ڈیڈی جان آئی لو یو

Dadi Jaan I Love You

Dadi Jaan I Love You

تحریر : شاہ بانو میر

ٹک ٹک ٹک سردیوں کی رات کا پچھلا پہر سیاست کی ہنگامہ خیزی عروج پر دن بھر آفس کے کام کے بعد رات کو گھر آکر کچھ دیر سونا پھر ٹی وی دیکھنا اور سخت سردی قائد اعظم جیسی مشابہت ویسے ہی نحیف مگر مضبوط قوت ارادی کے مالک
آہنی عزائم کے ساتھ پوری زندگی گزارنے والے
یہ میرے ڈیڈی جان ہیں
رزق حلال کما کر جب گھر لوٹتے تو
ان کیلئے بالکل مغلیہ طرز پر تخت پوش پر سفید چادر
گاؤ تکیہ سنبل کی روئی سے بھرے تکیے ان کے سستانے کیلئے لاؤنج تیار ہوتا
کچھ دیر آرام کے بعد کھانا کھاتے پھر ٹی وی
اور
پھر جب سب سو جاتے تو ان کے کمرے سے ٹائپ رائٹر کی ٹکا ٹک کی مترنم آواز گونجتی
مجھے بہت سحر خیز لگتے
ان کا بیدار ذہن حالات حاضرہ پر کچھ لکھنا چاہتا اور اپنی آواز لوگوں تک پہنچانا چاہتا
اخلاص اور حب الوطنی سے سرشار تجزیہ لکھتے
ٹائپ رائٹر پر حروف اچھلنے کودنے لگتے
وطن کیلئے وہ درد تحریر ہوتا جس کی زبان انگلش ہوتی مگر سوچ دیسی ہوتی
جنون پاکستان قائد اعظم اور ذوالفقار علی بھٹو
میں نے
ہر اُس دن تھکن سے چور باپ کو صرف پاکستانی بن کر جاگتے لکھتے دیکھا
جب جب اس ملک میں کوئی بے انصافی ہوئی
کچھ لوگ اللہ کے ہاں بہت ذمہ دار بنا دیے جاتے ہیں
6 بھائی 3 بہنیں اور والد کا کمزور ذریعہ معاش
سولہ سترہ سال کی عمر میں آرمی کو جوائن کیا
صرف اپنے والد کے ساتھ فیملی کو سپورٹ کرنے کیلئے
اس وقت جب لڑکیوں کو پڑھانا گوجرانوالہ میں
ایسی سوچ نہ ہونے کے برابر تھی
مگر
ہمارے گھر میں ایک بڑی بُک شیلف میں ان کی انگلش کتابوں کی کلیکشن تھی
لاہور سے اس وقت نجانے کون کون سے میگزین لاتے
نوائے وقت اردو سیارہ سسپنس جاسوسی سرگزشت سب رنگ ہوش سنبھالتے ہی گھر میں دیکھے
بچوں کی الگ سے لائبریری تھی
لاہور کراچی سے ہماری کتابیں آتیں
باہر جانے کی اجازت نہیں تھی گھر میں کتابوں اور گیمز کے ساتھ ہی بڑے ہوئے
کہتے تھے
“”جھوٹ گھٹیا لوگ بولتے ہیں
گھٹیا نہیں بننا یہی سیکھا ان سے””
کہ اس دنیا کے چہرے پے چہرے لگائے مفاد پرستوں کو نہیں پہچان سکی
دنیا کے مزاج سے مزاج نہیں ملتا تھا لہٰذا اب دنیا چھوڑ دی
بدلے میں
اللہ نے وہ رونقیں عطا فرمائیں کہ بیان سے باہر ہیں
استادوں کی محفلیں ان کی مجلسیں
ڈیڈی جان ذہنی طور پے بہت آزاد خیال تھے
تعلیم کو کامیابی کا عنوان سمجھتے تھے
اسی لئے
پچاس ساتھ کی دہائی میں اپنی 2 بہنوں کو اس وقت لاہور کالج میں داخل کیا
اور
تین تین جابز کر کے ان کے ہاسٹلز اور پڑہائی کے دیگر اخراجات پورے کئے
اس احسن قدم کا نتیجہ کہ
دونوں پھوپھو عمر بھر سکول میں جاب کرتی رہیں
پھوپھو فخر سے کہتیں
یہ ہمارے بھائی کا کمال ہے
خاندان کیلئے بہت حساس بھتیجے بھتیجوں کیلئے خاص محبت
چچا جان کا انتقال ہوا
تو
جب تک صحت رہی انکے پوتے کو ساتھ لے کر باہر جاتے تھے
کہتے تھے
مجھے اسے مل کر دیکھ کر سکون ملتا ہے
ڈیڈی جان اور دو چچا جان تین بھائیوں پر مشتمل یہ ہمارا خاندان
ہم سب بہن بھائی آج تک یونہی ایک ساتھ اسی مضبوط بندھن میں بندھے ہوئے ہیں
جو ہمارے بڑے باندھ گئے
ڈیڈی جان
ساری دنیا سے مکمل طور پے الگ تھے
ان کا لباس سادہ مگر ہمیشہ صاف اور مخصوص خوشبو دار ہوتا
ان کے تکیے میں کچھ الگ خوشبو آتی
جب وہ کام کے سلسلے میں کراچی پنڈی جاتے یا یورپ جاتے تو میں بہت اداس رہتی
سنبل کی روئی سے بھرے ہوئے تکیے میں میں سر دے کر گہری سانس لیتی تھی
مجھے اپنے ڈیڈی جان کی خوشبو آتی تھی
بھائی 5 تھے بہن کوئی نہیں تھی
مجھے بس ایک ہی بات یاد ہے کہ پڑہنا ہے بہت پڑہنا ہے
زندگی میں کسی مشکل وقت میں کسی بھائی کا محتاج نہیں ہونا
مگر
قسمت ایسی تھی کہ تھرڈ ائیر میں رشتہ قریبی عزیزوں کی طرف سےآیا
اور اصرار سارے خاندان سے انہوں نے ایسا کروایا
کہ
ہاں کرتے ہی بنی
بی اے مکمل ہوا اور شادی
ایم اے کرنے کے خواب اور کیمپس جو ہر بار مجھے دکھاتے تھے
سب خواب ہو گیا
کسی باپ کو میں نے گوجرانوالہ میں خاص طور سے
ایسا لاڈ کرتے نہیں دیکھا
اتنا اعتماد اتنی محبت کہ جس کی کوئی انتہاء نہیں
جلد شادی کی وجہ سے میں ان کی کوئئ خدمت نہیں کر سکی
سوچ تھی کچھ کرنا ہے ان کیلیۓ
پھر ایک حدیث نظروں سے گزری
کہ
تین چیزیں انسان کی باقی رہ جاتی ہیں
اچھی اولاد
دین کیلئے عمارت
اور علم جو خیر بانٹے

“”اچھی اولاد””
پر نگاہیں مرکوز ہوئیں کہ یہ کام میرے ڈیڈی جان کیلئے بزریعہ سکون اور راحت بن سکتا ہے
سوچ بدلی اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے دنیا کی کثافتوں سے شور شرابے سے دور کرنا شروع کیا
اطمینان کی سکینت کی اعتماد کی رشتوں کی محبت کی لازوال دولت میں اضافہ کیا
اس کا راستہ پکڑا تو پتہ چلا
ہم سب بھربھری ریت کے مجسمے ہیں اگر ہمارے وجود میں تخلیق کار نہیں
وہ مصور نہیں جو جیسی چاہتا ہے شکل بناتا ہے
اس کا راستہ پکڑا تو سوچ کا رخ مُڑا دل سے لوگوں کے اضافی بوجھ اترے
ڈیڈی جان کے ٹائپ رائٹر کی ٹکا ٹک مجھ پے سحر طاری کر دیتی تھی
نجانے کیسے کب اللہ پاک نے مجھے اس کمپیوٹر کا استعمال سکھایا
“”قرآن پاک مکمل اردو ترجمہ”” والد کیلئے صدقہ جاریہ بنانے کیلئے ٹائپ کیا
“”بخاری شریف”” پڑہی تو اسے اپنے استاذہ کیلئے صدقہ جاریہ بنایا
الحمد للہ
آج سوچتی ہوں تو دل میں بہت اطمینان ہے سکون ہے
دنیا کے راستوں پر مفاد پرستوں کے درمیان بھٹک رہی تھی
کیسے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے رحمت کی نظر کی اور میری دنیا بدل گئی
عام حروف سے ہٹایا درجہ بڑہایا ترقی ہو گئی
اور
قرآن کے حروف لکھوائے
سبحان اللہ
استاذہ کرام کی محنت رنگ لائی
تو “”حدیث مبارک”” کی کتاب بن گئی
اب “”عربی گرائمر”” پر کام جاری ہے
اپنی کلاس بھی مکمل قرآنی ترجمہ کے بعد اب “” تدبر القرآن “” جاری ہے
یہ سب میرے ڈیڈی جان کی توجہ کا نتیجہ ہے
ان کی تربیت ان کی محنت اور شوق کچھ بنانے کا
ایک بار کالج الیکشن تھے
تو ہمارے گوجرانوالہ کے بہت معروف شخص کی بیٹی کھڑی تھیں
مجھے وہ کبھی پسند نہیں تھی ڈیڈی جان کے دوست بھی تھے
رات 12 بجے گھر آئے اصرار کرتے رہے کہ ہماری بیٹی ہے
اور مخالف پارٹی کے ساتھ ہے
بہت سمجھایا ڈیڈی جان نے مگر میرا ایک ہی اصرار تھا
آپ کے فرینڈ ہیں مگر مجھے ان کی بیٹی نہیں پسند
آخر کار ڈیڈی جان نے مجھے کہا
او کے
مت سپورٹ کریں اسے
مگر
ایک نصیحت میری ہمیشہ یاد رکھیں
زندگی میں کبھی سیاست نہیں کرنی
آپ میں منافقت اور نرمی نہیں ہے
یہ دونوں لازمی عنصر ہیں سیاست کے
کامیاب سیاستدان بننے کیلئے جو نہیں سیکھتا وہ پچھتاتا ہے
وہ میری کالج یونین کی مسلسل مصروفیات سے ڈیبیٹس سے دیگر ایکٹیویٹیز سے شائد بھانپ گئے تھے
کہ
اس کی پروا ز کس طرف ہے
اور
مجھے سیاست میں دھکیلا گیا بہت اصرار کر کے لایا گیا
مگر
میرے ڈیڈی جان کی بات حرف بحرف درست ثابت ہوئی
کہ
مجھ میں واقعی وہ کوالٹیز نہیں ہیں جو سیاست کی ضرورت ہیں
مگر
ڈیڈی جان سیاست نہیں کر سکی مگر
دین میں وہ سب چاہیے جو
الحمد للہ
آپ کی اچھی تربیت نے فطرت میں محفوظ کیا
آج میں بہت خوش ہوں کہ
آپ کی محنت کا ثمر رب العالمین اس صورت دے رہا ہے
کہ 3 سال سے مسلسل گھر میں قرآن مجید کی ترجمہ تفسیر کی کلاس جاری ہے
اور اب
سبحان اللہ
اس کلاس میں اللہ کی رحمت ایسے ہوئی کہ اپنا ترجمہ مکمل کرنے کے بعد
اب کلاس میں ترجمہ لفظی ترجمہ سے شروع کروایا ہے
جو شائد پیرس میں واحد اسی کلاس میں ہو رہا ہے
اساتذہ کی استاذہ محترمہ ڈاکٹر فرحت ھاشمی کی تفسیر ترجمہ کے ساتھ آغاز کیا ہے
دوسری جانب استاذہ عفت مقبول صاحبہ کی تفسیر سیشن تیسرے پارے پر ہے
الحمد للہ
اس رمضان کو اپنی زندگی کا خوبصورت ترین بہترین ہر لحاظ سے کہ سکتی ہوں
جس کا سارا کا سارا کریڈٹ میری پیاری استاذہ کو جاتا ہے
جو قرآن ہی نہیں زندگی بھی سمجھا رہی ہیں
کہ
وہ لوازمات جو کبھی سوچ نہیں سکتی تھی
اللہ پاک نے رزق سے لے کر عبادت تک ہر بار سے زیادہ اعلیٰ انداز میں کروائے
ربّنا تقّبل مِنّا آمین
یہ سب ڈیڈی جان آپ کی وجہ سے ممکن ہوا
کچھ آپ کے لئے کرنا چاہتی تھی
اللہ پاک نے ٹائپ رائٹر سے کمپیوٹر تک پہنچایا اور
یوں ٹک ٹک ٹک اب میرے گھر میں بھی گونجتی ہے
اور
لکھا جانے والا قرآن ہو یا حدیث حرف حرف میں حصہ انشاءاللہ
آپ کا ہے
آئی لو یو ڈیڈی جان
آسمان تیری لحد پے شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
آمین

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر