پردیس کا عذاب

Pardes ka Azab

Pardes ka Azab

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
ایبٹ آباد ہزارے کا زرداد خان جدہ کی ایک فیکٹری میں فورک لفٹ اپریٹر تھا۔ لمبا تڑنگا مضبوط جسم پچاس کے پیٹے میں بڑا محنتی 12 گھنٹے روزانہ ڈیوٹی دینے والا جب وہاں عرصہ بیس سال گزار چکا تو شوگر کے موزی مرض نے آن لیا۔ رفتہ رفتہ شوگر بڑھتی گئی۔ مگر وہ اپنے ملک اور اپنے بچوں کے لئے اس کڑی دھوپ میں مشقت کرتا رہا۔ اس دوران مزید دس سال نکال گیا۔ وہ ہمارا روم میٹ ہم پیالہ ہم نوالہ رہا ساتھ اس کے حاجی خورشید احمد مکینک اور محبوب خان لیموزین ڈرائیور بھی ہمارے ساتھ ایک لمبی مدت ہم نشین رہے۔ زرداد خان کی شوگر جب تین سو سے اوپر جاتی وہ ساری ساری رات اپنے پائوں ملتا رنگ رنگ کے تیل اور کالی لال مہندی لگاتا کھانے پکانے کا شوقین ۔ مہمان نواز جمعہ جمعرات سب کے مہمان آتے چولھا زرداد کے ذمے کیا مجال ماتھے پر کوئی شکن ہمیں آم جلیبی کھاتے حسرت سے دیکھتا ہمیں کیا خبر کہ وہ کس کرب سے گزر رہا ہے پھر دو دو سال کے وقفے سے پہلے خورشید احمد اور پھر میں بھی شوگر کے مریض بن گئے۔ تب زرداد خان کا خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ کہ چلو ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار بن گئے مگر ہم نے آم جلیبی اور چائے کی چسکیاں نہ چھوڑیں۔ زرداد کی شوگر بڑھتی گئی۔ اور ساتھ ہی اس کا کڑیل جسم سوکھتا چلا گیا۔ اور پھر طویل مدتی نوکری ختم ہو گئی۔ ایک دن وہ تڑپتا بلکتا آنکھوں میں آنسو لئے ہمیں اداس چھوڑ کر اپنے گھر آگیا۔ پرھ کوئی خبر نہیں وہ کب اور کیسے ساری عمر پردیس کا عذاب جھیل کر آخر دنیا ہی چھوڑ گیا۔

ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ہمارا پیارا ساتھی خورشید بھی مسلسل تیس سالہ پردیس کا عذاب جھیلتے جھیلتے شوگر کیساتھ ہارٹ کا مریض بن گیا۔ اب وہ اس مشقت کے قابل نہ رہا ۔ نوکری چھوڑ کر گھر آگیا اسے الوداع کہتے کہتے ہم سب پھوٹ پھوٹ کر روئے آخر وہ بھی گھر مزید دو سال اپنے گھر گزارنے کے بعد پھر اس دنیا سے ہی رخصت ہو گیا۔ قارئین ابھی دو سال ہی گزرے تھے کہ کہوٹہ نارامٹور کا چچا محبوب خوش شکل خوش اخلاق خوش لباس دن کو جمعہ کی نماز پڑھی اور رات دو بجے اپنے کمرے سے زاہد زاہد چلانے لگا۔ اٹھ کر کیا دیکھتا کہ وہ فرش پر تڑپ رہا ہے پکڑ کر گاڑی میں لٹایا۔ بس اتنا کہا میرے بھائی میری لاش کو میرے وطن میرے بچوں کے پاس پہنچا دینا اور میری جھولی میں دم توڑ گیا۔ بس پھر کیا تھا ہم بھی برداشت نہ کر سکے۔ بوریا بستر لپیٹا کمپنی کے مہربان قدردان مالکان نے ترلے کئے مگر استفی دیا۔ اور چند سال سے گھر میں ہیں۔ طویل مدتی پردیس کا عذاب کاٹنے اپنے ہم پیالہ ہم رکاب ساتھیوں ددوستوں پاکستانی محنت کشوں جوکہ ہر تیسرے کی یہی کہانی ہے کو رات رات بھر یاد کرتے ہیں۔ روتے ہیں ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ جن کو شائد اپنی اولادیں بھی نہ یاد کرتی ہوں۔

ہمارے باپوں نے بھائیوں نے بیٹوں نے اس لق و دق صحرا میں اس چلچلاتی دھوپ میں ہمارے لئے اپنے ملک کے لئے کیا کیا ۔ یہ تو جھیلنے والے جانتے ہیں۔ یا ہم جیسے انکے عینی شاہد ساتھی۔ جو گزر گئے ہزاروں حسرتیں دل میں لئے اپنی جوانیاں اپنی زندگیاں اپنے بچوں خاندانوں اور ملک پر قربان کر گئے۔ اور جو آج زندہ ہیں اپنے ملک میں کسمپرسی کی بیماری کی زندگی کے ایام گزار رہے ہیں۔ نہ کوئی اولادوں کی طرف سے تمغہ خدمت اور نہ ہی اپنے ملک کی طرف سے تمغہ امتیاز ۔ لیکن اپنے اللہ کے ہاں ان محنت کشوں کا رزق حلال کمانے اور خاندان کے خاندان پالنے کا بڑا مقام ہو گا۔ اور ضرور وہ سب آخرت میں سرخرو ہونگے۔ ہمارے حکومت کا فرض ہے وہ آج بھی ملک میں واپس آنے والوں اور حاضر سروس ان محنت کشوں قیمتی نگینوں کی خدمات کا اعتراف کریں۔ ان کی قدر کریں۔ اور کم از کم انہیں دوسرے سرکاری اداروں کے ملازمین کی طرح صحت عامہ کی علاج معالجہ فری سہولیات مہیا کریں انہیں ان کے بچوں کو بھی مفت تعلیم و صحت کی سہولت دیں اور دس سال سے اوپر پردیس میں گزارنے ملک کو قیمتی زر مبادلہ کما کر دینے والوں کو خصوصی خدمت اعترافی کارڈ دیں۔ جس سے ان سب محنت کشوں کو ایک پہچان ملے۔ اور سرکاری اداروں میں تعلیم و صحت کی رعائیتی سہولت بھی جسے کے عرب اور یورپ میں آباد دوسرے تمام ممالک کے محنت کشوں کو وہی آئی پی شناخت میسر ہے۔

اس لئے کہ زندہ اقوام اپنے محسنوں کی خدمات کو کبھی نہیں بھولا کرتیں ۔ قارئین یہ وہ واحد مظلوم مخلوق ہے خصوصا عرب ممالک کے محنت کش جنہیں چالیس چالیس سال گزارنے محنت کرتے گزر گئے ہیں مگر نہ پنشن نہ کوئی الائونس خالی دامن خالی ہاتھ یہ آہ وہ جا والا معاملہ رکھتے ہیں ہماری آزاد کشمیر اور پاکستان حکومتیں اس پر خصوصی توجہ دیں۔ اور ملک کے ایک بہت بڑے محنت کش مظلوم طبقے قیمتی سرمایہ کمانے لانے والے طبقے کی اور انکے خاندانوں کی دعائین سمیٹیں ۔ قارئین آج جب میں خود شوگر کی شدت کا شکار ہوں جسمانی کمزوری ٹانگوں پائوں میں درد راتوں کو جاگنا تب چچا زرداد جیسے شوگر کے ہزاروں مریضوں اور انکے در د اور کرب کی بڑی دت سے یاد آتی ہے۔ اور آنکھوں میں انکے لئے خراج عقیدت کے آنسو بھی اللہ میاں ان موزی امراض سے سب کو شفاء بخشے اور ہمارے ان پیارے ساتھیوں کو جنت الفردوس مٰں شہادت کا مقام اور اجر اعظیم عطا فرمائے آمین سچ تو یہ ہے کہ دوسروں کا درد سمجھنے کے لئے خو د درد سہنا پڑتا ہے۔

قارئین ہماری آنکھوں کے سامنے اس محنت کش برادری کے سینکڑوں لاشے بکسہ بند لاشے ہزاروں خواہشات لئے جوان بوڑھے لاشے جب وطن عزیز پہنچتے رہے تب ان گھروں پر کیا قیامتیں گزریں ہونگی اپنے بیوی بچوں کے لئے دن رات ترسنے اپنے قبلہ و کعبہ والدین کو ایک نظر دیکھنے کی آرزو لئے کسی کے بیگ سے بکسے سے اپنے معصوم بچوں کے کپڑے کھلونے تصویریں چھوڑ کر کوئی وہاں عرب کے صحرائوں میں منوں مٹی تلے اور کوئی یہاں لا کر دفن کر دیئے گئے ایسا کرب وہی سمجھ سکتا ہے جس پر ایسے حادثات گزرے ہیں جن گھرانوں پر ایسی قیامتیں ٹوٹی ہیں کیا وہ وطن کے شہید اور خراج عقیدت کے لائق نہیں اور انکے ورثا ہمارے حکمرانوں کی ہمدری حوصلہ افزائی کے حق دار نہیں پر کیو نہیں ہمارے حاکمو کیوں نہیں ابھی بھی وقت ہے ان کیل ئے کچھ کریں ورنہ محشر میں انکے ہاتھ ہونگے اور آپکے گریبان اور پھر قدرت کا انصاف ہو گا۔

تالی مار اڈا نہ باھو اسی پر دیسی پنچھی ہو گلیاں دے وچ پھر ن نمانے جیویں لعلاں دے ونجارے ہو

Haji Zahid Hussain Khan

Haji Zahid Hussain Khan

تحریر : حاجی زاہد حسین خان

ممبر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ پاکستان
hajizahid.palandri@gmail.com