وزیراعظم استعفی کیوں دیں

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر : عزیر اکبر
پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ دوسری چھوٹی موٹی پارٹیاں اور انفرادی حیثیت میں سیاسی جماعت چلانے والے بعض افراد تسلسل سے وزیر اعظم نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ اس مطالبے میں بعض مبصر اور کالم نگار بھی اپنی آواز شامل کر دیتے ہیں۔ برطانیہ میں یورپئین یونین سے علیحدگی کے سوال پر ہونے والے ریفرنڈم میں ناکامی کے بعد وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اب اسے مثال بنا کر نواز شریف کے استعفیٰ کے لئے دلیل دی جا رہی ہے۔ اور یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جمہوریت کیوں کر کام کرتی ہے۔ یہ تقابل کئی لحاظ سے غلط ہے۔

پاکستان اور برطانیہ میں اگرچہ پارلیمانی جمہوری نظام ہی کام کررہا ہے لیکن دونوں ملکوں کے ہاں جمہوری روایت پر عمل کا جائزہ لیتے ہوئے ان ملکوں کے علیحدہ علیحدہ سیاسی مزاج اور معاشرتی ڈھانچہ کے فرق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ برطانیہ میں اگر حکومت اور وزیر اعظم کسی اہم سیاسی معاملہ میں ذمہ داری قبول کرتا ہے تو وہاں کی اپوزیشن بھی سیاسی پارلیمانی نظام کو چلانے کے لئے ویسی ہی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی ہے۔ پاکستان میں اس کے برعکس اپوزیشن خود کو کسی قسم کی جوابدہی اور ذمہ داری سے مبرا سمجھتی ہے اور کسی بھی ایسی منتخب حکو مت کو کام کرنے کا موقع دینے کے لئے تیار نہیں ہوتی ، جس کا وہ باقاعدہ حصہ نہ ہو۔

اس پہلو سے دیکھا جائے تو پاکستان کی سیاسی پارٹیاں کسی اہم سیاسی اصول، معاملہ یا حکومت کی کسی بہت بڑی سیاسی غلطی کی بنیاد پر استعفی اور حکومت گرانے کی بات نہیں کرتیں بلکہ ان کی سوچ کا محور بہر حال کسی نہ کسی طرح اقتدار حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اور اگر کوئی دوسری پارٹی اقتدار میں آجائے تو فوری طور پر دھاندلی اور انتخابی بے قاعدگی کا الزام لگا کر حکومت گرانے کی کوششوں کا آغاز کردیا جاتا ہے۔ یہ گھناؤنا اور افسوسناک سیاسی رویہ ملک کی ہر سیاسی جماعت میں موجود ہے۔ مسلم لیگ (ن) 2008 سے 2013 تک جب وفاقی حکومت میں شامل نہیں تھی تو وہ بھی اسی طرح پیپلز پارٹی کی حکومت گرانے کے لئے ہر جائز اور ناجائز طریقہ اختیار کرنے کی کوششیں کرتی رہی تھی،حالانکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اس کی حکومت تھی۔

Election

Election

2013 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) نے اکثریت حاصل کرلی تو اب دوسری پارٹیاں نواز شریف کی اقتدار سے علیحدگی کو ہی مسئلہ کا واحد حل قرار دے رہی ہیں۔برطانیہ میں ریفرنڈم میں وزیر اعظم کو اپنے واضح سیاسی مؤقف میں ناکامی ہوئی ہے۔ عوام کی اکثریت نے ان کا مشورہ ماننے کی بجائے یورپی یونین سے نکلنے کی مہم چلانے والوں کی بات کو اہمیت دی ہے۔ یورپی یونین سے نکلنے کی مہم چلانے والوں میں حکمران کنزرویٹو پارٹی کے متعدد لیڈر اور ارکان پیش پیش تھے۔ اس کے باوجود ریفرنڈم کے بعد کسی نے ڈیوڈ کیمرون سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ حکومت اور پارلیمنٹ سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ مناسب قانون سازی کرکے یورپی یونین سے علیحدگی کی راہ ہموار کرے گی۔ اس صورت حال میں وزیر اعظم کیمرون نے خود یہ محسوس کیا کہ اپنے واضح سیاسی مؤقف پر عوام کے عدم اعتماد کے بعد انہیں اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہئے تاکہ جن لیڈروں نے یونین سے علیحدگی کی مہم چلائی تھی، وہی اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔

اس فیصلہ کی بنیاد صرف عوام کا مخالفانہ فیصلہ نہیں ہے بلکہ یہ اخلاقی سیاسی اصول بھی ہے کہ وہ جس معاملہ کو ملک و قوم کے لئے مناسب نہیں سمجھتے، اس کی تکمیل کے لئے وہ حکومت کی قیادت کیسے کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں برطانیہ کی مثال دیتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے والے سیاسی لیڈروں کو اس فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی یہ بات درست ہے کہ نواز شریف کو عوام کی بھاری اکثریت نے منتخب کیا ہے۔ انہیں بدستور قومی اسمبلی کی بہت بڑی اکثریت کی حمایت حاصل ہے ، اس لئے وزیر اعظم کس بنیاد پر استعفیٰ دیں اور ان سے یہ مطالبہ کسی جمہوری یا پارلیمانی بنیاد پر نہیں کیا جا رہا ۔ بلکہ یہ مطالبہ اقتدار کی دوڑ میں بہتر مد مقابل کو کسی نہ کسی طور پسپا کرنے کی کوششوں اور خواہش کا نتیجہ ہے تاکہ کسی طرح اپنی ’باری‘ کے لئے راہ ہموار کی جا سکے۔ اسی لئے کبھی دھاندلی کی بنیاد پر قائد ایوان کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی کوشش ہوتی ہے، کبھی بدعنوانی اور بد انتظامی کا الزام لگایا جاتا ہے، کبھی پاناما لیکس کے ’انکشافات‘ کو اس کی وجہ بنایا جاتا ہے اور کبھی الیکشن کمیشن کو نامکمل معلومات فراہم نہ کرنے کا ’انکشاف‘ کرکے نواز شریف کو ’ناہل‘ کروانے کی کوشش ہوتی ہے۔

PPP and PTI

PPP and PTI

اس سب کوششوں میں یہ سیاسی خواہش تو بدرجہ اتم موجود ہے کہ کسی طرح حکومت کا خاتمہ ہو سکے تاکہ ’ساڈی واری آن دیو‘ کی خواہش کی تکمیل ہو سکے لیکن کوئی سیاسی جواز بہر حال دکھائی نہیں دیتا۔اس کے علاوہ حکومت کو گرانے کی خواہش رکھنے والے لیڈروں اور پارٹیوں کے پاس اس کے سوا کوئی متبادل بھی موجود نہیں ہے کہ اقتدارہمارے حوالے کیا جائے کیوں کہ ہر اپوزیشن لیڈر بزعم خویش ملک پر حکومت کرنے کا سب سے ذیادہ اہل ہے ۔ اسی لئے کسی حکومت کو گرانے کے بعد کی صورت حال کے ’دل خوش کن منظر‘ میں کوئی لیڈر فوج کی اعانت سے اقتدار سنبھالنا چاہتے ہیں اور کوئی اس خوف سے حکومت کو محروم اقتدار کرنے کی جد و جہد میں پورا زور نہیں لگاتے کہ کہیں فوج ہی سب کو مسترد کرتے ہوئے خود ہی اقتدار پر قابض نہ ہوجائے۔ لیکن یہ ادراک بھی ماضی کے تجربوں سے گزری پیپلز پارٹی اور اے این پی کے علاوہ شاید ہی کسی پارٹی میں موجود ہے۔ وزیر اعظم کو اس لئے بھی استعفیٰ نہیں دینا چاہئے کہ جمہوریت کے نام پر ان کا استعفی مانگنے والے ملک میں جمہوریت کی راہ کھوٹی کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔

تحریر : عزیر اکبر