نفسیاتی جہیز

Hasband and Wife

Hasband and Wife

تحریر: افضال احمد
ہر کام میں کامیابی کے حصول کے لئے اس کے آغاز سے پہلے ہی انسان بہت سی باتوں کو معلوم کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ ان میں سے کچھ باتیں بہت ہی بنیادی حیثیت رکھتی ہیں اور وہ ہیں کیوں؟ اور کیسے؟ یعنی مقصد اور راستہ۔ میاں بیوی کے درمیان رشتہ ایک مقدس رشتہ ہے۔ یہ مقدس رشتہ دراصل ایک نیا سفر اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہے۔ اس سفر میں بہت سے پیچیدہ اور انجانے موڑ بھی آتے ہیں کہ جن سے صحیح و سالم گزرنے کے لئے پہلے سے تیاری کرنا بہت ضروری ہے۔

لہٰذا میرے خیال میں ہر لڑکے اور لڑکی کو شادی سے قبل شادی کے بعد والی زندگی کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنا چاہئے تاکہ وہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے نقصان نہ اٹھائیں۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں پر اس حوالے سے توجہ دیں۔ انہیں باقاعدہ تعلیم دیں کہ شادی کا حقیقی مقصد ہے کیا؟ کس طرح ایک شادی کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے؟ شوہر’ ساس’ سسر’ نند’ بھاوج’ دیور’ جیٹھ اور دوسرے سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ کس قسم کا رویہ رکھنا چاہئے۔ ان ساری باتوں کو نفسیاتی جہیز کہا جا سکتا ہے۔ آج کل کے دور میں تقریباً 95 فیصد لڑکیاں نفسیاتی جہیز سے محروم ہیں اور ٹرکوں کے ٹرک جہیز کا سامان لے جا کر بھی گھر نہیں بسا پاتی۔ میرے نزدیک ٹرکوں والے جہیز سے زیادہ اہمیت نفسیاتی جہیز کی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ آج کل کے جیسے حالات ہیں سکول’ کالجز میں ازدواجی زندگی کے بارے میں تعلیم دینی چاہئے۔ لڑکی اور لڑکے کو شادی کے بعد کی زندگی کی تعلیم دینا آج کے ہمارے معاشرے میں ضروری ہو چکی ہے جس پر ہمارے حکمرانوں سمیت والدین کی بھی توجہ نہیں ہے۔ میری جاننے والی ایک لڑکی ہے بہت امیر گھرانے سے تعلق ہے اُس لڑکی کا شادی کے موقع پر اُسے والدین نے تین ٹرک سامان جہیز میں دیا دنیا کی ہر چیز بیٹی کو دی لیکن اپنی بیٹی کو نفسیاتی جہیز سے محروم رکھا بدتمیز لڑکی تھی اُسے چھوٹے بڑے سے بات کرنے کی تمیز نہیں تھی یہاں تک کہ اپنے خاوند سے کیسے بات کرنی ہے کیسے نہیں’ انجام یہ ہوا کہ اُس لڑکی کو تین مہینے میں طلاق ہو گئی۔میں کہتا ہوں خدمت میں عظمت ہے غریب سے غریب لڑکی کا بہترین جہیز یہ ہی ہے کہ وہ خاوند کی بے پناہ خدمت کرے’ خاوند کو چیزوں کی نہیں بلکہ محبت کی ضرورت ہوتی ہے جو آج کل خاوند کو ایک بیوی نہیں دے پا رہی اس کی وجہ یہی ہے کہ والدین اپنی بیٹیوں کو نفسیاتی جہیز نہیں دے رہے بس ٹرکوں میں اے سی’ فریج’ بیڈ’ صوفہ سیٹ وغیرہ وغیرہ بھر کر دے رہے ہیں جو کہ اکثر ہی طلاق کے باعث واپس لڑکی والوں کے گھر چلے جاتے ہیں۔

Dowry

Dowry

نفسیاتی جہیز کیا ہے؟ میں اپنی ناقص عقل کے مطابق تھوڑا سا بتانا چاہوں گا شاید میری وجہ سے میری بہت سی بہنوں کے گھر ٹوٹنے سے بچ جائیں۔ والدین اپنی بیٹی کو سمجھائیں کہ آج اس گھر سے تو پہلی بار ایک نئے گھر کی طرف جا رہی ہے۔ یہ بڑی خوشی کا وقت ہے کہ آج سے تیرے پاس دو گھر ہیں۔ وہ گھر جہاں تُو نے اب تک زندگی گزاری اور وہ گھر جہاں تُو آئندہ زندگی گزارے گی۔ انشاء اللہ آج سے تیرے شب و روز میں والدین کے علاوہ ایک اور رفیق و شفیق داخل ہو رہا ہے آج سے تو صرف ایک بیٹی ہی نہیں بلکہ ایک بیوی بھی ہے۔ اپنی بیٹی کا ذہن بنائیں کہ بیٹی ہم نے آپ کی بہت مشکل سے شادی رچائی ہے اپنی اس شادی کو کامیاب کرنا اور ہمارے سر فخر سے بلند کرنا۔ بیٹی آج تک آپ اپنے والدین کی آنکھوں کا تارا تھی اور ہماری بہت ہی لاڈلی بیٹی تھی اب آپ نئے گھر میں جا رہی ہو پورے گھر کو جوڑ کے رکھنا کوئی ایسی حرکت نہ کرنا کہ لوگ ہماری تربیت پر شک کریں۔ کوئی ایسا کام مت کرنا کہ کوئی بھی یہ کہے کہ یہ ایسی ہے تو اس کے والدین بھی ایسے ہی برے انسان ہوں گے۔

اپنی بیٹی کو سمجھائیں کہ ایک کامیاب بیوی کے لئے بہت سی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے اسے کبھی سیاستدان بننا پڑتا ہے’ کبھی ڈپلومیٹ’ کبھی ٹیچر’ کبھی خادمہ’ کبھی نرس’ کبھی سیکرٹری’ کبھی باورچن’ کبھی میزبان’ کبھی درزن’ کبھی دھوبن’ کبھی جنرل منیجر’ کبھی دوست’ کبھی ایکٹریس’ کبھی اکائونٹنٹ اور کبھی کبھی بیوی بھی اور ہر کردار کا ایک ہی مقصد ہو گا شوہر کو عظیم بنانا میرے خیال سے اگر ہر بیوی یہ سب کام کرے تو اس کے شوہر کی پورے خاندان میں عزت بن جائے گی اور اس کی بیوی کے پورے خاندان والے گُن گائیں گے لیکن افسوس کہ آج کل کی بیویاں اپنے شوہر کی خدمت نہیں کرتیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کو نفسیاتی جہیز نہیں دیا جا رہا۔ جہیز میں بس روپیہ پیسہ’ لکڑی کا سامان الیکٹرانک چیزیں یہ سب دی جا رہی ہیں لیکن عقل نہیں دی جا رہی۔

Marriage

Marriage

یہاں مجھے والدین کی لاپروائی کے بارے میں ایک واقعہ یاد آ گیا ہے جسے آپ سب کے سامنے رکھنا بہت ضروری ہے۔ لاہور میں ایک صاحب کی بیٹی کی شادی ہونی تھی۔ اس نے ایک سال پہلے اس کی پلاننگ شروع کر دی۔ کارڈ چھپوائے پیسے خرچ کئے’ حتیٰ کہ اس نے یہاں تک انتظام کیا کہ اس نے بارات کے ساتھ آنے والے ہر مہمان کے گلے میں ایک ہزار روپے کا ہار ڈالا۔ اور وہ برتن جن میں باراتیوں نے کھانا کھایا وہ پتھر کے بنے ہوئے انمول قسم کے برتن تھے۔ وہ برتن اس نے خود بنوائے تھے’ ان برتنوں پر اس نے اس شادی کی یادگار بھی لکھوائی تھی۔ ہر باراتی کو اجازت تھی کہ وہ اپنے استعمال میں آنے والے برتن یاد گار کے طور پر لے جا سکتا تھا۔ ادھر لڑکے والوں نے بھی کیا خوب انتظام کیا کہ چڑیا گھر سے کرائے پر ہاتھی لے آئے’ دولہا میاں اس ہاتھی پر بیٹھ کر سسرال پہنچا جیسے جنگ کرنے چلا ہو’ اس کے علاوہ بھی انہوں نے پیسہ پانی کی طرح بہایا۔جب رخصتی ہو گئی اور مرد گھر واپس آئے تو عورتوں نے لڑکی کے والد سے پوچھا کہ حق مہر کتنا مقرر کیا ہے؟ اس وقت ان کو خیال آیا کہ ہم نے تو نکاح پڑھا ہی نہیں ہے۔

تب انہوں نے باراتیوں کی طرف پیغام بھجوایا کہ بارات کو یہیں راستے میں ہی روک لیا جائے تا کہ لڑکی کا نکاح کرنے کے بعد اس نئے گھر میں داخل کیا جائے۔ اندازہ کیجئے کہ اتنے پیسے خرچ کئے اور اتنے عرصے سے پلاننگ کی ‘ ہر چیز کا تو خیال رکھا لیکن اللہ کے حکم کا خیال نہ رکھا۔ یہ دین سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ دینداری کی بنیاد پر اپنے نئے گھر کی بنیاد رکھتے ہیں وہ دنیا ہی میں جنت کے مزے لیتے ہیں۔ اس واقع کو اگر آپ سب غور سے پڑھیں تو اس واقع میں آپ کو جہیز کے ٹرکوں میں تو بہت کچھ ملے گا لیکن جن والدین کو خود نفسیاتی جہیز کا پتہ نہیں ہے تو انہوں نے اپنی بیٹی کو کیا نفسیاتی جہیز دیا ہو گا۔

میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے ایسے گھر دیکھے ہیں جہاں لڑکیاں ظاہری جہیز میں دو کپڑے لاتی ہیں لیکن نفسیاتی جہیز سے دماغوں کو والدین نے بھرا ہوا ہوتا ہے اور یہ غریب لڑکیاں اپنے شوہر اور سسرال والوں کی ایسی خدمت کرتیں ہیں کہ سب کے دماغ سے ہی نکل جاتا ہے کہ یہ لڑکی جہیز میں کیا لائی تھی۔ دراصل ہم سب نے جہیز جہیز جہیز کی رٹ لگا رکھی ہے’ گھر بسانے والی لڑکی ہونی چاہئے بغیر جہیز کے بھی سارے سسرال کے دل جیت لیتی ہے۔ محبت اور اخلاق ایسی چیز ہے کہ پتھر سے پتھر دل کو پگھلا دیتی ہے۔ جہیز کے خلاف بہت سے تحریریں میری نظروں سے گزری ہیں لیکن کبھی کسی لکھنے والے نے خود سے شروعات نہیں کی’ میں سب سے پہلے خود سے شروع کرتا ہوں مجھے جہیز کی ضرورت نہیں لیکن اچھے خاندان کی ضرورت ہے۔

Afzaal Ahmad Logo

Afzaal Ahmad Logo

تحریر: افضال احمد