محافظ ہی نیا ڈبونے کے درپے

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : اے آر طارق
تحریک انصاف نے 2نومبر کی اسلام آباد” لاک ڈاوٰن”کی کال کیا دی، حکومتی حلقوں میں ایک بھونچال سا آگیا۔سرکاری طوطے تب سے لیکر اب تک عمران خاں اور اسکے ساتھیوں کے خلاف بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے اور اخلاق سے گری ہوئی غیر شائستہ باتیں کرنے پرتلے ہوئے ہیںاور نوبت کردار کشی سے اب گھرتک جا پہنچی ہے،ایک دوسرے کے بارے میںایسے ایسے تیزوتند جملے ،تلخ فقرے اور اخلاقیات سے عاری باتیں کی جا رہی ہیں۔حکومتی حلقوں کی جانب سے بھی بے تکی ،بہکی بہکی سی باتیں کی جا رہی ہیں،جس پر شرمندگی اور ندامت کا اظہار بھی نہیں کیا جا رہا ۔الزامات کی بوچھاڑمیں مخالفین پر تابڑ توڑ حملے سکیے جا رہے ہیں،جس کا لامتناہی سلسلہ تھمنے میں نہیں آرہا،حکومتی افراد کو دیکھ کر ایسالگ رہا ہے کہ شاید اخلاقیات کاجنازہ نکال دینے کی تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔سعد رفیق کی جمعرات کی شام کی گئی پریس کانفرنس ان کی بوکھلاہٹ کا اظہار تھی جو کہ ان کے پریشان اور مرجھائے ہوئے چہرے کی سلوٹوں سے عیاں تھی۔

ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس پریس کانفرنس ،جس کا بوجھ وہ اپنے کاندھے پر لے بیٹھے ہیں ،سے کس طرح نمٹے۔ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ایساکیا کہیں کہ جس سے ان کے آقاء ان پر راضی ہوجائیںاور فرط مسرت سے ان کو”پیار کی تھپکی” دیتے ان کو اپنی بانہوں میں لے لیں اورمحبت سے ماتھا چوم ڈالیں۔مگر ایسی کوئی صورت بن نہیں پا رہی تھی جس پر وہ بجھے ہوئے افسردہ چہرے کے ساتھ پریشان ،گم سم،بدلتے حالات پر فکرمند دکھائی دئیے۔وہ دوران پریس کانفرنس صحافیوں کے جلو میں بیٹھے ،صحافیوں کے تابڑ توڑ سوالوں پر سوچ رہے تھے کہ وہ ایسا کیاکہیں کہ بات بن جائے۔بات تو نہ بن پارہی تھی ،بجائے اس کے کہ ناکامی پر اپنے لب کاٹتے یا دانتوں سے ناخن چباتے،بھرے ہوئے مجمے میں یہ نازیبا حرکت بھی نہیں کرسکتے تھے on media live کوریج ہورہی تھی ،سب کی نظروں میں آسکتے تھے۔

اسلیئے بوجھل اور جنجھلائے ہوئے انداز میںصحافیوں کے تابڑتوڑ حملوں کی صورت میںان کو ہی کاٹنے کا سوچ بیٹھے اور باقاعدہ طور پراس کا عملی مظاہرہ ایک صحافی کے لمبے مگر وضاحت کرتے سوال پر ان کو کاٹ کر کیا۔سعد رفیق کی باڈی لینگوئج ان کی باڈی سے میچ نہیں کررہی تھی،وہ بول تو رہے تھے مگر ان کاجسم ان کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔انکی ااس موقع پر حالت یہ تھی کہ جیسے کسی نے ان کو اس نازک صورتحال میں دھکا دیکر یہاں دھکیل دیا ہو۔سعد رفیق سے میرا یہی کہنا ہے کہ سیاست میں اتنا ہی بولیے کہ جس سے واپسی آسان ہو نہ کہ جاوید ہاشمی کی طرح آپ کو بھی یہ کہنا پڑے کہ ”میں تو آتا ہوں مگر نمبرداری نہیں آنے دیتی”اور کسی کی عزت وآبرو سے کھیلنے کی کوشش نہ کریںکیونکہ کبھی کبھی یہ عمل اپنی جان کو بھی آجاتا ہے اور یہ جو آپ کسی کو ”پوڈریا” اور کسی کو” بے نام کی اولاد” کی پھبتی کستے نظر آتے ہیں۔

Panama Leaks

Panama Leaks

آپ میں ”دلائل کی کمی،اپنی بات کو منوا نہ پانے” کی طرف اشارہ ہے اور دوسروں پر بے سروپا،بے بنیاد الزامات لگا کر آپ اپنی ”اخلاقی گراوٹ” کا مظاہرہ کرتے ہیں،اس سے اگلے کا کچھ نہیں جاتا مگر آپ کے نام ومرتبے پر حرف ضرور آتا ہے۔اسلیئے کہ اللہ نے آپ کو ایک شان دی ہوئی ہے ،کم ازکم اس کا ہی خیال رکھ لیا کریں۔ مانا کہ آپ کی یہ مجبوری ہے ورنہ آپ تو اس وقت سے لیکر” جب آپ اس حقیقت کو جان گئے تھے کہ آپ کی پٹاری میں کیا رکھا ہے اور پھر سٹے آرڈر کے پیچھے چھپنے والی کہانی سامنے آنے کے بعد”ایک چپ ،سو سکھ” والے فارمولے کو اپنائے اپنی سیٹ انجوئے کرتے اب تک ،پوری طرح اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ میں کسی کو دکھائی ہی نہ دوں”مگر کیاکریںاس اقتدار اور کرسی کا ،جس کے لیے حضور والا کو جلوہ دکھانا ہی پڑا اور پھر یہ کہ آپ ایک گھاگ سیاستدان ٹھہرے،سیاست کی راہداریوں میں رہتے ہوئے سیاست کے داوپیچ نبھانا بخوبی جانتے ہیں،سمجھتے ہیں کہاں چھپنا ہے اور کہاں نظر آنا ہے۔

میاں برادران جو کہ پانامہ لیکس ایشو میںبری طرح پھنسے آہ وبکا کر رہے ہیں ،ایسے میںیہ پوری طرح جانتے ہیں کہ یہ وقت نہیں ہے رکنے کا ،یہ وقت ہے کچھ کرنے کا اور پھر یہ کہ ان کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ الیکشن 2018 بھی آنے والے ہیں۔لہذاان کو نا چاہتے ہوئے بھی کارزار سیاست کے کٹھن راستوں پر اترنا پڑا۔سو اسی کوشش میں آپ پھر سے منظرعام پر آگئے ،یہ گیت گنگناتے ہوئے کہ”آنا ہی پڑا سجنا ،ظالم ہے دل کی لگی”۔کسی کے خلاف بولنے سے پہلے خود پر ایک نگاہ اور اپنی پٹاری کی طرف بھی دھیان دے لیا کریں،جس کو دیکھنے کے بعد آپ کو خود ہی پتا چل جا ئے گا کہ آپ کو کرناکیا ہے۔

اس سے یہ ہوگا کہ پارلیمنٹیرین آپ کی بے تکی اور احمقانہ سوچ پر مبنی خیالات ووچار سے محفوظ ہوجائیں گے اور آپ کو بھی افاقہ ہوگا۔سیاست کی راہداریوں میں رہنے والے دوسرے افراد کی عزت وآبرو بھی محفوظ رہے گی ،جن کی عزت وآبرو پر ہاتھ ڈالتے آپ کی نظر اکثر خود پر سے ہٹ جاتی ہے۔آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ کسی کے عیبوں پر پردہ ڈالا کریں،اللہ آپ کے عیبوں پر سے چشم پوشی کرے گا۔ورنہ سب جانتے ہیں کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں اور کوئی بھی سراہنے کے قابل نہیں۔اللہ اس دھرتی پر رحم کرے ،جس کے محافظ ہی اس کی نیا ڈبونے کے درپے ہیں۔۔۔

AR Tariq

AR Tariq

تحریر : اے آر طارق
03074450515
03024080369