بیچاری سنبل۔۔۔!

Lahore Sunbal

Lahore Sunbal

قارئین کرام! نہایت افسوس اور دکھ و کرب کی بات ہے گزشتہ روز لاہور میں رونما ہونے والے واقعہ پر دل خون کے آنسو بہا رہا ہے جب سے یہ خبر سننے کو ملی ہے کہ ”لاہور نامعلوم درندہ صفت ملزمان پانچ سالہ سنبل کو درندگی کا نشانہ بنا کر گنگا رام ہسپتال کے سامنے پھینک گئے”تب سے سکون اور چین سے ایک بھی لمحہ نہیں گزار پایا، ابھی تک مجھے سنبل میں اپنی بہن، بیٹی کی تصویر نظر آ رہی ہے اور درد دل رکھنے والے ماں باپ پر سکتہ طاری ہے ایک سنبل کا درندگی کا نشانہ بننا پورے وطن عزیز کی بیٹیوں کی عزت و حرمت پر یہ حملہ ہے ہر دل اس وقت سے آشکبار ہے جب سے یہ واقعہ رونما ہوا ہے، ہر کوئی چاہے وہ کتنا ہی سخت دل ہو پانچ سالہ سنبل کا نام سنتے ہی اس کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں مگر ان درندوں کو ذرا برابر بھی خوف نہیں آیا، وہ تو صرف اپنے حوس کے قیدی بن کر انسانیت کے تقدس کو پا مال کرنے کے لئے ہی دنیا میں انسانیت کے نام پر ایک کلنک ہیں۔

جن کا انجام اگر وہ بھی جان لیں کہ کیا ہو گا تو وہ اپنے انجام کے خوف سے ہی خود کشی کو ترجیح دیں گے ارے بھئی اس پانچ سالہ سنبل کا کیا قصور تھا، وہ پھول تو ابھی کھِلا بھی نہیں تھا جسے کھلنے سے پہلے ہی مرجھانے پر مجبور کر دیا گیا، اگر اب بھی ضمیر نہ للکا رے تو پھر سمجھیں کہ ضمیر مردہ ہو چکا ہے لہذا کوئی ضرورت نہیں کہ سنبل کو انصاف فراہم کیا جائے، کیو نکہ اس معصوم کے لئے دو آنسو بہا لینا ہی کافی نہیں ہے اگر اسے صرف یہاں تک ہی محدود رکھنا ہے تو پھر وہ پیاری سی معصوم بچی اپنی حسرت بھری نگاہوں سے یہی کہہ کر زندگی کے دن پو رے کر لے گی کہ:
میری داستان حسرت وہ سنا سنا کر روئے !
میرے آزما نے والے مجھے آزما کر روئے!
قارئین محرم ! یہ داستان صرف ایک سنبل کی نہیں بلکہ آج صنف نازک حوا کی بیٹی
اسی طرح ذلیل خوا ر ہو رہی ہے اس سے پہلے شیخوپورہ میں ایک ظالم صفت جس کا انسا نیت سے دور دور تک کو ئی نا طہ نہیں ایک نومولود بچی کو ہسپتال کے سامنے پھنک کر فرار ہو گیا۔

Pakistan

Pakistan

اگر بات کی جائے پاکستان بھر کی تو حالات و واقعات سب کے سامنے عیاں ہیں گزشتہ ماہ کے دوران اس طرح کے جرائم کی شرح بتدریج بڑھتی جا رہی ہے جو ہمارے لئے ایک لمحہ فکر یہ ہے کہ قدرتی وبائیں آخر کیوں ہماری جان کے درپے ہیں، کیوں اتنی تک دو کے باوجود ان سے چھٹکارا حاصل نہیں ہوپا رہا ہے کیا وجہ ہے کہ ملک کبھی ڈینگی اور کبھی خسرے جیسی مہلک بیماریوں کا شکار نظر آتا ہے تو کبھی سیلاب سے پانی پانی تباہ حال۔۔۔ اگر ایک دوسرے پہلو کی طرف توجہ مبذول کی جائے تو یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہم اخلاقی لحاظ سے کس قدر گِر چکے ہیں یہ ہمارا ضمیر بھی اس وقت گواہی دے رہا ہے اخلاقی اور مذہبی قدروں سے دوری ہمیں زوال کی جانب لے جا رہی ہے۔۔۔! قارئین محترم! اس سے پہلے اجتماعی زیادتی اور اس طرح کے کیس ہمسایہ ملک بھارت میں سنا کرتے تھے اور کچھ دن قبل ایک غیر ملکی طالبہ بھارت سے ذہنی مریضہ بن کر نکلی اور جاتے جاتے یہ انکشاف بھی کر کے گئی کہ بھارت خواتین بالخصوص غیر ملکی خواتین کے غیر محفوظ ملک ہے۔

گزشتہ روز 21 سالہ بھارتی طالبہ کو درندگی کا نشانہ بنانے والے چاروں ملزمان کو سزائے موت کی سزا سنائی گئی، کیونکہ اس طالبہ کے لئے پورا بھارت یکجا ہو گیا تھا اور غم و غصہ شدت اختیار کر چکا تھا اس لئے بھارتی عدالت نے بھی غیرت کا ثبوت دیا اور سخت سزا کا انتخاب کیا تاکہ آئندہ کوئی بھی انسان درندہ بننے سے پہلے سو مرتبہ سوچ لے ۔۔۔! یہ تو بات تھی بھارت کی لیکن اب گزشتہ چند روز سے پاکستان میں بہت سے ایسے روح شکن واقعات رونما ہو رہے ہیں جن سے یہ توقع رکھنا بے جا نہیں ہو گا کہ عنقریب پاکستان بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو نے والا ہے جہاں ماں اور بہن کا تقدس بھلا کر اپنی حوس کے تا بع ہو کر درندہ صفت انسان پاکستان کو بھی اقوام عالم میں بد نام کرنے پر تلے ہو ئے ہیں۔

اس طرح کے واقعات اخلاقی پستی کے باعث ہوتے ہیں جس کے لئے ہمیں اخلاقی ظرف کو بلند کرنے کی ضرورت ہے اور اگر اس طرح کے واقعات رونما ہوں تو سخت سے سخت سزا تجویز کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ دوسرے اس سزا سے عبرت حاصل کریں۔۔۔! حکومت وقت اور غیرت مند پاکستانیوں کے لئے اب وقت ہے کہ جس طرح شاہ زیب قتل کیس اور ملالہ یوسف زئی کے لئے جرات و ہمت کا مظاہرہ کیا گیا بالکل اسی طرح پیاری سنبل کو نفسیاتی مریضہ بنانے والے ملزمان کے لئے پاکستان کی پاک سر زمین اس قدر تنگ کر دیں کہ ان کا دم گھٹ جائے۔۔ اور ان کو ایسی عبرت ناک سزا سنائی جائے کہ ظالم سے بھی ظالم کی روح کانپ جائے تاکہ آئندہ کو ئی ایسے جرم کا مرتکب نہ ہو سکے۔

Ali Raza Saf

Ali Raza Saf

تحریر : علی رضا شاف
Alishaaf786@gmail.com