مروجہ حلالہ اور شرعی حلالہ میں فرق

women

women

حال ہی میں ذرائع میں یہ بات بڑے شورو شور سے اٹھائی گئی ہے کہ بعض شہروں میں کچھ لوگوں نے حلالہ سنٹر کے نام سے بدکاری کے اڈے کھولے رکھے ہیں۔ جہاں حلالہ کے نام سے بے گناہ خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے۔ اس کی آڑ لے کر علماء کو مولوی جیسے حقیر لفظ سے نوازا جا رہا ہے۔ اور بلاشبہ اس پر وسس سے سب سے زیادہ عورت متاثر ہوتی ہے بلکہ وہ ساری زندگی اس حلالے کے باعث شرمندگی، ندامت اور کانٹوں پر گزارتی ہے۔ زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے ہم تو ایسے جینے کے ہاتھوں مرچلے حالانکہ حلالے کا مستند علماء کرام کے فتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ علمائے اہل الحدیث نے ہمیشہ مروجہ حلالے کھلم کھلا حرامہ کہا ہے۔ راقم نے ”جنگ ”کے انہی کالموں میں کئی بار اس امر کو دہرایا ہے۔

کہ مروجہ حلالہ دراصل ایک علمی غلطی کا شاخسانہ ہے۔ حلالہ کا فتوی دینے والے جن نکات کو نظر انداز کرتے ہیں وہ یہ کہ تین طلاقیں اکٹھی دینا ناجائز ہیں طلاق کا صحیح اسلامی اصول یہ ہے کہ طلاق ایک ایک کرکے دی جائے تین طلاقیں اکٹھی طلاق مرد دیتا ہے اور مروجہ حلالے ( حرامے ) کانشانہ عورت بنتی ہے؟غلطی مرد کی ہے اور سزا عورت بھگتتی ہے کیوں؟اس لیے کچھ سزا مرد کیلئے بھی ہونی چاہیئے۔ اس بات کو واضح کرنے کیلئے ہمیں تین نکات پر گفتگو کرنا ہے۔(١) طلاق کا صحیح اسلامی طریقہ کیا ہے؟ (٢)شرعی حلالہ اور مروجہ حلالہ میں کیا فرق ہے (٣) علماء امت کیلئے اجتہاد کی اہمیت و ضرورت۔ کوشش کریں گے کہ اختصار اور جامعیت کے ساتھ ان موضوعات کو قابل فہم لہجے میں بیان کیا جائے۔

طلاق دینے کا اسلامی طریقہ حالت طہر میں (جب عورت پر نماز روزہ فرض ہوتاہے) مرد اپنی بیوی کو ایک طلاق دے۔ اس سے جدائی اختیار نہ کرے۔ دوسرے طہر میں اگر نبھا نہیں ہوسکا تو اسی طرح دوسری طلاق دے۔ عورت گھر ہی میں رہے گی۔ اب تیسرے طہر میں طلاق دیتے ہوئے اسے خیال رکھنا ہوگا کہ یہ آخری چانس ہے اس کے بعد واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے الطلاق مرتان۔ سورہ البقرہ) (الف) یہاں آپ دیکھیں کہ مرد وعورت کو سوچ بچار کا کتنا موقع دیا گیا۔ اب بھی اگروہ اپنی ضد پر قائم ہیں تو باقی زندگی میں ان کے نبھا کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔ (ب) طلاق صرف ایک ہی دینی چاہیئے اکٹھی تین طلاقیں دینا جائز نہیں ہے۔(ج) ایک طلاق بھی وہی کام کرتی ہے۔

Husband and wife

Husband and wife

جو ایک سے زیادہ طلاقیں دینا کرتی ہیں۔ یعنی میاں بیوی میں علیحدگی اور عدت کے بعد عورت کو نئے نکاح کا حق۔ (د) ایک یا دو طلاق کا فائدہ یہ ہے کہ دوران عدت مرد کو طلاق واپس لینے کا حق ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ ازدواجی زندگی میں مرد کو صرف تین طلاق کا حق ہوتا ہے۔ اس حق کو ایک ہی دفعہ کھودینا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے کچھ بھی جذبات ہوں طلاق صرف ایک ہی دینی چاہیئے۔ اگرعدت (تین حیض تقریبا اڑھائی سے تین ماہ) گزرگئی تو اب عورت آزاد ہے۔ وہ کسی سے بھی شادی کرسکتی ہے۔ چاہے تو اپنے پہلے خاوند کے ساتھ کرے ( نئے حق مہر اور نئے نکاح کے ساتھ) یا کسی اور کے ساتھ۔ یعنی یہاں ایک اہم پوائنٹ نظر انداز کر دیا جاتا ہے یعنی عورت کی مرضی۔

اگر اس کی مرضی نہیں تو اسے پہلے خاوند کے ساتھ شادی کرنے کیلئے مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔ شرعی حلالہ کیا ھے ہرماہ ایک ایک کرکے تین طلاق کے اتنے لمبے پروسس کے بعد پھر اگرسابقہ جوڑا ملنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو اس کا بھی ایک لمبا پروسس ہے۔ یعنی شرعی حلالہ اور وہ کیا ہے۔ وہ عورت کسی دوسرے مرد کے ساتھ باقاعدہ شادی کرے (محض کاغذی نکاح نہیں تذوق عسیلتہ وعسیلتھا(ابوداودا)۔ طلاق لینے کی نیت سے یا کچھ وقت کیلئے نکاح کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ (نکاح موقت پر بے شک اہل علم میں اختلاف ہے لیکن یہ بڑی گہری اور علمی بحثیں ہیں ) لیکن اسلام کا جو عمومی رویہ ہے وہ موقت نکاح کو جائز قرار نہیں دیتا۔ اب کچھ عرصہ بعد مرد اپنی بیوی کو از خود طلاق دے دیتا ہے۔

(کسی جبریا معاہدے کے تحت نہیں)یا وہ طبعی موت مرجاتاہے تو پھر یہ خاتون اپنے پہلے شوہر سے نیا نکاح نئے حق مہر کے ساتھ منعقد کرسکتی ہے یہ ہے اسلامی حلالے کا طریقہ۔ مروجہ حلالہ ھے یا حرامہ لوگوں نے طلاق و حلالے کے اس لمبے پروسس کی بجائے شارٹ کٹ راستہ اختیار کرلیا طلاق ایک کی بجائے تین اکٹھی دیدیں اور شرعی حلالے کی بجائے ایک رات کیلئے بے چاری عورت کو غیر مرد کے ساتھ باندھ دیا اور اگلے دن اس سے طلاق لے کر پہلے اسی مرد کے حوالے کردی جس نے اس بیچاری پر طلاق کا ستم ڈھایا تھا گویا۔ وہی ذبح بھی کرے وہی لے ثواب الٹا اس حیلہ سازی کا شرعی حکم یہ ہے نبی صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم نے ایسے حلالہ کرنے یا کرانے والے کو لعنتی قرار دیا ہے۔

Quran

Quran

(لعن اللہ المحلل والمحلل لہ) کہ بقول امام ابن قیم یہ حلالہ نہیں حرامہ ہے۔ فقھہ مذاھب میں اختلاف کا معقول حل اگر کوئی مرد اپنی بیوی کو لا علمی میں یا مغلوب الغضب ہوکر تین طلاق اکٹھی دے دیتا ہے۔ تو اہل الحدیث کے نزدیک اس کا حل قرآن وحدیث اور عمل صحابہ کی روشنی میںیہ ہے کہ تین کی بجائے صرف ایک طلاق شمار کرلی جائے اور دوران عدت بغیرنئے نکاح کے میاں بیوی اکٹھے ہوسکتے ہیں۔ اور عدت کے بعد بغیرحلالہ کے نیا نکاح کرسکتے ہیں۔ کیونکہ خود نبی صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم نے ایک ہی طلاق شمار کی ہے۔ آپ صلی اللہ عیلہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی تین طلاق کو تین نہیں مانا بلکہ ایک ہی طلاق قرار دیا ہے۔ یہی عمل دور صدیقی میں رہا اور یہی عمل دور فاروقی میں ہوتا رہا۔

ظاہر ہے یہ ایک رعایت تھی جب لوگوں نے اس سے ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کر دیا جس طرح آجکل کیا جارہا ہے تو سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ نے اس رعایت کو شوریٰ کے مشورہ کے بعد ختم کر دیا( بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس بات کو مانتے تھے کہ میں نے ایک شرعی رعایت کو ختم کر دیا ہے، اور کہیں عنداللہ میرا محاسبہ نہ ہوجائے) اب یا تو ایسے شخص کو سزا دیتے تھے یا ہمیشہ کیلئے عورت سے نکاح ختم کر دیتے تھے ( صحیح مسلم)اور اسی قول یعنی تین طلاقوں کو تین شمار کرکے رجوع کا حق ختم کرنے پربعد میں چاروں مذاہب ( حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور حنبلیہ بھی متفق ہوگئے، اسی بنیاد پر اب بھی یہی سمجھا جاتا ہے)اگر ہم اہل الحدیث اور امام ابن تیمیہ وابن قیم کا فتوی لیتے ہیںتو اس میں قرآن و سنت کی دی گئی۔

رعایت کا لحاظ بھی ہو جاتا ہے اور مروجہ حلالے کی لعنت سے بھی بچا جاسکتا ہے۔ اگر مذاہب اربعہ کے فتوی کو معمول بہا بنا لیا جائے تو مروجہ حلالہ کی لعنت جنم لیتی ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے طریقے سے یہی رہنمائی ملتی ہے کہ یہ مسئلہ عام لوگوں کے حل کرنے کا نہیں مستند علماء کی کمیٹی کا ہوتا ہے۔ اس لیے علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کی رہنمائی کریں کہ طلاق کے اسلامی اصولوں کو استعمال کیا کریں۔ تین طلاق ایک فضول کام ہے جب ایک ہی طلاق سے کام ہو جاتا ہے تو تین طلاقوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور پھر اگر کسی نے یہ بیوقوفی کی ہے تو مذاہب اربعہ کے مطابق اس کو فوراً حلالے کے قصائیوں کے حوالے نہ کردیا جائے بلکہ اس کے احوال دیکھتے ہوئے فتوی دیا جائے۔

Divorce

Divorce

علمائے اھل حدیث سے گزارش اسی طرح علمائے اہل حدیث سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی فوراً ایک طلاق کا فتوی نہ دیدیا کریں بلکہ احوال دیکھ کرہی ایک طلاق کا فتوی دیا جائے۔ ہم اسلامک شرعیہ کونسل، لیٹن۔ لندن کے اراکین اس قسم کے کیسوں میںمردو عورت کے احوال (مثلا بچوں کا خوفناک مستقبل، خاندانی چپقلش وغیرہ) کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب فیصلہ دیتے ہیں اور بعض دفعہ مرد پر بھاری جرمانہ عائد کرتے ہیں تاکہ آئندہ وہ ساری زندگی ناجائز اور جذباتی طور پرتین طلاق اکٹھی دینے کا سوچ بھی نہ سکے (دور فاروقی میں ایسے شخص کو سخت سزا بھی دی جاتی تھی ) علماء امت کیلئے اجتھاد کی اھمیت و ضرورت برطانیہ میں تمام مکاتب فکر کے مستند علماء ومفتیان کرام موجود ہیں۔

انہیں چاہیئے کہ وہ اجتہاد کرتے ہوئے اس مسئلہ کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں تلاش کریں یعنی بعض احوال میں ایک ہی طلاق شمار کرکے مرد کو رجوع کا شرعی حق دیا جائے۔ اور بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کو تین ہی مان کر عورت ومرد کی جدائی کروا دی جائے یا پھر مروجہ حلالے کی شکل میں صرف عورت ہی کو تختہ مشق بنایا جائے اوریوں حلالے کے نام پر بدکاری کا راستہ کھولاجائے۔ بے شک آئمہ کرام نے تین طلاق ہی کا فتوی دیا ہے لیکن آپ کیلئے ایک طلاق کو ماننے کی بڑی مضبوط دلیل یعنی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل مبارک موجود ہے۔ اور اس سلسلہ میں تقلیدی رویے پر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ خود سیدنا امام ابوحنیفہ کا فتوی بھی ہے کہ جب صحیح حدیث آجائے تو وہی میرا مذہب ہے (عقد الجید لشاہ ولی اللہ)شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا۔
تحریر : حافظ محمد عبدالاعلےٰ درانی
aala121@hotmail.com