وزیراعظم کا مرض بنا معمہ

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر : قراة العین حفیظ
ایک بار پھر سیاست کے اہم لوگ جن کو جمہو ر یت کے سبب بیماری کا مرض لاحق ہوا ہے وہ علاج معا لجے کیلئے ولایت جاتے نظر آ ر ہے ہیں ۔ یہ عجیب بیما ریاں ہیں کہ جو بوقت ضرورت اور حسبٍ خواہش لاحق ہو جاتی ہیں ۔ یہ ایسی عجیب بیما ریاں ہیں کہ جن کی نوعیت کے بارے میں قوم کو نہیں بتا یا جا تا ہے جیسا کہ سابق صدر آصف علی زرداری کچھ عرصے سے برطانیہ میں علاج کے لیے مقیم ہیں گو کہ دوران اقتدار وہ بلکل تندرست و توانا تھے۔ یہی حال پرویز مشرف کا بھی ہے جب تک وہ صدر تھے تو ٹھیک تھے مگر اقتدر چھوڑتے ہی اُن کی صحت و تندرستی بھی ساتھ چھوڑ گئی۔ یہی معاملہ وزیراعظم میاں نواز شریف کا ہے جیسے ہی پانامہ لیکس کا مسئلہ آیا ہے تو اچانک ایسی بیماری لاحق ہوگئی کہ اِس کا علاج صرف اور صرف برطانیہ میں ہوسکتا ہے۔

مانا کہ پاکستان میں صحت کی سہولتوں کا فقدان ہے مگر پھر بھی بڑے شہروں میں ایسے ہسپتال موجود ہیں جن میں عالمی شہرت کے حامل ایسے ڈاکٹر موجود ہیں جو اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ مگر یہ ہسپتال تو رعایا کے استعمال کے لیے ہیں۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔ ایک وفاقی وزیر فرما رہے ہیں کہ وزیراعظم معائنہ کرانے کے لیئے گئے ہیں جبکہ دوسرے کا ارشاد ہے کہ علاج کے لئیے گئے ہیں ۔ گویا کہ کابینہ کے ارکان کو بھی معلوم نہیں کہ بیماری کیا ہے اور اِس کی نوعیت کیا ہے۔

ایک عجیب سی کیفیت ہے وزیراعظم طبی معائنے یا علاج یا دونوں کے لیے جس طرح لندن روانہ ہوگئے اِس نے کئی سوال کھڑے کردئیے ۔ ملکی سیاست میں ایک ہلچل سی مچی ہے۔ہر جماعت کیلئے دوستوں اور دشمنوں میں تمیز کرنا مشکل ہوگیا ہے۔پھر اس کے بعد دوسری اہم شخصیت وزیر داخلہ چودھری نثار بھی ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ جس کی ضرورت تو نہیں ہے مگر جو کچھ ہو نے جا رہا ہے وہ بھی واضح نہیں۔

Imran Khan

Imran Khan

عمران خان کو حکمران جماعت کے خلاف ایک نیا محاظ بنانے کا اچھا موقع ملا ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ پانامہ لیکس میں دو آف شور کمپنیوں کے انکشفات کے بعد وزیراعظم نواز شریف کی حکمرانی کا اخلاقی جواز ختم ہو چکا ہے وہ استعفئ دیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ پانامہ لیکس اللہ کی غیبی مدد ہے فیصلہ کن مرحلہ آچکا ہے اب جدوجہد نہ کی تو ملک تباہ ہو جائے گا۔ میاں صاحب قوم کو اثاثے بتائیں، کچھ ہزار روپے ٹیکس کے عوض اربوں کی جائیداد کیسے بنا لی۔ وزیراعظم نے استعفی نہ دیا تو رائیونڈ کا گھیراؤ کریں گے۔ بیرون ملک عمران خان کے اس بیان کا بہت چرچا ہوا ہے۔ عمران خان اس دفعہ بہت پُر امید ہیں کہ وہ اس بار حکومت کو گرا دیں گے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی پاکستان کے تمام بڑے رہنما چاہے حکومتی جماعت سے ہوں یا اپوزیشن جماعت سے سب لندن میں اکٹھے ہورہے ہیں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اپوزیشن کبھی متحد نہیں ہے وہ ہمیشہ حکمران جماعت کے ساتھ کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر چلے گی۔ یورپی ممالک میں وزرائے اعظم استعفئ دے رہے ہیں لیکن یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ یورپ ہے وہاں کا کلچر ایسا ہے کہ آپ الزامات کی بوچھاڑ میں حکومت نہیں کر سکتے لیکن یہاں کا کلچر اُلٹ ہے یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے ۔ یہاں جب تک کسی حکومت پر الزمات نہ لگیں تو حکومت کرنے کا مزہ ہی نہیں آتا۔

دوسری طرف پانامہ بحران کے وقت وزیراعظم کا رویہ اور عزم دیکھیں وہ حد درجہ پریشان اور بوکھلائے ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اب دانتوں تلے پسینہ آرہا ہے اور کوئی ڈھنگ کا جواب نہیں سوجھ رہا۔ کچھ کہنے کیلئے الفاظ نہیں مل رہے ، وہی گھسی پٹی تردید جس کا کھوکھلا پن سب پر عیاں ہے۔

Hamza Shahbaz

Hamza Shahbaz

اِس دوران شہباز شریف اور حمزہ شہباز نے اْن کی حمایت میں ایک لفظ بولنے کی زحمت نہیں کی۔ اس صورتحال میں مریم نواز ٹوئٹ کر رہی ہیں کہ خاندان متحد ہے ، اس میں کوئی ناچاقی نہیں ہے ۔ یقیناً ایسی کوئی بات نہیں ہوگئی مگر جب آپ کسی بات پر دعوے کرنا شروع کردئیں تو سب کے کان کھڑے ہونا فطری بات ہے۔ وزیراعظم کے اس معملے کو نازک موڑ ملا جب اْن کی ضعیف والدہ کے ساتھ اْن کی جذباتی تصویر کو منظرعام پر لایا گیا۔ ایسی نجی لحمات کی منظر کشی نہیں کی جانی چاہیئے تھی جس وقت آپ پر کچھ الزمات ہوں۔ کیا والدہ محترمہ کے ساتھ عقیدت اور محبت کا اظہار اس نازک موڑ پر عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کیلئے ہوتا ہے۔

اس وقت نواز شریف صاحب کو کچھ سنجیدہ سوالات کا جواب دینا ہے۔ چناچہ جذباتی مناظر دکھانے اور دکھی شکل بنانے کی بجائے وہ دلیری کے ساتھ سامنے آکر ان کا جواب دیں ۔ وزیراعظم صاحب کی پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی کہ شاید انھیں اٹک قلعے کا وہ وقت یاد آتا ہو جو انھوں نے نظر بندی کے دوران وہاں گزارے ، جہاں وہ ہمہ وقت بے آرامی پر نوحہ کن رہے ۔ دنیا میں بہت کچھ ہوتا ہے چور پکڑے جاتے ہیں ، ڈاکو گرفتار ہوتے ہیں۔

Zulfiqar Bhutto

Zulfiqar Bhutto

لیکن وہ اپنے بدترین لحمات میں اپنی انا اور وقار کو مٹی میں نہیں ملاتے۔ اگر ماضی کے جھروکوں میں دیکھا جائے تو بھٹو صاحب جیل میں بھی تھے تو بھی ان کی گردن خم آشنا نہ ہوئی ۔ امید کرتے ہیں کہ معملہ چاہیے جو بھی ہو مرض چاہیے جو بھی ہو وزیراعظم صاحب واپس آ کر اِن تمام الزمات کا سامنا کریں ۔ اگر کوئی بے ضابطگی ہوئی ہے تو اسے اپنی انا کا مسئلہ بنانے کی بجائے اُن پر فرض ہے کہ احتساب کے کٹہرے میں کھڑے ہوں۔

تحریر : قراة العین حفیظ