کھودا پہاڑ نکلا چوہا

Khoda Pahar Nikla Chuha

Khoda Pahar Nikla Chuha

ہمارے بزرگ سیاستدان مرحوم پیر پگاڑا صاحب کا یہ سیاسی بیان بڑا دلچسپ ہوتا تھا کہ دو سیاسی جماعتوں کے درمیان بلی چوہے کا کھیل جاری ہے جبکہ ہمیں شیر دل پنجاب پولیس کی روائتی تفتیش جس کے موجودہ سائنسی دور میں ہم دل سے معتقد ہیں کے مطابق کسی ملزم سے جرم منوانے کے لیے اس کی شلوار میں پائنچے باندھ کر چوہے چھوڑے جاتے ہیںبھی ہمیں بڑا دلچسپ اور انوکھا طریقہ تفتیش معلوم ہوتا مگر یہ سب تجربے اور کہاوتیں اس بُرے وقت میں ہمارے آڑے آگئیں جب چھٹی کے روز بیگم بے ساختہ حاکمانہ انداز میںکہا کہ آپ سو رہے ہیں اور سٹور میں چوہا گھس آیا ہے ۔میری نحیف مزاحمت کو اس نے بلائے طاق رکھتے ہوئے بڑی دیدہ دلیری سے سٹور میں آمد ڈال دی ہے۔ بیگم کے ڈرنے کی وجہ سے ہمیں چوہے کی اہمیت کا ادراک ہوا ورنہ ہم تو ساری زندگی چوہے کو ڈرپوک نیم درندہ سمجھتے رہے۔

اس مختصر بے ضرر اور معمولی حکم نامے کی نوعیت سمجھنا تو درکنار ہمیں اپنی جان کے لالے پڑ گئے بڑے بہادر ،نڈر ،بے خوف اور بے باک تو بیگم نے مشہور کر ہی رکھا تھا اور ہم بھی شیخیاں بگھیرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے مگر ان صفات کا امتحان لینے کی نوبت کبھی نہیں آئی تھی مگر ہمارے دل میں چور تھا ہمارا سارا دھیان اس طرف آ نکلا کیونکہ بڑوں سے سن رکھا تھا جس نے پہلی رات بلی مار لی بقیہ ماندہ ازدواجی زندگی میں اسے کوئی فکر فاقہ نہیں ہوگا مگر تاریخ کی ستم ظریفی کہ جس نے پہلی رات بلی مارنے کی نوبت ہی نہ آنے دی اور اپنے اس دھانے پر رکھ دیا جس میں بلی کا مرغوب بلکہ محبوب شکار مارنے یاکم از کم ڈرا کر بھگانے کا حدف مل گیا ۔ہم بھی زمانہ طالب علمی میں جان جوکھوں میں ڈالنے والے محاورے کو جملوں میں استعمال نہ کر کے متعدد بار استاد محترم کا تشدد برداشت کر چکے تھے مگر اس ظالمانہ محاورے کو کبھی جملے میں استعمال کرنے کی غلطی ہم سے سر زد نہیں ہوئی تھی ابھی اس جان لیوا مہم کو سر کرنے کے لیے تدابیر ہی بنا رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ بیگم نے کس مکروہ کام کے لیئے منتخب کیا ہے اس دوران گرجدار آواز میں دوبارہ حکم نازل ہوا کہ دشمن ہمارے رکھے گئے۔

عروسی ملبوسات کی جانب پیش قدمی کر رہا ہے اور جناب ہیں کہ ابھی تک سوچوں کی دنیا سے باہر نہیں آ رہے ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلا ہیں جی، چونکہ ہم گھر میں بیگم صاحبہ کو سیمی سول ایڈمنسٹرئٹر مارشل لا سمجھتے ہیں اور اس محاورے سے بھی خوب واقف ہیں بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا ؟ قصہ مختصر بیگم کے شاہی فرمان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جب ہم نے اپنی بہادری کے جوہر دکھانے کی ٹھان لی تو لاشعوری طورپر محاذ جنگ یعنی سٹور کے قریب پہنچے توسب سے پہلے جو کام کیا وہ بائیں ہاتھ سے شلوار کو گھٹنوں تک اٹھا لیا کیونکہ پولیس کا روائیتی طریقہ تفتیش ذہن کے دریچوں میں حلول کر گیا تھا جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے فرش پر کوئی پانی وغیرہ موجود نہیں تھا میدان جنگ میں پہنچتے ہی ہم نے پہلی فرصت میں سامان حرب و ضرب کا باریک بینی سے جائزہ لیا جو آہنی خاتون کے کہنے پر بچوں نے وہاں مہیا کر رکھا تھا سامان میں جھاڑو گھر کے وائپر ،جالے اتارنے والی ڈانگ عید پر بکرا لٹکانے والا رسہ اور گھر کے تمام بڑوں کے جوتے شامل تھے کاروئی شروع کرنے کا ابھی کاشن نہیں آیا تھا کہ ہم نے غور سے خوف زدہ بچوں کے چہروں کا جائزہ لیا سب بچے سہمے ہوئے صرف انگلیوں کے اشاروں سے ہمیں گائیڈکر رہے تھے جبکہ شاید آوازیں اس لیے نہیں آ رہی تھیں کہ ان کی ماں نے منہ پر انگلی رکھی ہوئی تھی ۔بہرحال ہم بھی پانچ چھ سانپ ڈانگ سے مارنے کا تجربہ رکھتے تھے اور ہمارے کانوں میں بیگم کا مشہور زمانہ جُملہ کہ شوہر آستینوں کے سانپ ہوتے ہیں بھی رس گھول رہا تھا ہم نے اپنے بزرگوں سے بھی سنا تھا کہ ڈانگ کا ہاتھ میں آ جانا کوئی کمال نہیں ہوتا بلکہ اس کا استعمال اور مخالف کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا یا کم از کم زیادہ سے زیادہ مرعوب کرنا ہی اوج کمال ہوتا ہے بر کیف سوائے ٹانگوں کے سارے کا سارا سامان حرب و ضرب ہمارا ساتھ دے رہا تھا اس کی وجہ گھن کراہت میں گندھا ہوا وہ خوف جو اس مخلوق کو دیکھتے ہی ہمارے اوپر طاری ہوجاتا ہے اس سے بڑا خوف دشمن کابچ نکلنا تھا جس نے ہماری بہادری کی داستانوں پر کئی ایک سوال چھوڑ جانے تھے ۔چونکہ اب اس محاذ سے بچ نکلنے کا کوئی کامیاب طریقہ ہمارے ذہن کی دہلیز پر نہیں آ رہا تھا چنانچہ ہم نے بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر دُشمن کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ہم نے سامان حرب و ضرب میں سے مقابلے کیلئے جس ہتھیار کا اانتخاب کیا وہ وائپر تھاآگے بڑھے اپنی موجودگی وہاں ظاہر کی وائیپر کو آگے بڑھایا پیچھے سے دو چار مرتبہ چھی چھی ، کیا مگر خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی دشمن تو ٹس سے مس ہوتا نظر نہ آیا۔

ورنہ چھی چھی سے ہی اس پر ہماری بہادری کی دھاک بیٹھ جاتی مگر ہماری چھی چھی بے سود ثابت ہوئی ۔ہم نے وائپر کے ساتھ دو بڑے چھتروں کا بھی اضافہ کر لیا محسوس یہ ہورہا تھا کہ ہم کوئی کرتب دکھانے جارہے ہیں بچے محاذ جنگ پر کھڑے خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے جبکہ بیگم نے جی ایچ کیو(میری مراد کچن) میں مورچہ سنبھال رکھا تھا اور مسلسل ہدایات جاری ہو رہی تھیں ہم دشمن پر دوبارہ پوری قوت سے حملہ آور ہوئے سٹور میں پڑی ہر چیز کو ڈھول سمجھ کر ہم نے چھتروں سے خوب بجایا اب دشمن بھی چوکنا ہو چکا تھا شاید اس کو اندازہ ہو رہا تھا کہ حملہ ور اس کے سر پر آن پہنچا ہے جب اسے جان کے لالے پڑ گئے تو خیر دشمن نے گندم کے رکھے گئے بھڑولے کے پیچھے پناہ لے لی اب وہ ہمیں چکانیاں دینے کا پورا موڈ بنا چکا تھا ویسے ہم بھی بیگم کے جھانسے میں آنے کا وسیع تجربہ رکھتے تھے۔

بہر حال اس موقع پر ہم بھی کوئی فائول پلے نہیں کرنا چاہتے تھے گھمسان کی چومکھی لڑائی جاری تھی اور مقابلہ اعصابی جنگ میں تبدیل ہوتا جارہا تھا لیکن اس سے پہلے کہ ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا دشمن خود بے صبری کے اوچھے ہتھکنڈے پر اتر آیا میدان جنگ سے الٹے پائوں ایسا سر پٹ دوڑا کہ ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلا کھودا پہاڑ نکلا چوہا ۔اس کم ظرف کے بھاگنے میں ہی ہماری عافیت تھی کیونکہ وہ کہانی ہم نے پڑھ رکھی تھی جس میں ایک عقاب سردیوں کے دنوں میں ایک چوہے کو نہر کنارے بھیگا بے سدھ دیکھتا ہے ترس کھا کر اسے اٹھالیتا ہے اور پہاڑ پر جا کر بیٹھ جاتا ہے اور اسے اپنے پروں کے نیچے پناہ دے دیتا ہے اور جب چوہے کو پروں کی گرمائش سے ہوش آتی ہے تو وہ نیچے سے عقاب کے پر کاٹ دیتا ہے اور جب عقاب اڑنے لگتا ہے تو خود کو اڑان کی صلاحیت سے محروم پاتا ہے تو بے ساختہ کہتا ہے احسان بھی نسل دیکھ کر کرنا چاہیے اسی وجہ سے ہم اس کم ظرف اور احسان فرموش نیم درندے کو گھر میں پناہ دینا نہیں چاہتے تھے تاکہ اس کی ریشہ دیوانیوں سے محفوظ رہیں ۔جی ایچ کیو میں بیٹھی بیگم کی آواز آئی کیا بنا ؟ ہم نے فاتحانہ انداز میں گردن جھٹک کر کہا بھاگ گیا بدبخت ہم نے تو اس کے چھکے چھڑا دئیے ذرا ٹھہرتا تو اسے بتاتے ہم کیا ہیں اس بے لاگ تبصرے سے بیگم اور بچوں کو نجانے کیوں روائتی اختلاف تھا جس کا اظہار انہوں نے طنزیہ پر مسکراہٹ سے کیا کم از کم گھر میں تو اختلاف رائے کی بھی دل وجان سے قدر کرتے ہیں اور اس کو ہمیشہ حکمت اور مصلحت قرار دیتے ہیں۔

آخر پر ہم نے بچوں کو اکھٹا کیا بیگم کو ساتھ بٹھایا حسب معمول با حوصلہ زندگی گزارنے اور بہادری کے جوہر دکھانے کا لیکچر دیا اور آج تک زندگی کوہلو کے بیل کی طرح اپنی پوری آب و تاب سے رواں دواں ہے۔

Ch Ghulam Ghaus

Ch Ghulam Ghaus

تحریر : چوہدری غلام غوث