ہمارے سیاستدان اور بھارتی جنگی جنون

Cameron Munter

Cameron Munter

تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا
سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر کہتے ہیں، پاک بھارت تناؤ پر پاکستان کی تشویش جائز ہے۔یہ وہ بات ہے جو ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہماری بد نصیبی اور بد قسمتی ہی ہے کہ جب دنیا کے نقشے پر پاکستان ایک خود مختار ملک کے طور پر ابھرا اسی وقت دشمن کی گندی نظریں، اور دشمن کی گندی سوچ نے اپنے پنجے پاکستان کے حکمران طبقے کے دل و دماغ پر گارڈ دئے، ہم آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں ہو سکے۔ دشمن ہمارے بھائیوں کے گلے کاٹ رہا ہے، ہماری ماؤں بہنوں کی عزتوں کے جنازے نکال رہا ہے،اور تو اور وہ ہمارے پانی کو ہمارے لئے زہر آلود کر رہا ہے۔ جب پانی کی ضرورت ہوتی ہے تب دریاؤں کو خشک کر کے پاکستان کو بد حالی ، اناج کی قلت اور پاکستان کے باسیوں کو بھوکا پیاسا ترسا ترسا کر مرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔

یہ اسی دشمن کی چال ہے جو پاکستان میں ہر سال سیلاب طوفان اور آندھیوں کا نہ تھمنے والہ جم غفیر تحفے کی صورت میں دیا جاتا ہے، ہمارے حکمران طبقے اسی کو غنیمت جانتے ہوئے فلمی دنیا کی طرح آندھیوں سیلابوں اور بارشوں میں فوٹو بنوا کر حق حکمرانی ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر یہ دیکھاواپن نہ ہو تو حکمران تو حکمران عام انسان بھی جانتا ہے کہ ۔۔ بقول شاعر۔۔زمانہ کرتا ہے یاد اُن انسانوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو روک لیتے ہیں بڑھتے ہوئے طوفانوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر آیا جب دنیا نے دیکھا بھارت بدمعاش نے پاکستان کے معصوم شہریوں کو یک طرفہ گولہ باری کا نشانہ بنایا ہے ، یہ بھارت کا کوئی نیا کھیل نہیں بلکہ مکرو فریب کی چالوں سے وہ پاکستان اور کشمیر کے شہریوں کو شروع سے ہی اپنی ہٹ درمی کے باعث موت کی وادی میں دھکیل رہا ہے۔

سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر کہتے ہیں پاکستان کے کچھ تاجر اور کچھ سیاستدان نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی کرے اس بات سے مجھے سو فیصد اتفاق ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سابق امریکی سفیری کیمرون منٹر کا بیان حب علی نہیں بلکہ بغض یزید ہے۔ عام طور پر دشمن کے ساتھی بھی دشمن ہی تصور کئے جاتے ہیں۔ اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے ، ہندؤں، یہود اور عسائی مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے تو پھر سابق امریکی سفیری کیمرون منٹر کے بیان پر مجھے سو فیصد یقین کیوں ہے ۔۔۔۔؟؟؟ مجھے ایک واقعہ یاد آگیا پہلے وقتوں کی بات ہے ایک بزرگ آدمی تھے اندھیری رات کا عالم اور بارش ہو رہی تھی۔۔۔

بزرگ نماز عشاء ادا کرنے کی غرض سے مسجد جا رہے تھے۔۔ راستہ میں پاؤں پھسل گیا تو بزرگ آدمی بارش کی وجہ سے کیچڑ میں گھر گئے جس سے کپڑے خراب ہوگئے، بزرگ واپس گھر آئے اور نئے کپڑے پہنے اور ہمت کر کے پھر مسجد کی طرف چل دئے، جب کیچڑ والی جگہ پہنچے تو توازن برقرار نہ رکھ سکے ۔۔۔ جسکی وجہ سے دوبارہ کیچڑ میں گھر کر کپڑوں کے خراب بھی کرلیا اور خود کو بھی خراشیں آگئی۔۔۔۔۔۔۔ بزرگ پکا نمازی تھا۔۔۔ دل میں پختہ ارادا کیا اور پھر گھر سے کپڑے تبدیل کر کے رات کے اندھیرے اور بارش کے عالم میں مسجد کی طرف چلنے لگے۔۔۔ جب گھرنے والی جگہ پہنچے تو وہاں ایک آدمی ہاتھ میں ٹارچ لئے ہوئے آپ کا انتظار کر رہا تھا، وہ بزرگ آدمی کے ساتھ روشنی کر رہا تھا اور جب مسجد کا دروازہ آیا تو ٹارچ والی آدمی آگئے نکلنے لگا۔

Pakistan and India

Pakistan and India

نمازی بزرگ نے کہا کدھر جا رہے ہو نماز کا وقت ہے نماز ادا کر لو۔۔۔۔ وہ بولہ میں نماز ادا نہیں کر سکتا آپ نماز پڑھئیے، بزرگ کو بڑی حیرانگی ہوئی۔ کہ کتنا نیک آدمی ہے ۔۔ مجھے اندھیرے سے روشنی کی مدد سے بچا کر مسجد میں پہنچا دیا ہے اور خود نماز ادا نہیں کر رہا۔۔۔۔ جب تکرار بڑی ۔۔۔ تو اس آدمی نے کہا اے اللہ کے بندے میں شیطان ہوں۔۔۔ پہلی بار بھی میں نے تم کو کیچڑ میں گھرایا تھا۔۔۔ جب تو کپڑے بدل کر آیا تو اللہ تعالیٰ نے تیرے سارے گناہ بخش دیئے مجھے بہت دکھ ہوا تھا۔۔۔ اسی لئے میں نے تم کو دوسری بار کیچڑ میں گھرا دیا تھا۔۔۔ مگر جب تم کپڑے بدل کر پھر نکلے ۔۔۔ تو اللہ رب العذت کی زات پاک نے تیرے تمام گھر والوں کے گناہ بخش دئیے۔۔۔ میں نے سوچا اگر تم اب کیچڑ میں گھر کر پھر نئے کپڑے پہن کر آ گئے تو ہو سکتا ہے اللہ تمھاری ساری بستی کے گناہ بخش دے ، اگر ایسا ہو جاتا تو میری ساری محنت مٹی میں مل جانی تھی اس لئے میں ٹارچ لیکر آیا ہوں تا کہ تم مسجد پہنچ سکو۔۔۔،جیسا شیطان کو بزرگ سے محبت نہیں تھی مگر وہ اندھیری رات میں مسیحا بنکر لائٹ سے راستہ روشن کرتا رہا۔۔۔ بلکل اسی طرح سابق امریکی سفیری کیمرون منٹر کو پاکستان سے محبت ہو یا نہ ہو مگر ۔۔۔۔یہ بیان ان کا حقیقت ہے۔

پاکستان اور وطن عزیز کی غیور قوم کے ساتھ پاکستان کے حکمران طبقہ کب مخلص ہوگا۔ پاکستان کے سیاست دانوں اور تاجروں کو وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بھارت کو ایک پاکستان دشمن ملک تصور کرنا چاہیے،بھارت کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی سانپ کا بچہ پالنے کی غرض سے رکھ لے اور ہر روز اپنے ہاتھوں سے سانپ کے بچے کو دودھ پلاتا رہے۔مگر جب موقع ملے گا تو سانپ کا بچہ ڈسے گا ضرور یہی حالت بھارت کی ہے، جتنی مرضی دوستیاں کرلو۔۔۔ وقت آنے پرسانپ کے بچے کی طرح ڈسے گا ضرور۔کیسی مزائقہ خیز بات ہیں ، دشمن بارڈر پر بے گناہوں اور معصوموں کو اپنی چالوں سے گاجر مولی کی طرح جب بھی چاہے کاٹ لے اور ہمارے حکمران اپنے کاروبار کی وسعت اور کامیابی کے لئے آموں سمیت ہر قسم کے تحفوں کو بھیجنا اپنے اُوپر فرض کیا ہوا ہے۔

کاش ہمارے حکمرانوں اور تاجروں کو ذاتی مفاد کی بجائے پاکستان کا مفاد عزیز ہو تا۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ سابق امریکی سفیری کیمرون منٹرکے بیان کو مختلف پہلوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ملک عزیز سے ملکی مفادات کی خاطر بلا خوف و تفریق حقیقی احتساب کا عمل وسیع کیا جا رہا ہے۔۔۔۔ اور اس احتسابی عمل کو روکنے کے لئے اور افواج پاکستان کی پاکستان کے لٹیروں سے توجہ ہٹانے کے لئے بھارت کو استعمال کیا جائے گا۔اور بھارت کا جنگی جنوں اسی سلسلے کی کڑی ہے اور بھارتی جنگی جنون کی کڑی پاکستان کے سیاسدانوں اور تاجروں سے ملتی ہے۔

Dr Tasawar Hussain Mirza

Dr Tasawar Hussain Mirza

تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا