سیاست خدمت ہے لوٹ مار نہیں

Politics

Politics

تحریر : رقیہ غزل
قیاس تھا کہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے ملک میںجاری سیاسی بحران ختم ہو جائے گا کیونکہ یہ ایک خوش آئند عمل تھا کہ 70 سالہ پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم کو کرپشن کے الزام میں احتساب عدالت کا سامنا کرنا پڑا تھا اس سے یقین ہو چلا تھا کہ ملک میں احتسابی عمل کا آغاز ہو چکا ہے اور کرپٹ عناصر کاقلع قمع ہو جائے گا اور ملک حقیقتا ًترقی کی راہ پر گامز ن ہو جائے گا ۔لیکن اس فیصلے کے بعد حالیہ ملکی منظر نامے پر نظرڈالیں تو اندھیر نگری چوپٹ راجا کے مصداق ملک و قوم اللہ کے آسرے پر ہے کہ ہر کوئی ایک دوسرے کو بے نقاب اور بر باد کرنے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کررہا ہے ااور یوں لگ رہا ہے کہ جیسے سبھی گرے ہوئے ہیں مگر کوئی بھی یونہی نہیں گر رہا ،ہر ایک کی گراوٹ کے پیچھے ایک کہانی پوشیدہ ہے۔ ویسے بھی سیاستدان یونہی نہیں گرتا ۔وہ واقعہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ ایک سیاستدان اپنے مشیر کے ساتھ کہیں جا رہا تھا کہ راستے میں ٹھوکر لگی اور گر گیا ۔کچھ راستہ بھی نا ہموار تھا اور کچھ بزرگی کا بھی عالم تھا کہ بہت مشکل سے اٹھا ۔ایک راہگیر نے اس کے مشیر سے کہا :”تمہیں شرم نہیں آتی کہ تمہارا مالک گرا ہوا ہے ،تم اسے اٹھانہیں رہے ” مشیر اطمینان سے بولا : ” ارے بھائی ! یہ سیاستدان ہے ،کچھ دیکھ کر ہی گرا ہوگا ” ۔
آج ایسی گراوٹ کی لاتعداد مثالیں رقم ہو چکی ہیں اور ہو رہی ہیں ۔

مسلسل ثابت ہو رہا ہے کہ سیاست مفادات کے حصول میںلگی لپٹی رکھے بغیر لپیٹنے اور ملکی اثاثوں کو اجاڑنے کا دوسرا نام ہے ۔بد قسمتی تو یہ ہے کہ اس بندر بانٹ میں قانونی اور اسلامی قوانین کو بھی نظر انداز کر دیا جا تا ہے ۔سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور لفظی بھرمار نے دھما چوکڑی مچا رکھی ہے ۔ عوام کیسے ہیں اور ملکی حالات کس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس کی کسی کو بھی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔پاناما سے شروع ہوئی کرپشن کہانی اقاما تک جا پہنچی ہے ۔اک طرف میاں صاحب کے اقتدار کا سورج غروب ہوچکا ہے ۔ان کی اور ان کے خاندان کی کرپشن کے تمام مبینہ ثبوت مل چکے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ اربوں کے اثاثے عربوں کی عطا نہیں تھے بلکہ پاکستانی عوام کے خون پسینے کی کمائی تھے ۔جنھیں خورد برد کیا گیا ہے ۔مگر نون لیگی وزرا ،رفقا اور خوشامدیوں کے مطابق پاناما دھاندلی نما سازش ہے اس پر جناب انور مسعود نے بھی کمال پھبتی کسی ہے

نہ چھیڑو ذکرپانامہ مت چھیڑو
مری تشویش بڑھتی جا رہی ہے
نہیں ہے گر کوئی سنگین گھپلا
تو کیوں تفتیش بڑھتی جا رہی ہے

گھپلے تو سبھی کے آہستہ آہستہ یوں سامنے آرہے ہیں کہ گھپلے بھی گھبرارہے ہیں ۔دوسری طرف میاں شہباز شریف کو ماڈل ٹائون کیس پکار رہا ہے کہ طاہر القادری آچکا ہے مگرمسلم لیگ ن کی وزراء اور رفقاء کی ہٹ دھرمی اور عنانیت برقرار ہے کہ خواجہ سعد رفیق نے کہاکہ میاں صاحب کے کندھے پر جس کا ہاتھ ہوگا وہی حکومت کرے گا اور اب بھی وہی کر رہا ہے جس کے کندھے پر ہاتھ ہے ۔مقام حیرت ہے کہ کسی وزیر یا مشیر کو اس سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے کہ وہ اس پر سوچے کہ یہ نا اہلی کیوں ہوئی ہے اور اگر ہوئی ہے تو اس کا سبب کیا ہے ۔سب بندر بانٹ میں اس قدر مست ہیں کہ اپنی کوتاہیوں پر سوچنے کا وقت ہی نہیں ہے مگر کم از کم میاں صاحبان کو تو سوچنا چاہیے کہ

آپ کہتے ہیں پرائیوں نے کیا ہم کو تباہ
بندہ پرور کہیں اپنوں ہی کا یہ کام نہ ہو

افسوسناک امر تو یہ ہے کہ خوش آمدی ٹولا اور رفقا ء سر عام ریاستی اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر اور اپنی تقاریر میں بول رہے ہیں۔ جبکہ تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو میاں صاحب کو ریاستی اداروں سے کھلے عام چپقلش اور جابرانہ رویے کا سر عام پرچار تیسری مرتبہ بھی لے ڈوبا ہے ۔مگر اسی روش کو برقرار رکھتے ہوئے، عدالتی فیصلے کو نظر انداز کر کے میاں صاحب کی نا اہلی کے بعد جو کابینہ تشکیل دی گئی ہے، اس میں بھی ان تمام لوگوں کو نوازا گیا ہے، جو کہ اس سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں پیش پیش تھے اور جن کے تند و تیز لہجے اور بیانات کے گولے مخالفین کو ہی نہیں سیاسی چہرے بھی مسخ کرتے رہے ہیں ۔اس سے بڑھ کر ہٹ دھرمی کیا ہوگی کہ اقامہ رکھنے والے نااہل اسحاق ڈار جیسے افرادبھی کابینہ میں شامل کیا گیا ہے ۔ایسے ہی فیصلوں نے مسلم لیگ ن کو پاکستانی اور انٹرنیشنل میڈیا میں تماشا بنا رکھا ہے ۔سوال یہ ہے کہ کوئی ایسا فیصلہ آج تک اس جمہوری حکومت نے کیاہے جس کے نتائج قوم کے وسیع تر مفاد میں ہوں ؟ شخصی آمریت کی اس سے بڑھ کر بد ترین مثال کیا ہوگی کہ آج بھی میرٹ چھوڑ کر نوازنے کا سلسلہ جاری ہے۔ من پسند تقرریاں اور عہدے لٹائے جارہے ہیں ۔اور جن پر لٹائے جا رہے ہیں وہ مخالفین سے نپٹنے کے لیے ہر اخلاقی حد پار کرچکے ہیں ۔ تہمت ، بہتان تراشی ، الزام تراشی اور کردار کشی عروج پر ہے ۔افلاطون نے ارسطو سے شکایت کی کہ میں نے تمہاری برائی ایک معتبر شخص سے سنی ہے تو جواب ملا کہ وہ شخص معتبر کیسے ہوسکتا ہے جو غیبت کرتا ہے ۔واللہ عالم! اس سیاسی اوربد اخلاقی پر مبنی رویوں کا انجام کیاہوگا۔۔؟ مگر یہ طے ہے کہ تاریخ کے اوراق میں پاکستانی عدلیہ کا فیصلہ سنہرے حروف سے اور پاکستانی سیاست کے فیصلے سیاہ سیاہی سے رقم ہونگے ۔

آج قانون کی بالادستی کی جہاں خوشی ہے وہاں یہ غم بھی ہے کہ عوام نے جس پر بھی بھروسہ کیا اسی جمہوری حکومت نے عوام کو وعدوں اور دعووں کی چٹنی دیکر سسکتا اور مرتا چھوڑ کر اپنے مسقتبل کو محفوظ بنانے میں مگن رہے ۔اگر میاں صاحب دوسرے ممالک کے وزرائے اعظم کی طرح پاناما اسکینڈل کے منظر عام پر آتے ہی مستعفی ہو جاتے تو آج دنیا کے سامنے جگ ہنسائی نہ ہوتی بقول راقم

اس قدر پیار کسی سے بھی کوئی کر نہ سکا
جس قدر آپ نے کرسی سے کیا ہے صاحب

سیاست دانوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ جب تک وہ سیاست چھوڑ کر خدمت کو اپنا نصب العین نہیں بنائیں گے تب تک نہ انھیں عزت ملے گی اور نہ ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا ۔ مگر عوام کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ ایک بریانی کی پلیٹ پر اپنے ضمیر کا سودا مت کریں سودے سے یاد آیا یہاں تو چند کروڑ کے لیے عزت کا سودا ہوجاتا ہے ۔جیسے آرٹیکل 62,63 کے تحت یہ فیصلہ آیا کہ میاں صاحب اب عومی نمائندگی کے اہل نہیں رہے ویسے اس فیصلے سے پہلے محترمہ انوشہ رحمان کا بیان سامنے آیا تھا کہ آرٹیکل 62,63 میں ترمیم پر غور شروع کر دیا ہے یہ تو ہماری جمہوری حکومتوں کا وطیرہ رہا ہے جو آرٹیکل ان سے ٹکرائے اسے ختم کر دو مگر ترمیم سے پہلے ہی اس کا اطلاق سابق وزیراعظم میاں نواز شریف پر ہو گیا تو اس فیصلے کے دو دن بعد ہی خان صاحب پر ایک خاتون MNA نے بد کرداری کا الزام لگاتے ہوئے یہ کہا کہ عمران خان کو بھی اسی آرٹیکل کے تحت نا اہل کیا جائے کیونکہ وہ اخلاقی کرپشن میں ملوث ہے اس لیے عوامی نمائندگی کا اہل نہیں ہے لیکن اس خاتون کی مبینہ تقریر جو کہ ٹی وی پر نشر کی گئی ہے اس کے بارے کوئی سنجیدہ تاثر قائم کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ اسے اپنی ذات کے متعلقہ ماضی سے کوئی مئواخذہ کرنا مقصود نہ تھا بلکہ اس کی ساری کاوش عمران خان سے انتقام لینا تھا ۔

تاہم یہ بہتان بہت سے سوال چھوڑ گیا ہے ۔جس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا مگر یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ میاں صاحب افہام و تفہیم والے انسان نہیں ہیں وہ بدلہ نہیں چھوڑتے اور شاید یہ اسی بدلے کی کڑی ہے جو بھی ہومگر یہ طے ہے کہ عوام کو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور وہ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر خالی ہاتھ رہ گئے ہیں اور اسی قسمت کا لکھا سمجھ کر پھر سارا دن سوشل میڈیا پھر دل کی بھڑاس نکالتے رہتے ہیں جبکہ زندگی تصویر بھی ہے اور حقیقت بھی فرق ہے تو صرف رنگوں کا من چاہے رنگوں سے بنے تو تصویر اور اگر انجانے رنگوں سے بنے تو تقدیر ۔من چاہے رنگ دینے کیلیے کوشش کرنا پڑتی ہے اور سچے دل سے سجدہ ریز ہونا پڑتا ہے اور پھر رنگ بھی بدل جاتے ہیں مگر اگر مقدر سمجھ کر بیٹھ جائیں تو اللہ بھی حالت نہیں بدلتا اور برا گمان سچ ہو جاتا ہے ۔کہ تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ایسے ہی ماضی میں اپنے ایک کالم میں میں نے حکمرانوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ

کرسی سے ایک دن توا ترنا ہی تھا انھیں
جو دل پہ بیٹھتے تو اترتے نہ کبھی

آج یہ شعر بلا امتیاز تمام سیاستدانوں کے لیے ہے کہ تاریخ ساز بننے کے لیے خود کو مٹانا پڑتا ہے پھر عوام ٹینکوں کے آگے لیٹتے ہیں بدقسمتی سے مسلم لیگ نون کی 2013 سے ابتک مجموعی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے ۔حادثات ،سانحات اور انسانی زندگیوں سے جڑے ہوئے روح فرسا واقعات کا پورا دفترموجود ہے اور اگر تعمیری کاموں کاذکر کریں تو ایک ہی منصوبے کی دو دو بار فیتہ کٹائی اور تشہیری منصوبوں نے سارا پول کھول کر رکھ دیا ہے ۔ ڈاکٹروں کی غفلت سے سسکتی اور دم توڑتی زندگیاں بھی مکافات عمل بن چکی ہیں ۔المیہ تو یہ ہے کہ بنیادی چیزصاف ”پانی” وہ بھی عوامی حکومت فراہم نہیں کر سکی اور اب خرید کر پانی پیا جا رہا ہے اور لوڈ شیڈنگ چار سال گزرنے کے بعد بھی ختم نہیں ہو سکی اس پر طرہ کہ ہم کالا باغ ڈیم کا تنا زعہ آج تک حل نہیں کر سکے اورورلڈ بینک نے بھارت کو ہمارے دریائے جہلم اور دریائے چناب پر ڈیم بنانے کی اجازت دے دی ہے ۔خدا کا شکر ہے کہ ہماری نڈر بیباک ہر طرح سے جدید اسلحہ سے لیس پاک آرمی بھارت کو موت نظر آتی ہے وگرنہ تو وہ ہمارے سیاستدان کی اپنی لگائی ہوئی آگ سے بہت پہلے پاک و ہند کے درمیان والے باڈر کو اپنے پر لگائی ہوئی لائین کی طرح مٹا دیتا ۔ لہذا آج ملک و قوم کی بقا و سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ سیاستدان سیاست چھوڑ کر خدمت کو اپنا شعار بنائیں کیونکہ سیاست خدمت ہے لوٹ مار نہیں ہے۔

Roqiya Ghazal

Roqiya Ghazal

تحریر : رقیہ غزل