قوت بازو پر بھروسہ

Pakistan Bangladesh War

Pakistan Bangladesh War

تحریر : طارق حسین بٹ
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت بنگالی تو گمراہ ہو ہی چکے تھے لیکن اپنوں نے بھی کوئی کم کردار ادا نہیں کیا تھا۔پاکستان کے ہراول دستے کے ساتھ مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے جس طرح کا شرمناک سلوک روا رکھا تھا اس نے دھیرے دھرے بنگالیوں کے دلوں میں شکوک و شبہات کو پروان چڑھانا شروع کر دیاتھا۔ملکی وسائل میں ان کا حصہ اور اسٹیبلشمنٹ میں ان کی شرکت کو ہمیشہ محرومیوں کی نذر کیا گیا۔ایسا فوجی حکمرانوں نے بھی کیا اور جمہوری حکمرانوں نے بھی کیا۔گویا کہ بنگالیوں کو نظر انداز کرنے میں دونوں برابر کے شریک تھے ۔میری ذاتی رائے ہے کہ سیاستدان بنیادی طور پر اقتدار پر ست ہوتے ہیں اور کبھی کبھی اقتدار کی خاطر اپنی حدود سے بھی تجاوز کر جاتے ہیں ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اگر جائزہ لیں تو ایسے کئی مناظر نگاہوں میں گھوم جائیں گے جہاں پر سیاست دانوں نے حب الوطنی کا ثبوت نہیں دیا۔مشرقی پاکستان کے سیاستدانوں نے جس طرح سے پاکستان کو دو لخت کرنے کا مکروہ فعل کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے لیکن مغربی پاکستان کے سیاستدان بھی اس سے بری الزمہ نہیں ہیں۔اقتدار کی خاطر ان کے کردار پر بھی کئی سوالیہ نشان ہیں۔

اگر مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان تھا تو مغربی پاکستان میں خان عبدالولی خان،جی ایم سید ،عطا للہ مینگل اور کئی چھوٹے بڑے سردار تھے جو اپنی امیدیں بھارت سے وابستہ کر چکے تھے اور پاکستان سے علیحدگی چاہتے تھے ۔پختونستان کاایشو کئی دہائیوں سے پاکستان کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے تھا۔باچہ خان کی ساری زندگی پختونستان کے قیام کی جدو جہد سے بھری پڑی ہے یہ الگ بات کہ اس کی اپنی قوم نے اس کا ساتھ نہیں دیا لیکن کوشش تو دلِ ناتواں نے خوب کی تھی۔ایک اور کردار تھا جی ایم سید کا جس نے کھلے عام پاکستان کو توڑنے کی باتیں کیں لیکن جنرل ضیا الحق اس کی چوکھٹ پر حاضری دیتا تھا تا کہ پی پی پی کے خلاف سندھ کی کوئی توانا آواز اس کے ساتھ کھڑی ہو جاتی۔جی ایم سید سندھو دیش کی حسرت لئے اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ایم کیو ایم کا قائد الطاف حسین ان سب میں زیادہ توانا اور طاقتور تھا اور اس کے را کے ساتھ خفیہ مراسم تھے جن کا اظہار وہ اکثر و بیشتر کرتا رہتا تھا ۔وہ چونکہ ایک ایسے شہر کا مقبول لیڈر تھا جسے پاکستان کی شہ رگ بھی کہا جاتا ہے۔ لہذا اسے کوئی بھی جماعت چیلنج نہیں کرسکتی تھی۔

آج بھارت ایک دفعہ پھر اسی تاریخ کو دہرانا چا ہتا ہے اور پاکستان کے حصے بخرے کرنا چاہتا ہے لیکن وہ بھول جاتا ہے کہ اب فوج کو اقتدار میں دلچسپی نہیں ہے کیونکہ فوج کی کمان مضبوط سپہ سالاروں کے ہاتھوں میں ہے اور ملک میں کوئی شیخ مجیب الرحمان نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ شیخ مجیب الرحمان کا چھوٹا بھائی الطاف حسین را کا ایجنٹ بن کر لندن میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہا ہے اور پاکستان کے ایک دفعہ پھر حصے بخرے کرنا چاہتاہے لیکن اس کے حالیہ نعرے پاکستان مردہ باد نے اس کا اصلی چہرہ پاکستان پر واضح کر دیا ہے۔اب کوئی اس شخص پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔وہ بھارتی فوج کو آوازیں دے رہا ہے لیکن کوئی اس کی آواز پر لبیک کہنے والا نہیں ہے۔وہ کراچی کو پاکستان سے الگ کرنے کاجو منصوبہ بنا رہا تھا وہ خاک میں مل چکا ہے۔وہ کراچی کی گلیوں میں کشت و خون کا جو بازار گرم کرنا چاہتا تھا اسے اپریشن کلین اپ نے ناکام بنا دیا ہے۔الطاف حسین آج بالکل تنہا ہے اور اس کی ملک دشمن سوچ کا ساتھ دینے والا کوئی سیاسی راہنما اس کے ساتھ نہیں ہے۔،۔

Raheel Sharif

Raheel Sharif

جنرل راحیل شریف کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ اس نے کراچی کو اس یرغمالی سیاست سے نجات دلائی۔بھتہ خوری،اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ سے جس طرح کراچی کو آزاد کروایا الفاظ اس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔ایک ناممکن کام تھا جس کو جنرل راحیل شریف نے ممکن بنا کر دکھا دیا۔فوجی اپریشن پر حکومتِ سندھ نے بہت روڑے اٹکائے لیکن جنرل راحیل شریف نے کسی کی ایک نہ سنی اور اپنے حد ف کی جانب بڑھتے چلے گئے ۔اب کراچی ایک پر امن شہر ہے اور کراچی کے باسی امن و سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ضربِ عضب کے بارے میں جتنا بھی لکھا جائے وہ کم ہے۔ایک دھشت زدہ قوم کو دھشت گردی کے خوف سے نکالنا اور دھشت گردوں کا صفایا کرنا ایک ایسا فعل ہے جس کی تعریف کئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔دھشت گردوں نے جس طرح اودھم مچایا ہوا تھا اس سے ہر پاکستانی خوف کے مارے روز مرتا اور روز جیتا تھا۔دھشت گردوں نے ریاست کے اندر اپنی ریاست قائم کر رکھی تھی۔وہ اتنے بے خوف ہو چکے تھے کہ جسے جہاں سے چاہتے تھے اٹھا لیتے تھے اور جہاں چاہتے تھے دھماکہ کر دیتے تھے اور کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں تھا۔

ان کے حوصلے اتنے بلند ہو چکے تھے کہ وہ کھلے اہم عمارتوں اور دفتروں میں گھس کر انھیں اڑا دیتے تھے۔پشاور پبلک سکول پر ان کے حملہ ان کی موت کا پروانہ ثابت ہوا ۔یہی وہ دن تھا جب حقیقی راحیل شرف منظرِ عام پر آیا اور دھشت گردی کے آسیب کو ملک سے نکال باہر کرنے کا بیڑہ اٹھا یا۔پوری قوم جنرل راحیل شریف کی ممنو ن و مشکور ہے کہ اس نے قوم کو دھشت گردی کے آسیب سے نجات دلوائی۔دھشت گرد اب افغانستان میں پناہ لئے ہوئے ہیں جہاں بھارت انھیں ٹریننگ دے کر پاکستان بھیجتا رہتا ہے لیکن جب کسی گروہ کے اڈے اور پناہ گاہیں تباہ ہو جائیں تو پھر اس گروہ کے لئے زندہ رہنا نا ممکن ہو جاتا ہے اور یہی سب کچھ تحریکِ طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے ساتھ ہوا ہے۔

اس کی ساری قیادت افغانستان میں رو پوش ہے اور بھارتی اشاروں پر ناچ رہی ہے لیکن کتنے دن۔انھیں ایک دن تاریخ کی دھول میں گم ہو جانا ہے کیونکہ منفی سوچ کا ایسا ہی انجام ہوا کرتا ہے۔ جنرل راحیل شریف اپنے اعلی کردار اور اقدامات کی وجہ سے پاکستانی قوم کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے کیونکہ انھوں نے پاکستان کو دھشت گردوں کے چنگل سے نجات دلوائی ہے۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائر منٹ کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سکھ کا سانس لے گی کیونکہ میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ان کے تعلقات مثالی نہیں تھے۔

PTI

PTI

یہ سچ ہے کہ کچھ حلقے فوج پر تحریکِ انصاف کا ساتھ دینے کے الزامات لگاتے رہتے تھے۔جنرل شجاع پاشا پر تو کھلے عام الزامات لگتے تھے کہ وہ تحریکِ انصاف کے حمائتی ہیں ۔پی پی پی نے بھی کراچی اپریشن پر تحفظات کا اظہار کیا تھا جب آصف علی زرداری نے فوج کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا اعلان کیا تھا۔در اصل پی پی پی کے کچھ ممبران کی گرفتاری اور کرپشن میں ان کے ملوث ہونے سے پی پی پی کی اعلی قیادت خوف زدہ ہو گئی تھی اور وہ فوجی اپریشن کو جاری رکھنے کے حق میں نہیں تھی کیونکہ اس سے ان کے کئی خفیہ کارنامے منظرِ عام پر آنے کا اندیشہ تھا۔یہی وہ وقت تھا جب آصف علی زرداری خود بھی ملک سے باہر چلے گئے تا کہ کسی قسم کی گرفتاری سے محفوظ ہو جائیں ۔وہ ابھی تک ملک سے باہر ہی مقیم ہیں اور امیدِ واثق ہے کہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائر منٹ کے بعد جلد وطن لوٹ آئیں گے۔کیا فوج انھیں واپسی کا راستہ دے گی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ہم سب کو وقت کا انتظار کرنا ہو گا تا کہ نئے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی ترجیحات واضح ہو جائیں۔ جنر ل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ اب کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔

کیونکہ انھوں نے فوج کے اندر ایک نئی روح پھونک دی ہے جس سے پاک فوج ملکی سرحدوں کے ساتھ ساتھ اس کی نظریاتی سر حدوں کی بھی محافظ بن کر سامنے آئی ہے ۔ دھشت گردی کی جنگ میں جنرل راحیل شریف نے جس پامردی سے دھشت گردوں کی گردن ناپی ہے اس نے انھیں پوری دنیا میں ایک اولو العزم جنرل کامقام عطا کر دیا ہے لہذا ان کی ذات ایک رول ماڈل کا مقام حاصل کر چکی ہے۔

جنرل راحیل شریف قوم کا محسن ہے کیونکہ ا س نے دھشت گردوں کو مار بھگایا ہے اور ضربِ عضب کے وار سے انھیں تتر بتر کر دیا ہے ۔بھارت کی کوشش ہے کہ وہ خطے کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کو بھی بھڑکوں سے دبائو میں رکھے لیکن جنرل راحیل شریف کی بالغ نظری اور فوجی مہارت نے بھارتی سوچ کو ناکام بنا دیا ہے۔ امریکہ ،بھارت،افغانستان اور علاقے کے دوسرے ممالک کیلئے فوج کا پیغام بڑا واضح ہے اوروہ پیغام یہ ہے کہ ہمیں اپنے قوتِ بازو پر بھروسہ ہے اور ہمارے قوتِ بازو کا مظاہرہ جس نے بھی دیکھنا ہو وہ اپنا شوق پورا کر لے۔ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟۔،۔

TARIQ BUTT

TARIQ BUTT

تحریر : طارق حسین بٹ