غربت نے میری صبر کا چہرہ پہن لیا

یہ آسمانِ عقل بھلا کیا پہن لیا
تاروں کی جستجو میں اندھیرا پہن لیا

ظلمت کو ڈھیر کرکے اجالا پہن لیا
دھاگا شمع کا جیسے شرارہ پہن لیا

بھوکے شکم نے پھر سے لبادہ پہن لیا
ننگے سروں نے جیسے عمامہ پہن لیا

سارا پہن لیا کبھی آدھا پہن لیا
فیشن کے نام کپڑے کا ٹکڑا پہن لیا

ٹوپی پہن لی یا کبھی چشمہ پہن لیا
دنیا نے تجھ کو دیکھ کے کیا کیا پہن لیا

تہذیب بھی ہماری رہی ارتقا پسند
چادر کو چھوڑ شوق سے برقع پہن لیا

کتنے ہی کپڑے آج کے تانیث ہوگئے
دلہن کی اوڑھنی یہاں دولہا پہن لیا

ہر آنکھ سے ٹپکتا اداسی کا ہے لہو
جیسے ہر ایک چہرہ خلاصہ پہن لیا

کپڑوں پہ اپنے رونے لگاہے امیر بھی
غربت نے آج کیسا لبادہ پہن لیا

زندانِ صبح و شام کے بس میں یہی تو تھا
دن کو اجالا، رات اندھیرا پہن لیا

چلنا تو دور، رکنا بھی لگتا محال ہے
کیا جانے کون ناپ کا جوتا پہن لیا

یہ کیا مذاق تونے کیا ہے لباس سے
مارے حیا کے شرم کا چشمہ پہن لیا

مغرب کی دہشتوں سے لرزتا ہے سوریا
اک ایک شہر جیسے کہ ملبہ پہن لیا

تاروں کے بیچ چاندیوں لگنے لگا ہمیں
جیسے عروس شام نے مالا پہن لیا

تھی بے نقاب اس کی امیری تو کیا ہوا
غربت نے میری صبر کا چہرہ پہن لیا

عریانیت کی بھیڑ میں تنہا کھڑا نثار
مارے حجاب، شرم کا چشمہ پہن لیا

Ahmed Nisar

Ahmed Nisar

تحریر : احمد نثار
E-mail : ahmadnisarsayeedi@yahoo.co.in