کل وزیراعظم کے استعفے‘ تحریک کے لائحہ عمل پر مشاورت ہو گی‘ سپریم کورٹ ٹی او آر نہیں بدل سکتی: پیپلز پارٹی

Khursheed Shah

Khursheed Shah

سکھر (جیوڈیسک) اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کے استعفے سے متعلق مشاورت ہوگی ۔ جو میرے لیڈر نے مطالبہ کیا وہی میرا ہے، بلاول بھٹو کا مطالبہ پورا کرنے کی کوشش کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ 2 مئی کو اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہے۔ وزیر اعظم کے استعفے سے متعلق مشاورت ہوگی۔

سٹرکوں پر تحریک چلانے کا بھی لائحہ عمل طے پاسکتا ہے ، اس پر بھی مشاورت ہوگی، اپوزیشن جماعتیں ایک ساتھ ہیں۔ میاں نواز شریف نے یوسف رضا گیلانی سے استعفیٰ مانگا تھا۔ اخلاقی طور پر اب انہیں بھی استعفیٰ دیدینا چاہیے ۔ اپوزیشن کے تین مطالبات ہیں۔ پہلا مطالبہ ہے کہ جوڈیشل کمشن کو اختیارات دیئے جائیں۔ دوسرا مطالبہ ہے کہ مشترکہ ٹی او آر ز طے کئے جائیں۔ تیسرا مطالبہ ہے کہ پانامہ لیکس کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے۔

ان تین مطالبات کے علاوہ اپوزیشن کسی چیز کو قبول نہیں کریگی، اپوزیشن میں تحریک انصاف کیساتھ ہیں۔ آئندہ بھی پی ٹی آئی کے ساتھ چل سکتے ہیں، کچھ بھی ناممکن نہیں۔ خورشید شاہ نے یوم مئی کے حوالے سے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کسانوں ، مزدوروں ، محنت کشوں اور غریب عوام کی پارٹی ہے۔ پیپلز پارٹی نے ہر دور میں پاکستان کے غریب عوام اور محروم طبقات کیلئے تاریخی اقدامات کئے اور ہم نے اپوزیشن میں رہ کر بھی نج کاری کا راستہ روکا ہے تاکہ اس ملک کا مزدور عزت سے دو وقت کی روٹی کما سکے۔

پی پی پی نے مزدوروں کے حق کی خاطرنجکاری کے خلاف آواز بلند کی اور پھر کسی کو ان کا حق چھیننے کی جرات نہیں ہوئی۔ نجی ٹی وی سے گفتگو میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ وزیراعظم بڑی مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں، وزیراعظم سے یہ غلطی ہوئی کہ بیٹے سے اقرار کرالیا کہ یہ پراپرٹی انکی ہے۔ ٹرسٹی، بینفشل اور اونر میں کوئی فرق نہیں، ملکیت میں سب کا حصہ ہے، میاں صاحب کا نام جب تک کلیئر نہیں ہوتا انہیں استعفیٰ دینا چاہئے اور مجھے نہیں لگتا کہ انکا نام کلیئر ہوسکے گا۔ بلاول بھٹو نے واضح طور پر مسلم لیگ (ن) سے متعلق پیپلز پارٹی کی پالیسی بتا دی ہے۔ سپریم کورٹ تحقیقاتی کمیشن کے ٹی او آرز تبدیل نہیں کرسکتی، چیف جسٹس ایسا کریں گے تو سیاست کا الزام لگ جائیگا، ٹی او آرز طے کرنا عدالت کا کام نہیں۔

بوکھلاہٹ کی نشانی ہے کہ چیف جسٹس کو ضابطہ کار بنانے کیلئے کہا گیا ہے۔ اعتزاز احسن نے دعویٰ کیا کہ دستاویزات میں ظاہر ہوا نیلسن اور نیسکول مریم نواز کی ملکیت ہیں۔ میاں صاحب کہتے ہیں کہ دوستوں سے قرضہ لے کر لندن میں کاروبار شروع کیا، انہیں وہ بینک ٹرانزیکشنز دکھانا ہوں گی جن میں پیسہ لندن منتقل ہوا۔ خیال ہے کہ میاں صاحب اپوزیشن کاضابطہ کار قبول نہیں کریں گے۔ میاں صاحب کے پاس اس بھنور سے نکلنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ کا جوائنٹ سیشن بلائیں اپنے اثاثوں کی تفصیلات سب کو بتا دیں۔