سیاست دان کو معلوم ہونا چاہئیے اس کے جانے کا وقت آگیا ہے : گورباچوف

Gorbachev

Gorbachev

نیویارک (جیوڈیسک) سوویت یونین کے سابق صدر میخائل گوربا چوف نے اپنی نئی کتاب ” دی نیو رشیا ” میں تحریر کیا ہے کہ سیاسی لیڈر کو پتہ ہونا چاہئیے کہ اسکے سیاست سے آوٹ ہونے کا صحیح وقت کیا ہے جو لیڈر قوم پرست ہو گا وہ اقتدار کو اپنا کاروبار نہیں بنائے گا اور نہ ہی اپنے خاندان کے افراد کو حکومتی اہم عہدوں پر فائز کریگا اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو سمجھ لینا چاہئیے کہ وہ صرف ملکی خزانے کو لوٹنے آیا ہے۔

تحریر کے مطابق ایسا شخص نہ تو رہبر ہوتا ہے اور نہ ہی عوام کی جان و مال کا اس کو کوئی احساس ہوتا ہے بلکہ وہ ایک ” سیاسی ڈاکو ” کہلائے گا۔ ایک کامیاب لیڈر جب یہ دیکھتا ہے کہ وہ عوام میں اپنی قدرومنزلت کھو چکا ہے تو وہ اپنی ساکھ کو بچانے کی خاطر اقتدار سے دستبردار ہو کر نئے چہروں کو آگے آنے کا موقع دیتا ہے یہی ایک کامیاب لیڈر کی پہچان ہوا کرتی ہے۔ کامیاب لیڈر موروثی سیاست پر یقین نہیں رکھتا بلکہ وہ اپنے خاندان اور کاروبار کو اقتدار سے دور رکھتا ہے تاکہ لوگ اسکی امانت اور صداقت پر شک نہ کریں۔

میخائل گوربا چوف نے اپنی کتاب میں امریکہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکہ کو عالمی پولیس مین کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیئے اُسے پولیس مین بننے کی بجائے دنیا کو متاثر کرنے والے گلوبل وارمنگ مسائل کے حل کے لیئے کوششیں کرنی چاہئیں ۔ انہوں نے کہا کہ سرد جنگ کا خاتمہ کسی ایک فریق کی جیت یا دوسرے کی ہار نہیں بلکہ یہ ایک مشترکہ فتح تھی۔

مصنف کتاب میں لکھتے ہیں کہ روس کو ابھی تبدیل ہونا ہے لوگ موجودہ حالات سے مطمئن نہیں گذشتہ دو دہائیوں سے اصلاحات پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہو سکا وہاں سرعام انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے ، لوگ نہ تو خوش ہیں اور نہ ہی مطمئن ، لوگوں کے خدشات ہیں کہ روس غلط سمت کی طرف بڑھ رہا ہے جمہوریت ایک مشکل ، کٹھن اور جان جوکھوں کا کام ہے ، میں نے روس کو متحد کرنے کے لیے آخری دم تک کوششیں کیں لیکن اس میں مجھے کامیابی نہیں مل سکی جب میں نے دیکھا کہ اگر میں اقتدار پر چمٹا رہا تو خانہ جنگی اور ریاستوں کے درمیان سول وار شروع ہو سکتی ہے ، کیونکہ کچھ ریاستوں کے پاس نیوکلیئر ہتھیار بھی تھے چنانچہ ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے استعفیٰ دیدیا میں نے یہ فیصلہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا مجھے اس پر پچھتاوا نہیں میں اپنے لوگوں کی خودمختاری پر یقین رکھتا ہوں ۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے اور میرے استعفیٰ کے بعد سرد جنگ اور اسلحہ کی دوڑ کا خاتمہ ہوا ایک لحاظ سے لوگوں کو شخصی اور معاشی آزادی ملی اور ورلڈ وار کا خطرہ بھی ٹلا۔

یلسن بورس کے دو سالہ اقتدار کے دوران پارلیمنٹ کو تباہ و برباد کر دیا گیا سرکاری اداروں میں رقص و سرور کی محفلیں سجتی تھیں اور پھر سب نے دیکھا کہ حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے آگئی اور ایک دوسرے پر گولیاں چلائیں گئیں اور سیاسی سسٹم کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔

مصنف اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ نائن الیون کے واقعہ کے بعد ہتھیاروں کے پھیلاو اور انکے استعمال پر بیحد اضافہ ہوا ، صدام حسین کا خاتمہ اور دیگر ممالک پر فوجی آپریشنز کا سرعام مظاہرہ کیا گیا اور اس عرصے میں خطرناک اسلحہ کی ریکارڈ خریداری کی گئی ، عراق کی جنگ کو میں نے امریکہ کی فاش غلطی قرار دیا تھا ۔ ٹوکیو کے ریلوے اسٹیشن پر جب ایک صحافی نے مجھے بتایا کہ عراق پر حملہ کر دیا گیا ہے تو میں نے اُسی وقت کہا تھا کہ امریکہ نے یہ اقدام اٹھا کر بہت غلط کام کیا ہے اور آنے والے دنوں میں انتہا پسندی اور دہشت گردی بڑھے گی۔ دیکھیں اب ایسا ہی ہو رہا ہے۔

انہوں نے اپنی کتاب میں انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں مداخلت اور فوج کشی کا سب سے بڑا منصوبہ ساز روسی خفیہ ادارے ( کے جی بی ) کا انچارج اور ہنگری میں سوویت یونین کا سابق سفیر اینڈرو پوف تھا جس نے 1979 ء میں افغانستان پر چڑھائی کا پلان بنایا تھا ۔ مصنف کتاب میں لکھتے ہیں روس کو ابھی ماڈرن اور طاقتور بننے کی اشد ضرورت ہے ابھی وہ بہت پیچھے ہے اگر روس جمہوریت کو اپنائے گا تو کامیاب رہے گا گذشتہ ایک صدی پہلے جرمنی، چلی ، ارجنٹائن ، جاپان اور دیگر ممالک میں جمہوریت نہیں تھی مگر آج ان ممالک میں جمہوریت ہے ۔ چنانچہ اب وقت کی ضرورت ہے کہ روس میں بھی جمہوریت آنی چاہیئے ۔ جمہوریت وہ جو عوامی ہو نہ کہ جمہوریت کے نام پر موروثیت قائم کی جائے ۔ روس کا سب سے بڑا مسلۂ اس وقت یہ ہے کہ عوام کو سیاسی سسٹم سے دور کر دیا گیا ہے ، لوگ جو احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں انکی آواز کو سننا چاہیئے اور انہیں سیاسی دائرے میں لانا چاہیئے ۔ روس میں فری اینڈ فیئر الیکشن عوام کی ڈیمانڈ ہے۔ روس کو ایک جرات مند لیڈر کی ضرورت ہے جو روس کو آگے لیکر جائے۔

مصنف میخائل گوربا چوف اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ میں دنیا کا واحد لیڈر ہوں جس کو خبروں میں کئی بار مار کر دفنا دیا گیا کچھ اخباری لوگ مجھ سے بغض رکھتے ہوئے ایسی من گھڑت خبریں شائع کرتے تھے کم از کم ایک درجن کے قریب میری موت کی خبریں شائع ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے وقتوں میں پانی کی کمی اور گلوبل وارمنگ بنی نوع انسان کے لیے بہت بڑا خطرہ ہونگے۔ مصنف آخر میں لکھتے ہیں کہ میں اور میری بیوی نے 46 سال زندگی کے اکھٹے گزارے جن میں 40 سال ہم دونوں اکھٹے واک کیا کرتے تھے۔ طوفان ہو یا سخت سردی ہم واک پر ضرور جاتے تھے جب سے وہ فوت ہوئی ہے میں نے واک کرنا چھوڑ دی ہے لیکن میرا یہ اب بھی معمول ہے کہ صبح چھ بجے میں بستر چھوڑ دیتا ہوں اور گھر پر ہی ہلکی پھلکی ورزش کرتا ہوں اُسکے بعد نہیں سوتا بلکہ کتابوں کے مطالعہ میں مگن ہو جاتا ہوں۔