے رہے ، غریب کے گھر کے چرا غوں کو گُل کر کے اپنے گھروں اور محلات کو برقی قمقموں اور قیمتی فا نو سوں سے روشن کیا ، غریب بے چارے کے پاس تو کٹیا میں جلانے کے لیے دیا سلائی کے پیسے نہیں ہیںمگر ان ظالموں کے ناشتے کی میز 50ہزار سے روزانہ سجائی جاتی ہے۔

اب کی بار عوام کے پاس آخری موقع ہے اگر انہوں نے با کردار اور محب وطن قیادت کا انتخاب نہ کیا تو پھر ساری زندگی پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ملے گا ویسے اب کی بار مقابلہ بہت سخت ہوگا نئی نئی قیادتیں سا منے آ رہی ہیں پرا نی قیادتیں زیر ِ عتاب اور زیرِ احتساب ہیں ستاسٹھ سال سے وہی وڈیرے ، جاگیر دار ، سر مایہ دار ، زردار غریب عوام کا استحصال کر رہے ہیں کیونکہ فروری 1997ء کے انتخابات کے بعد عوام اور قدرت نے ”ثانی قائد اعظم ” کو بھاری مینڈیٹ کی چھن چھن کرتی پازیب پہنائی تھی تو عوام کی خواہش تھی کی ”ثانی قائد اعظم ” دُرئہ احتساب کی ایسی عادلانہ ضربیں رسید کریں گے کہ لُٹیرے اور ڈاکو قوم کی لوٹی گئی ایک ایک پائی ”ثانی قائد اعظم ” کی جھولی میں ڈال دیں گے مہنگائی اور معاشی عدم ِ استحکام کی شبِ تاریک ٹل جائے گی ، خوشحالی ، فارغ البالی ، اور مسرتوں کی گل رنگ فجر کے طلوع ہوتے ہی وطن عزیز کے چاروں کونوں اُجالوں کی بستیاں آباد ہو نا شروع ہو جائیں گی ، اس بانکے ، سندر سوہنے ، گورے چٹے اور سجیلے نواز شریف سے عوام کو ان گنت توقعات میسر تھیں ، بھولے بھالے یہ جذباتی عوام جنہوں نے بے نظیر بھٹو کو بھرشٹ اور ملیچھ قرار دے کر اقتدار کے ”کاشی نگر ” سے آئوٹ کر دیا تھا۔

2008ء میںپھر حالات کا پہیہ گھوما اور بی بی کی ”شہادت ” کو کیش کرا کے اقتدار کے سنگھاسٹن پر ”مہاراجہ کمیشن ” بیٹھے تو پھر ”ثانی قائد اعظم ” نے فرینڈلی اپوزیشن کا کھیل کھیلا اور پورے پانچ سال تک فرینڈ لی اپوزیشن کا کھیل کھیلتے رہے اور ”مہاراجہ کمیشن ” کو مزید کمیشن کھانے اور کمانے کا موقع فراہم کیا اور اُن کے سب ”کارناموں ” کو ”سب اچھا ہے ” کا لیپ چڑھا کر عوام کے سامنے پیش کیا تو عوام سمجھ گئی تھی کہ یہ باری باری کاچکرہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہار اور اُجالوں کے خواب دیکھنے والے شب گزید گان اور خزاں رسید گان کی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ غیر جانبدار مبصر جب انہیں بسترِ اضطراب کی خار پرور شکنوں پر پہلو بدلتے دیکھتے تو بے ساختہ ان کے خشک ہونٹوں کو اگلے وقتوں کے کسی تر دماغ شاعر کا یہ مصرع تر سیراب کرنے کی نا کام کوشش کرتا
جب آنکھ کھُلی گُل کی تو موسم تھاخزاں کا

PML N

PML N

بقول شخصے ”اچھے دنوں کی آمد کے انتظار میں ، اضطراب کی سولی پر لٹکنے والے 18کروڑشہسواروں کے گھوڑوں سے اُترنے کا وقت کب آئے گا ؟ان کے پیاسے خوابوں کو تعبیر کا فرات کب فراہم ہو گا ؟ اضطراب اور بے یقینی کی یہ دھند کب چھٹے گی ؟ بحرانوں ، طو فانوں ، انقلابوں ، گر دابوں اور عذابوں کے غبار میں سے وہ شہسوار کب ”طلوع ”ہو گا جس کی آمد کو حقیقی معنوں میں دلیل ِ سحر کہا جا سکے گا ؟ بہا روں کی تمنا میں ہم کب تک خزائوں کے سراب میں بھٹکتے رہیں گے ؟چاند ستاروں کی آرزو لے کر چلنے والوں کا مقدر آخر کب تک ”اُجالا کش ”تاریکیاں اور ”سورج خور ” اندھیرے بنیں گے ؟یہ ہیں وہ سوالات جو آج ہر محب وطن کی زبان پر رقص کرتے ہوئے دکھائی اور سُنائی دے رہے ہیں جو کبھی بھی کسی ”مہارانی ” اور ”شاہ ” کے مصاحب نہیں رہے شاہوں کے مصاحب اور مہابلیوں کے نور تن تو آج بھی چچا غالب کی طرح وزارتوں اور سفارتوں کی غلام گردشوں میں اِتراتے پھر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔سر کار و دربار کے یہ قوال ہر دور میں لوشے لوٹتے ہیں ، اِن کو اس چیز سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ قوم مرتی ہے ، سڑ تی ہے ، جلتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔بس اُن کی روٹی روزی چلتی رہے ۔۔۔۔۔اِن کے آنگن میں تو آج بھی خوشحالی کی رقاصہ مور پنکھی ناچ کا نقش جما رہی ہے ، عوام کے غربت زدہ آنگنوں میں بھوک ، ننگ اور بد حالی کا دور دورہ ہے تو اِن سر مست ملنگوں اور خر مست تلنگوں کے کاسے اب بھی ڈالروں ، پائونڈوں ، ریالوں ، درہم و دیناروں اورایڈ ہاک بیسز پر لیے مختلف کمپنیوں کے ٹھیکوں سے بھرے ہوئے ہیں۔

اب کسی وڈیرے ، لُٹیرے ، فصلی بٹیرے سر مایہ دار ،جاگیر دار ، زردار ، زور دار ، رسہ گیر ، کف گیر ، چمچہ گیر ،پیدا گیر کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اولاد ِ آدم میں سے کسی کو اپنا بندہ بنا لے ، ایڈ منسٹریشن کی کائنات کے شہنشاہ ، مُرادِ رسول ۖ حضرت عمر فاروق کا ایک مشہور قول ہے کہ ”انسانوں کو کس طرح تم نے اپنا بندہ (غلام ) بنا لیا ہے جبکہ ان کی مائوں نے اُنہیں آزاد جنا ہے ” اور یہ بھی طُرفہ تماشہ ہے کہ احساسِ کمتری کے مارے مغربی تہذیب سے مرعوب ” قلمی قوال ”دانشور حضرت عمر کے درج بالا قول کو بھی کسی ٹَٹ پونجیے انگریز دانشور کے کھاتے میں ڈالنے کی نا کام کوشش کرتے رہتے ہیں ، کیا اس دھرتی پر کسی اِبن حاکم ، اِبن شریف ، اِبن پرویز ، اِبن پیر ، اِبن وزیر بن وزیر بن فلاں، اِبن زردار ، اِبن جاگیر دار کا حکم چلے گا؟ حکم صرف اسی کا ہے اور اپنی مخلوق کو صرف وہی حکم دینے کا اختیار رکھتا ہے اور اُسی کے حکم کی اطاعت اور فر مانبرداری کرنی چاہیے جو ہم سب کا پالن ہار اور روزی رساں ہے اگر ہم نے اِن لُٹیروں اور سیاسی ہاتھیوں کے چُنگل سے اپنے آپ کو آزاد کرا نا ہے توپھر عوامی ابابیل کا کردار ادا کرنا ہو گا اور اِن سیاسی ہا تھیوں کو ”کھائے ہوئے بھُس ”کے انجام سے دو چار کرنا ہو گا۔

آج ہم پر کھوسے ، لغاری ، زرداری ، مزاری ، قریشی ، دریشک ، گیلانی ، نون ، ٹوانے ، چٹھے ، چیمے ، رانے ، جکھڑ ، تھند ، سیہڑ ، مگسی ، اچلانے ، تنگوانی ، نوانی اور اس قبیلہ کے کئی با دشاہ ، فوجی ڈکٹیٹر ، ظالم و جابر سیاستدان و حکمران مسلط تھے ، ہیں اور نہ جانے کب تک مسلط رہیں گے؟یہ حکمران اور سیاستدان خدا کے باغی ، رسول ِ خدا ۖ کے دشمن ، اسلامی شریعت کے منکر ، مخلوقِ خدا کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والے ، غریب عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑنے والے اور رعایا کے تمام پیداواری ذرائع پر کنٹرول کر کے اس دولت عیش و عشرت ، کباب و شباب و شراب کے مزے لینے والے ہیں اِن حالات میں غریب عوام کا مجموعی طور پر فریضہ ہے کہ وہ آپس میں مر بوط ہو کر اِن جابروں ، ظالموں ، فاسقوں ، قذاقوں ، کذابوں ، قصابوں اور خدا کے باغیوں کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو اور ان کی طا غوتی حکومت کا تختہ اُلٹ کے رکھ دے مظلوم انسانوں کو ان کے شر سے پاک کردے ، اس کے بعد اللہ کی زمین پر ، اس کے آزاد بندوں پر ربِ کائنات کی حاکمیت قائم کی جائے تاکہ پھر سے خوشحالی کی حقیقی بہاریں ہم دیکھ سکیں ، ہمارا کام ہوتا ہے عوام کے ذہنی شعور کے بند دروازے پر دستک دینا اب دیکھنا یہ ہے کون خوش نصیب ہماری دستک پر شعور کی کُنڈی کھولتا ہے ؟تب تک کے لیے اجازت ، اللہ حافظ ۔۔۔۔! ویسے سپریم کورٹ سے مجھے ”شریفین والبریفین ” کا سیاسی جنازہ نکلتا ہوا دِکھائی دے رہا ہے۔

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر : صاحبزادہ مفتی نعمان قادر
03314403420