سیاسی و مذہبی جماعتوں کے جھنڈے، عوامی رائے

Political Parties

Political Parties

تحریر : حفیظ خٹک
شہر قائد سمیت پورے ملک میں سیاسی، مذہبی، سماجی و دیگر لاتعداد جماعتیں اپنے انداز میں ملک کیلئے خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ وقت گذرنے کے ساتھ ان کی تعدا میں اضافہ ہی ہوتا جارہاہے۔ کوئی بھی جماعت بننے سے قبل مختلف مراحل سے گذرتی ہے اور جب کامیابی کے ساتھ ان مراحل کا سفر طے ہوتاہے تو وہ جماعت حکومت کے متعلقہ محکمہ کی فہرست میں مندرج ہو جاتی ہے۔ اس جماعت کا ایک پرچم ہوتا ہے اور یہی پرچم اس جماعت کی شناخت بن جاتاہے۔ جماعت اس پرچم کو اپنا نشان بنا لیتی ہے۔ اس کا اظہار وپرچار ہر طرح سے کرنے کیلئے سرگرم عمل رہتے ہیں۔ اپنے وزٹنگ کارڈ سے لے کر اپنے صفحات پر، اپنے پمفلیٹ سے بینر تک اور اپنے چھوٹے جھنڈوں سے وسیع وعریض اسٹیج کے جھنڈوں تک ، اپنی ویب سائٹ سے پورے سوشل میڈیا پر وہ جھنڈااس جماعت کی اک پہچان بن جاتاہے، اس پورے عمل میں ذرائع ابلاغ ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ جماعت کے سربراہ کی تصویر کے ساتھ ان کے جھنڈے کو یا اس جماعت سے متعلق کوئی بھی خبر ہوتب بھی ان کے جھنڈے کو نمایاں انداز میں دیکھایا جاتاہے۔ پرچم اس جماعت کی پہچان بن جانے کے بعد قوم اس جماعت کو پرچموں سے پہچاننے لگتے ہیں۔

کسی بھی سیاسی جماعت کا جلسہ ہوا تو اس کی تیاری کے لئے وہ جماعت اپنے جھنڈے بجلی کے کھمبوں پر، مکانوں اور دکانوں سمیت عام شاہراہوں پر لگاتے ہیں۔ جس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس جماعت کی عوام میں بھرپور پذیرائی موجود ہے اور وہ سب جھنڈے عوام نے خود سے لگائے ہیں۔ یہ درست ہے کہ جس جماعت کی صوبائی یا مرکزی حکومت ہوتی ہے تو وہ جماعت اپنے جلسوں میں جھنڈے لگانے کیلئے تمام تر حکومتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہیں۔ یوں عوام کے ٹیکسوں پر چلنے والے یہ ادارے سیاسی جماعتوں کی خدمت گذار بن جاتی ہے۔ سیاسی و مذہبی جماعتیں ہوں یا غیر سیاسی و غیر مذہبی جماعتیں، سبھی اک طے شدہ نصب العین کے تخت آگے کی جانب بڑھتے ہیں۔ ان کی منزلیںطے ہوتی ہیں اور ان منزلوں تک پہنچنے کیلئے راستے بنائے جاتے ہیں۔ ہر موقع و جگہ پر پرچم ان کی شناخت ہوتا ہے۔ ان تنظیموں کے پرچموں سے متعلق اک تفصیلی سروے کیا گیا جس میں عوام سے ان کی پسند و ناپسند جاننے سمیت ان تکریم و حرمت سمیت تعظیم سے متعلق سوالات پوچھے گئے۔ بڑی جماعتوں کے پرچموں کو جاننے کے علاوہ عام لوگوں کا دیگر عام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے پرچموںکو جاننے کا معاملہ زیادہ رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی اس حوالے شناسائی زیادہ ہے۔

ایک نقطہ جوکہ اس پور ے سروے میں قابل توجہ رہا اور اس نقطے کو لوگوں نے اجاگر کرنے کے ساتھ مذمت کرنے اور شدید انداز میں اس پر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ وہ ایک نقطہ یہ تھااورہے کہ پرچموں پر چاند و تارہ نہیںہونا چاہئے اس کے ساتھ سیاسی خصوصا مذہبی جماعتوںکے پرچموں پر مقدس کلمات نہیںلکھے ہونے چاہئیں۔ سیاسی جماعتوں کا نام لیتے ہوئے انہوں نے اس جماعت کے پرچموں میں الفاظ و جملوں کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے اشارے کئے کہ دیکھنے میں تو اس طرح سے ان کا جھنڈا بہت اچھا لگتا ہے لیکن اس وقت شدید تکلیف کا سامنا کرناپڑتاہے کہ جب وہ جھنڈا زمین پر نظر آجائے،کہیںکچرے کے ڈھیر میں نظر آئے، کہیں پر تیز ہوا اس کے ٹکرے کرئے اور وہ جھنڈا دھیرے دھیرے اختتام پذیرہونے کی جانب بڑھتاہو۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ اس جماعت کے لوگوں کو اپنے جھنڈے لگانے کی تو جلد ہوتی ہے لیکن اتارنے اور ہٹانے کا یہ لوگ سوچتے بھی نہیں ہیں۔

متعدد مذہبی جماعتوں کے جھنڈوں کا ذکر کرنے کے ساتھ بعض نے وہ جھنڈے دیکھائے کہ جن پر کلمہ طیبہ کے ساتھ اللہ اکبر بھی لکھا تھا ، عوام کا کہنا تھا کہ یہ اور بعض وہ جھنڈے بھی ہیںکہ جن پراور بھی مقدس نام لکھے ہوتے ہیں، انہیں بھی لگانے کے بعد بھلادیا جاتا ہے۔ سرجانی ٹائون کے رہائشی فیصل نے بتایا کہ ان کے علاقوں میں اک مذہبی جماعت کے جھنڈے ہر کھمبے پر لگے ہوئے ہیں، تیز ہوا کی وجہ سے بعض جھنڈے زمین پر پڑے نظر آتے ہیں۔ اب کچھ لوگ مقدس نام کی وجہ سے انہیں اٹھاکر کسی جگہ رکھ دیتے ہیں لیکن یہ کام ان کا نہیں ہے۔ یہ ذمہ داری اس جماعت کے رہنمائوں اور کارکنوں کی ہے کہ جنہوں نے اپنے جھنڈوں کے ذریعے مقدس الفاظ کو یہاں تک پہنچایا ہے۔ کئی دیگر افراد نے بھی فیصل کی اس بات کی تائد کرتے ہوئے کہا کہ اول تو جھنڈے پر کلمہ ہونا ہی نہیں چاہئے اگر ہے تو اس کی تعظیم حد سے زیادہ ہونی چاہئے۔ حکومت سندھ کو شہر کے کاموں سے فرست نہیں وہ بھلا کیونکر ایسے جھنڈوں کو کھمبوں سے اتارنے میں اپنا وقت ضائع کرینگے۔ ناظم آباد میںسروے کے دوران کالج کے طلبہ نے کہا کہ جھنڈا کسی بھی جماعت کی پہچان سخی تاہم اب اس جھنڈے پر مقدس نام و الفاظ کا سامنے آنا مناسب نہیں ہے۔ ویب سائٹ پر مکمل جھنڈا دیکھا یا جاسکتاہے لیکن یوں عام اور کھلے ماحول میں جھنڈوں کو اس حالت میں آنا نامناسب ہے۔

بعض مذہبی جماعتوں کے کارکنوں نے بھی اس حوالے کہا کہ ہم ملک میں موجود مذہبی جماعتوں کیلئے عوام میں احترام پایاجاتاہے۔ تاہم ملک میں جب بھی انتخابات کا دور ہوتاہے تو مذہبی جماعتوں کو ووٹ کم مقدار میں ہی مل پاتے ہیں۔ دیگر سیاسی جماعتوں کو ہی عوام ووٹ دے کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچاتے ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے جھنڈوں پر بسااوقات عوام اعتراض کرتے ہیں اور ان کے اعتراض کی بڑی وجہ یہی ہوا کرتی ہے کہ جھنڈوں میں موجود اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں ہونا چاہئے ۔ نام کا احترا م ہر محب وطن کے دل میں موجود ہوتا ہے تاہم اکثر اوقات یہ ہوتا ہے کہ مذہبی جماعتوں کے یہ مرچم زمین پر نظر آتے ہیں ۔ تیز ہوائیں انہیں زیادہ دن کھمبوں پر یا اور کسی بھی اوراونچی جگہوں پر زیادہ دیر رہنے نہیں دیتیں۔ مذہبی جماعتوں کے کارکنان کسی بھی مہم کی صورت میں اپنے پرچموں کو لگاکر بھول جاتے ہیں اور یہ عمل صرف مذہبی جماعتوں کا ہی نہیں دیگرسبھی جماعتوں کا بھی یہی طرز عمل ہوتاہے۔ پرچموں کے زمین بوس ہونے کے عوام پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

شہر قائد میں سروے کے نتیجے میں یہی اک عوامی مطالبہ سامنے آیا کہ سیاسی ومذہبی جماعتیں اپنے پرچموں کااحترام کریں۔ اپنے جلسوں کی تشہیر سمیت دیگر موضوعات و مواقعوں کیلئے اپنے پرچموں کو آویزاں کریں تاہم اس مہم یا جلسے کے گذر جانے کے بعد انہیں اتاریں اورآئندہ کیلئے سنبھال کررکھیں۔ اس اک ذرا سے خیال سے ان کی معاشی بچت ہونے کے ساتھ معاشرے میں بھی ان کے حوالے سے مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ بعض شہریوں کا کہناتھا کہ سندھ ہائی کورٹ نے ماضی میں شہر کے اندر سائن بورڈ ز پر پابندی عائد کی جس کے مفید اثرات اب تک شہر میں پائے جارہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ ان بورڈز کے باعث کتنی اموات ہوئیں۔

اب جب کے شہر میں سائن بورڈز نہیں ہیں تو شہر اجلا سادیکھائی دینے کے ساتھ صاف ستھرا بھی دیکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح اگر ان پرچموں کو کچھ دنوں کے بعد شہری انتظامیہ یا اسی سیاسی جماعتوں کے کارکنا ن اتاردیں تو اس سے ماحول پر مفید اثرات مرتب ہونگے۔ اب ایسا بھی ہوتا ہے کہ مقدس مہینوں میں شہر کے اندر پرچموں کا موسم بہار ہوتاہے لیکن وہ وقت گذر جانے کے باوجود بھی جب وہ پرچم ہٹائے نہیں جاتے تو کچھ عناصر یا تیز ہوائیں ان پرچموں کو ذرہ ذرہ کاٹ کر بہت کم کر دیتی ہیں اور پھر ایسا بھی ہوتاہے کہ وہ پرچم زمین پر نظر آنے لگتے ہیں۔

بعض شہریوں کا یہ بھی کہنا تھاکہ جس طرح مقدس اوراق کیلئے جابجا ڈبے رکھے گئے ہیں اسی طرح پرچموں کیلئے بھی کوئی ایسا انتظام ہونا چاہئے۔ تاہم یہی بہتر ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں سمیت دیگر جماعتیں اپنے کارکنان کو ہدایت دیں کہ وہ اپنے بینرز وپرچموں کا احترام کریںاور کوئی بھی جھنڈاخواہ وہ کسی بھی جماعت کا ہواور زمین پر نظرآئے تو اسے اٹھا کرکسی محفوظ مقام پر رکھیں۔

سیاسی و مذہبی جماعتوں کو عوام کی اس رائے مدنظر رکھتے ہوئے مثبت اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ان کی جماعت کوان کے کردار کی وجہ سے مثبت انداز میں اجاگر ہونے میں معاونت ہو۔ ملک کی بڑی مذہبی جماعت ہو یا چھوٹی جماعت اس کے ساتھ ہی دیگر سبھی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو چاہئے کہ جس طرح انہیں اپنی تحریکیں، طریقہ کار و منزلیں عزیز ہیں اسی طرح انہیں اپنے پرچموں کی عزت کا بھی احساس ہوناچاہئے۔ ایسا قطعی نہیں ہونا چاہئے کہ وہ بوقت ضرورت پرچم کو تھامے رکھیں اسے لہرائیں اور جب وہ لمحات گذر جائیں تو انہیں اپنے پرچم یاد تک نہ ہوں۔ بظاہر پرچموں کی عزت کا احساس اپنے کارکنان میں اجاگر کرنا کوئی بڑا اور مشکل کام نہیں تاہم پرچموں کی عزت کا نہ ہونا MIS FITضرور ہے لہذا سیاسی و مذہبی جماعتوں کو معاشرے سے MIS FITNESSکو دور کرنے کیلئے FIX IT جیسے اقدامات کرنے ہونگے۔

تحریر : حفیظ خٹک