ہماری سیاسی جماعتوں کا المیہ

Pakistan Parties

Pakistan Parties

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
مسلم لیگ (نواز) ،پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف ہی ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جنہیں قوم نے حقِ حکمرانی تفویض کیا۔ نوازلیگ اور پیپلزپارٹی توپہلے بھی کئی بار حکومت کرچکیں لیکن تحریکِ انصاف کوپہلی بار خیبرپختونخوا میںحقِ حکمرانی ملالیکن المیہ یہ کہ تینوں ہی اندرونی ٹوٹ پھوٹ کاشکار ۔ پیپلزپارٹی نے اپنے پچھلے پانچ سالہ دَورِ حکومت میںجو ” گُل کھلائے” اُس کابدلہ قوم نے اُسے سندھ تک محدودکرکے دے دیا،پنجاب میںاُس کاوجود تک ختم ہونے کوہے اور آمدہ بلدیاتی انتخابات میںاُس کاکوئی ٹکٹ تک لینے کوتیار نہیں۔ مخدوش صورتِ حال ک وبھانپتے ہوئے آصف زرداری خودتو دبئی جابیٹھے اورپارٹی قیادت کے لیے نوجوان بلاول زرداری کوآگے کر دیا ۔اُن کاخیال تھاکہ بینظیربھٹو کابیٹا ہونے کی بناپر جیالے ایک دفعہ پھربلاول کے گرد اکٹھے ہوجائیں گے لیکن بلاول کی سیاست میںآمد کے باوجود پیپلزپارٹی کی مقبولیت میںرائی کے دانے کے برابربھی بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔

کہتے ہیںکہ جہازجب ڈوبنے لگتاہے توچوہے سب سے پہلے چھلانگیں لگاتے ہیں۔ یہی حال پیپلزپارٹی کے ڈوبتے جہازکا ہے کہ جس کے ”چوہے” تو دھڑادھڑ چھلانگیں لگارہے ہیںلیکن عوام میںاُن کی پذیرائی مفقود ۔پیپلزپارٹی سے تازہ تازہ تحریکِ انصاف میںشامل ہونے والے اشرف سوہنا کوتحریکِ انصاف نے اوکاڑہ کے قومی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میںمحض اِس بھروسے پرٹکٹ دیاکہ سونامیے اورجیالے مل کرچھوٹاموٹا ”کھڑاک” ضرورکردیں گے ۔کپتان صاحب نے اوکاڑہ میںانتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ ”بڑھک” تونہیں لگائی کہ تحریکِ انصاف جیت جائے گی کیونکہ اُنہیںبتا دیاگیا تھاکہ اشرف سوہناکی حالت بہت ”پَتلی”ہے البتہ یہ ضرورکہہ دیاکہ ”تَگڑامقابلہ کریںگے”لیکن ہوایہ کہ اشرف سوہناکو سونامیوںنے ”لفٹ ” کروائی نہ جیالوںنے اور”سوہنا” بیچارہ اپنی ضمانت بھی ضبط کروابیٹھا۔

PML-N

PML-N

کہتے ہیںکہ گھر کی بات گھرہی میںرہے تواچھّا ہے کہ اگرباہر نکل جائے تو لوگوں کو مرچ مصالحہ لگانے کاموقع مل جاتاہے اوربات کا ”بتنگڑ” بن جاتاہے۔ آجکل کیااینکرز کیالکھاری ،سبھی نوازلیگ کے اندرونی اختلافات کی کہانیاں ”چَسکے” لے لے کربیان کررہے ہیں لیکن قصور اُن کابھی نہیںکہ ”گھرکو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے” ۔ہمارے خواجہ آصف سیالکوٹی نے اپنے اورچودھری نثارعلی کے مابین اختلافات کا بیچ چوراہے بھانڈاپھوڑتے ہوئے کہہ دیاکہ اُن کی توچودھری نثارسے گزشتہ تین ،چارسال سے بول چال بھی بندہے۔ جب ایک پریس کانفرنس میںیہی سوال چودھری نثارعلی سے پوچھاگیا تو اُنہ وںنے فرمایا ”میںنے کبھی جوابی ردِعمل کی حوصلہ افزائی نہیںکی، کیونکہ میرانقطۂ نظرہے کہ پارٹی اورحکومت کے معاملات متعلقہ فورم تک ہی محدودرہیںتو بہترہے۔ مجھے سمجھ نہیںآتی کہ لوگوںکے پاس اتناوقت ہے کہ وہ بن سنورکر باقاعدہ سوٹ ٹائی کے ساتھ ہردوسرے روزٹی وی پرآ جاتے ہیں۔ وزیرِدفاع تواب ایک سال سے آئے ہیںاِس سے پہلے بھی میراجی ایچ کیواور سول آرمڈ فورسزسے براہِ راست رابطہ تھا ،مجھے یاوزارتِ داخلہ کوفوج سے رابطے کے لیے کسی دوسرے وسیلے کی ضرورت نہیں”۔

بھلے وزیرِداخلہ چودھری نثارعلی خاںکی ”پہنچ” بہت دورتک ہواورجی ایچ کیوسے براہِ راست رابطہ بھی لیکن قوم توبہرحال پریشان کہ جب پوراپاکستان حا لتِ جنگ میں، اندرونی وبیرونی دشمنوںسے نبردآزما ،ایسے میںدو اہم ترین وزارتوںکے سَربراہان کے مابین یہ چپقلش کہیںکسی سانحے کوجنم نہ دے دے ۔ ذاتی معاملات میںوہ بھلے ”لحد”تک ایک دوسرے سے نفرت کریں، قوم کی صحت پرکوئی اثرنہیں پڑنے والالیکن قومی معاملات میںافہام وتفہیم کافقدان کسی بھی صورت میںقابلِ قبول نہیں ۔حیرت ہے کہ وزیرِاعظم کی طرف سے ابھی تک کوئی ”شَٹ اَپ” کال بھی نہیںآئی۔ آمدہ خبروںکے مطابق نوازلیگ کے اندر دو واضح دھڑے قائم ہوچکے ،ایک دھڑے کی سربراہی چودھری نثارعلی اوردوسرے کی خواجہ آصف کے پاس جبکہ وزیرِ اعظم صاحب ”ٹک ٹک دیدم ،دَم نہ کشیدم’۔

یہی نہیںبلکہ وزارتِ خارجہ کے مشیرانِ ”گرامی قدر”سرتاج عزیزاور طارق فاطمی کی بھی آپس میںبالکل نہیںبنتی ،دونوںکے خیالات میںبُعدالمشرقین لیکن دونوںہی نازک ترین وزارت کے کرتادھرتا۔ اُدھر فیصل آبادمیں رانا ثناء اللہ گروپ اورچودھری شیرعلی گروپ تلواریں سونت کر ایک دوسرے پرپَل پڑنے کوتیار۔چودھری شیرعلی نے پریس کانفرنس میںکہا کہ رانا ثناء اللہ بیس افرادکا قاتل ہے اوراُنہوںنے اپنے بیٹے عابدشیر علی کوکہہ دیاہے کہ وہ وزارت چھوڑکر مسلم لیگ سے الگ ہوجائے ۔ درجوابِ آںغزل راناثناء اللہ نے کہاکہ چودھری شیرعلی کاذہنی توازن خراب ہوگیا ہے ۔وہ اپنے بیٹے کوفیصل آبادکا میئر بنانے کے لیے میاںشہباز شریف کوبلیک میل کررہے ہیں۔ اب صورتِ حال یہ کہ مرکزمیں وفاقی وزراء آمنے سامنے اورپنجاب میںبلدیاتی انتخابات میںنواز لیگ کے اندرمتحارب گروپس ،ایسے میںمیاں برادران کے لیے کامل یکسوئی کے ساتھ ملکی ترقی کے لیے جدوجہد کیسے ممکن ہے۔

PTI

PTI

پاکستان کی تیسری بڑی جماعت تحریکِ انصاف کااندرونی انتشار اظہرمِن الشمس ۔اِس کے باوجودبھی اُس کی کوئی کَل سیدھی نہیں۔احتجاجی سیاست کے رنگ ڈھنگ بھی نرالے، احتجاج کرناحزبِ اختلاف کاحق ہے لیکن گالی گلوچ اور بنا کسی ثبوت کے الزام پہ الزام دھرے جاناہرگِز احتجاجی سیاست نہیں۔ کپتان صاحب کایہ عالم کہ ”وہی ہے چال بے ڈھنگی ، جو پہلے تھی سواب بھی ہے”۔ عام لوگوں کا خیال تھاکہ ضمنی انتخابات میں ایاز صادق کی جیت سے تحریکِ انصاف کی احتجاجی سیاست دَم تو ڑجائے گی لیکن ہم نے تَب بھی لکھا کہ ایازصادق کی جیت تحریکِ انصاف کو سڑکوں پر لے آئے گی کیونکہ کپتان صاحب کویقین ہے کہ اگرنوازلیگ نے صرف لوڈشیڈنگ پرہی قابو پالیا تو 2018ء کاالیکشن بھی اُس کی جھولی میںآن گرے گا۔

آج وہی کچھ ہونے جارہا ہے اور خاںصاحب کے کرپشن کے الزامات میںتیزی آتی جارہی ہے ۔اُن کی حلقہ 122 کی پٹاری میںسے توکچھ نکلا نہیںالبتہ بے بنیاد الزامات کی سیاست کرنامقصود ہوتو پھر ”پٹاری” لبالب ۔شایداسی لیے میاںنواز شریف کبھی یہ کہتے ہیں ”قوم راستہ روکنے والوں کو آئینہ دکھائے ،ٹانگیں کھینچنے والے پیچھے رہ جائیں گے ،ہم آگے بڑھتے جائیں گے” ۔ تو کبھی یہ کہ ”لوگ گردوغبار اُڑاتے رہیں گے ،ہم منزل تک پہنچیںگے”۔ اللہ کرے ایسا ہی ہوکہ اسی میںملک وقوم کی بھلائی مضمرہے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسر رفعت مظہر