کیا یہی تحریک انصاف کا انصاف ہے؟

PTI

PTI

تحریر : محمد اشفاق راجا
ہمارے ہاں ہوا یہ کہ کمپنی بنانے کے ضمن میں نام تو حسن نواز اور حسین نواز کا آیا اور ٹارگٹ وزیراعظم کو کر لیا گیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جو حضرات اپنی آف شور کمپنیوں کی موجودگی کا اعتراف کر رہے ہیں، وہ اب بھی عملاً ایسا طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہیں کہ ہم نے تو جو کیا وہ ہمارا حق تھا، لیکن وزیراعظم کے بیٹوں نے کمپنیاں کیوں بنائیں اور کاروبار کیوں کیا؟ وزیراعظم نواز شریف نے اِس سلسلے میں جو موقف اختیار کیا وہ یہ ہے کہ مخالفین کو اْن کے بیٹوں کے کاروبار یا اْن حالات سے کوئی سرو کار نہیں، جن میں کاروبار کیا گیا، تو اس کے پردے میں اْنہیں ہدف بنانا چاہتے ہیں اور اِسی لئے ان سے استعفا طلب کر رہے ہیں جس سے انہوں نے انکار کر دیا۔ اب سپریم کورٹ کے خط کی روشنی میں حکومت کو اپنا لائحہ عمل بنا کر اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنا چاہئے اور اگر ممکن ہو تو اتفاق رائے کے ساتھ ٹی او آرز بھی بنا لینے چاہئیں اور جس قانون سازی کی طرف سپریم کورٹ کے خط میں توجہ دلائی گئی ہے وہ قانون بھی بنا لینا چاہئے۔

البتہ اِس عرصے میں جو سیاسی گرد اْڑائی گئی وہ بہت اْڑ چکی اور اِس گرد نے حقائق کا چہرہ بڑی حد تک دھندلا دیا ہے، یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ حکومت اور اپوزیشن اگر تحقیقات میں سنجیدہ ہیں تو سپریم کورٹ کے خط کی رہنمائی میں آگے بڑھیں۔ الزام تراشی اور جوابی الزام تراشی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔سپریم کورٹ نے ضروری معلومات، کوائف کی فراہمی اور قانون سازی کے بغیر پانامہ پیپرز پر انکوائری کمیشن بنانے سے انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ حکومت کے وسیع ٹی او آر کے تحت کارروائی مکمل کرنے میں برسوں لگ جائیں گے، انکوائری کمیشن کی تشکیل سے قبل متعلقہ افراد، خاندانوں، گروپس اور کمپنیوں کی فہرست اور تعداد سے آگاہ کیا جائے۔

پاکستان کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی ہدایت پر سپریم کورٹ کے رجسٹرار ارباب محمدعارف نے وزارتِ قانون کے سیکرٹری کو جوابی خط لکھ دیا ہے،جس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ مطلوبہ معلومات اور کوائف کی فراہمی تک مجوزہ انکوائری کمیشن بنانے یا نہ بنانے کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت کے خط کی روشنی میں پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ مجریہ1956ء کے تحت انکوائری کمیشن بنانا بے سود ہو گا ایک غیر موثر کمیشن مفید مقاصد کے حصول کی بجائے بدنامی کا باعث ہو گا اور یہ محدود دائرہ کار کا حامل ہو گا،خط میں کمیشن کے قیام کے معاملے کو مناسب قانون سازی کے ذریعے حل کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔سپریم کورٹ کے جوابی خط کے بعد کمیشن کی تشکیل کا معاملہ اس مقام کی طرف لوٹ گیا ہے۔

Supreme Court

Supreme Court

جب وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو کمیشن کی تشکیل کے لئے خط لکھا تھا، اِس دوران حکومت کے خلاف اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی مہم جاری رہی جس میں الزام تراشی کا سلسلہ بھی عروج پر رہا، جلسے بھی ہوتے رہے اور وزیراعظم سے یہ مطالبہ بھی کیا جاتا رہا کہ وہ استعفا دے دیں۔ اگرچہ مطالبہ تو اب بھی کیا جا رہا ہے، لیکن اپوزیشن کی نو جماعتوں نے اپنے دو طویل اجلاسوں میں مشاورت کے بعد جو15 نکاتی ٹی او آر بنائے تھے، اس موقعہ پر وزیراعظم سے استعفے کا متفقہ مطالبہ نہیں کیا تھا۔ حکومت نے یہ ٹی او آر مسترد کر دیئے البتہ یہ موقف اختیار کیا کہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر اِس مسئلے پر مشاورت کی جا سکتی ہے یا باالفاظِ دیگر از سر نو ایسے ٹی او آر بنائے جا سکتے ہیں جن پر فریقین متفق ہوں۔

سپریم کورٹ نے اپنے خط میں جن امور کی جانب توجہ دلائی ہے اْن کی من پسند توجیحات کی بجائے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو وہ کچھ کرنا چاہے جو اس خط کا منشا ہے، خط سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ کمیشن آف انکوائری ایکٹ مجریہ1956ء کے تحت کمیشن کی تشکیل اب نہیں ہو گی اور اگر حکومت تحقیقات کرانا چاہتی ہے تو اِس خط ہی کو رہنما بنا کر نئی قانون سازی کرنا ہو گی۔ گویا جب تک قانون بن نہ جائے کمیشن نہیں بن سکتا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ موجودہ کشیدہ ماحول برقرار رہے گا۔

ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا 2013ء کے الیکشن میں منظم دھاندلی کے الزام کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ نے ایک جوڈیشل کمیشن بنایا تھا، جس کے لئے صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا تھا اور کمیشن کے لئے ضوابط کار حکومت اور اپوزیشن نے نہ صرف مل کر طے کئے تھے، بلکہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ نتیجے کی صورت میں کون سا فریق کیا کرے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ کمیشن نے جب اس الزام کو درست تسلیم نہ کیا کہ الیکشن میں منظم دھاندلی ہوئی تھی تو الزام لگانے والوں نے اس پر معذرت بھی نہیں کی، جس کے وہ تحریری طور پر پابند تھے۔

Panama Papers

Panama Papers

پانامہ پیپرز جب منظرِ عام پر آئے تھے تو اْن میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم کے صاحبزادوں نے آف شور کمپنیاں بنا رکھی ہیں اِس سے زیادہ معلومات ان پیپرز میں نہیں تھیں ان کے مطالعے سے یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ ان کمپنیوں کا سرمایہ کتنا ہے اور یہ سرمایہ کہاں سے گیا تھا؟ اگر پاکستان سے سرمایہ بھیجا گیا تھا تو کیا یہ قانونی تھا یا غیر قانونی؟ اِس انکشاف کے بعد جو شور اْٹھا اس میں باقی سب کچھ تو دب گیا البتہ وزیراعظم پر سارا ملبہ منتقل کر دیا گیا، اِسی فہرست میں250 دوسرے پاکستانیوں کا ذکر بھی تھا جن کی آف شور کمپنیاں ہیں، لیکن نام چند ہی تھے، اِسی دوران مزید انکشافات بھی ہوئے اور پانامہ لیکس کی ایک دوسری فہرست بھی آ گئی، جس میں سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ بعض کاروباری اور مختلف شعبوں کی نامور شخصیات کے نام سامنے آنے کے ساتھ ہی ایک طرز عمل بھی نمایاں ہوا کہ ہماری کمپنی یا کمپنیاں قانون کے مطابق ہیں۔

اگر ہر کسی کا دعویٰ یہی ہے کہ اْن کی کمپنی قانونی ہے اور قانون اْسے ایسی کمپنی بنانے کا حق دیتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قانون صرف چند افراد کے لئے مخصوص ہوتا ہے یا ہر کسی کے لئے یکساں ہوتا ہے؟ مثلاً آج ہی لندن سے عمران خان کا ایک بیان اخبارات میں شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے1983ء میں برطانیہ میں ایک آف شور کمپنی بنائی تھی جس کا مقصد برطانوی ٹیکس سے بچنا تھا۔اس کمپنی کے ذریعے عمران خان نے لندن کا فلیٹ خریدا اور بیچا، اب سوال یہ ہے کہ برطانوی ٹیکس سے بچنے کے لئے کوئی کمپنی بنانا محض عمران خان کا حق ہے یا کوئی دوسرا بھی اس قانون سے مستفید ہو سکتا ہے؟ جس برطانوی قانون کے تحت عمران خان نے1983ء میں کمپنی بنائی جو دوسرے لوگ بھی اِسی قانون کے تحت کمپنیاں بنا رہے تھے۔

کیا اْن کی کمپنیاں قانونی نہیں ہیں؟ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی قانون کے تحت بننے والی ایک کمپنی تو جائز ہو اور دوسری ناجائز۔کیا یہ انصاف ہے جو اعتراف جرم کرے اسے معاف کردیا جائے ؟اور اگر کسی کا نام جرم کرنے والی لسٹ میں بھی نہ ہو اور پھربھی فرد جرم عائد کر دیا جائے۔کیا یہی انصاب ہے ؟یقیناً کل کا مورخ انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گا۔کون قصور وار تھا اور کون بے گناہ تھا ۔یاد رکھیں اﷲکے ہاں دیر ہوسکتی ہے لیکن اندھیر نہیں۔

Muhammad Ashfaq Raja

Muhammad Ashfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجا