عوام اور حکومت کی ذمہ داریاں!

Society

Society

تحریر: عقیل ارشد بٹ
ہر سو انسان ہی انسان ہیں ،لیکن انسانیت نہیں، انسانیت سسک رہی ہے۔ کہیں گلیوں میں، کہیں چوراہوں پر۔ اس با ت کو ثابت کرنے کیلئے اگر ضرورت محسوس کروں تو سمجھیں کہ راقم کے اندر بھی انسانیت نہیں۔ انسانیت جب مر رہی ہے تو معاشرے کی اس بھیڑ میں چند ایسے بھی ہیں جو زند ہ ہیں۔ یہ بظاہر تو سا نس لے رہے ہیں لیکن ان چند میں سے کچھ کی سا نس بہت سو ں کو موت کی طر ف دھکیل رہی ہے۔ کچھ اپنے شعور ، انسانی رویے اور اخلاق کی بناء پر زندہ ہے جن کو مردہ کرنے کے لئے ہر حربہ بروئے کارلایا جا رہا ہے۔ اس کوشش میں کون کون شامل ہے ؟ تو بتاتا چلوں کہ اس میں غیروں کے بجائے گھر کے بھیدی زیادہ حصہ ڈا ل رہے ہیں ۔ ان علم والوں کو مردہ کرنے کیلئے چند علم والے ڈر، خوف سے سوئے ہوئے ہیں یا خواب ِ غفلت میں ہیں یا پھر کہہ سکتے ہیں کہ جان بوجھ کر آنکھیں بند کیے ہو ئے ہیں ۔کچھ جن کو خدا پر پختہ یقین ہے اور ان کو معلوم ہے کہ اس دنیا میں نام اسی کا باقی رہتا ہے جس نے عملاََ انسانیت کی بہتری کیلئے ایسے کا م اور کوشش کی ہو جس سے معاشرے میں بہتری آ ئے۔ اورطر ز زندگی اس لیول پر نہ آئے کہ جس سے ہمارا معاشرہ پوری دنیا میں بد بو دار مثال بن کر رہ جائے۔

معاشرے کی اصلاح کر نے والے باذوق، اعلیٰ اقدار اور درویش لوگ اپنا عمل وقف کر دیتے ہیں ۔ یہ وہی لوگ ہو تے ہیں جو اپنی ذات سے نکل کر انسانیت کیلئے سو چتے ہیں ، معاشر ے کیلئے سو چتے ہیں۔ جب پورے معاشر ے کے مفا د میںسو چا جاتا ہے ۔ توانا ء اور ذاتیات کو مد نظر نہیں رکھا جاتا۔ وہ کچھ نہیںکر سکتے جو بازاروں ، چوراہوں کے سٹیجوں پر کھڑ ے ہو کر سر عام لمبی لمبی تقر یر ں کر کے اپنے حلقہ احبا ب میں اپنے شعو ر کی تعر یف کے عا دی ہو ں۔ اب ایسا بھی نہیں کہ عمل کر نے والے ہمیں نظر نہیںآتے۔ بہت سے لو گ ہیں۔بہت سی مثا لیں ہیںجودرج کر سکتے ہیں ۔ مگر یہا ں پر بات صرف اتنی کہ اعمال کا دارو مد ار نیتوں پر ہوتا ہے اور کسی مفکر نے کیاخو ب کہا ہے کہ ہماری نصیحت کسی پر تب اثر کرتی ہے جب ہماری سوچ، نیت اور عمل پا ک ہوں ۔ معاشرے کی فلاح کیلئے بہت سے نیک اور پارسا لوگ موجود ہوں۔

وہی جن کے دعوے بہت بڑ ے ،پھر یہاں عقل نہیں مانتی کہ ایسی کون سی وجہ ہے کہ تبدیلی نظر نہیں آتی۔ خاص طور پر علم ہونے کے باوجود جہالت کا زور ہے۔ اس کی وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ ہم عوام یہ سوچتے ہیں کہ مولوی نے اسلام سنبھال لیا ، حکومت نے انصاف قائم کر دیا۔ پولیس نے چوری ڈاکے کنٹرول کر لیے ہیں اور علم ہما رے بچو ں کو سکول و کا لج سے مل جا ئے گا۔ کیا ہم سب کی ذمہ داری نہیں بنتی ؟ آ یا وہ ذمہ داری سے دست بردار ہو جاتے ہیں صرف لوازمات پورے کر کے، کہ مولوی اسلام سنبھال لے گا ، حکو مت انصاف قائم کر دے گی ،پولیس ڈاکے روک دے گی اور والدین سکول کالج کے قائم ہونے کے بعدیہ بھول جاتے ہیں کہ بچو ں کی پہلی درسگا ہ کیا ہے ۔ ۔ معاشرے میں بہتر ی لا نے کیلئے ایک ایک فر د کیانہیں کر سکتا ؟ برطانیہ ایک جد ید اور ترقی یا فتہ ملک ہے۔ جہا ں فیشن و ٹیکنا لو جی کا راج ہے۔ وہاں پر آپکو اپنے آ س پاس کے لوگوں کو اسلام کی راہ پر لا نا اور قرآن پاک کو لفظ با لفظ ترجمے کیساتھ سمجھانے کی کوشش کرنا بہت ہی غیر معمولی کاوش ہے۔

Fashion

Fashion

ایک طرف نئے فیشن کی بھر مار ہو تو اس عورت ذات کی اس دور میں اور وہ بھی برطانیہ جیسے ملک میں کامیابی کو غیر معمولی کامیابی کہہ سکتے ہیں۔جو ایک زند ہ مثال ہے۔ اس طرح معاشرے میں دینی تعلیم کے فروغ کیلئے جو کوشش کی جا رہی ہے اس سے بڑ ا جہا د آج کے دور میں نہیں ہو سکتا ۔محتر مہ فائزہ غنی صاحبہ جو بچپن سے برطانیہ میںرہ رہی ہیں ان کی نیچر کو دیکھ کر محترمہ سلمیٰ بتول صاحبہ جو پاکستان میں خواتین میں اسلامی تعلیم کے فروغ کیلئے نمایاں نام رکھتی ہیں۔ انہوں نے محتر مہ فائزہ غنی صاحبہ کو اپنی نظر سے پہچان لیا کہ وہ بر طانیہ میں قرآن پاک کی تعلیم کے معاملے میں دوسروں کی فلاح کیلئے اچھا کام کر سکتی ہیں ۔ اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ایک استاد کا انتخاب غلط ثابت ہو۔

کچھ عرصہ سے محترمہ فائزہ غنی صاحبہ نے اپنے گھر میں ایسا نظام ترتیب دے رکھا ہے کہ ہر ہفتے میں ایک دن ایک کلا س کا انعقاد کیا جا تا ہے۔ جس میں قریب اور مقامی شہری خواتین آ تی ہیںاور قرآن پاک کو ترجمے کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے اور ساتھ ہی اسلا می تعلیم ، حدیث اور حضور پا ک ۖ کی طر ز زندگی کے بارے میں درس دیا جاتا ہے۔ محترمہ کے بقو ل انہوں نے ایسی کلاس کا آغاز کیا توشروع میں صرف چند عورتیں آ تیں تھیں اور اب تعداد میں بہت اضافہ ہو گیا ہے یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے آ ہستہ آہستہ دلچسپی پید ا کی ، ایک بہت اچھی مثال دے کر کہ اگر کو ئی بہت تیز گاڑی چلا رہا ہو تو اس کی تیز رفتاری آہستہ آہستہ کم کی جاتی ہے ۔اگر ایک دم بریک لگائی جائے گی تو نقصان کا خدشہ ہو تا ہے۔ اسی طرح خواتین میں ترجمے کیساتھ قرآن پاک پڑھنے کا شوق بڑھتا گیا ۔ اوراسی طر ح وہ اپنا مشن جاری رکھے ہوئی ہیں۔

Defects

Defects

میں مانتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں بہت سی خرابیاں ہیں اِن کے ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا مگر حرکات سے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی کتنا اچھا ہے خاص طور پر جب کسی کی سوچ ظاہرہوتی ہے یا اس کی پلاننگ کا پتہ چلتا ہے تو حقیقت واضح ہوتی ہے کہ کیا ہو رہا ہے ۔
شبِ تاریک ہوں نورِ سحر ہونے کی خواہش ہے
میں ایسا ہو نہیں سکتا مگر ہونے کی خواہش ہے
بڑی سادہ سی مثال دی جاتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ہر کوئی قانون کی پاس داری کرتا ہے لوگوں کو انصاف گھر کے دروازے پر ملتا ہے معاملہ چاہے کوئی بھی ہو اسکے نتائج مقررہ وقت پر مل جاتے ہیں سب کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں معاملے کے حل ہونے میں کتنے دن لگیں گے اور ایک ہمارے ملک میں صورت حال بلکل اسکے اُلٹ ہے یہا ں تو یہ حال ہے کہ بندے کو اگر کسی ادارے سے کوئی واسطہ پڑ جائے تو بندہ اس ادارے سے پیچھے کی طرف بھا گتا ہے۔

ہر ایک کا یہی خیال ہوتا ہے کہ مجھے خدا نخواستہ ملک میں کسی بھی ادارے سے کوئی کام نہ پڑ جائے اور اگربد قسمتی سے کسی مسئلے میں کسی ادارے سے واسطہ پڑ جائے تو پھر بندے کا ایسا حشر ہوتا ہے کہ وہ اپنا مسئلہ بیان کرنے سے پہلے ہی بھو ل جاتا ہے کیا بات کی تھی ترقی یافتہ مما لک کی توعرض کرتا چلوں کہ برطانیہ میں بڑی تعداد میں پاکستانی شہری رہتے ہیں جب ان سے ان کے کاروبار کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ بڑی احتیاط سے بتاتے ہیں یہ تو پوچھنے کی حد تک ،تو پھر یہ سوچیئے کہ جب وہ اپنا کوئی کام کسی آ فس سے کرواتے ہیں،تو پھر کتنی احتیاط برتتے ہوں گے لیکن میرے ملک پاکستان میں ایسی باتیں اُدھوری سی لگتی ہیں لندن میں جب کوئی نیا گھر خریدتا ہے تو اس کو اپنی انکم شو کرنا ہوتی ہے اور یہ بھی بتانا ہوتا کہ اس کے گھر میں کتنے افراد رہ رہے ہیں ،اور اس کی بچت کیا ہے اور اس کے اخراجات کتنے ہیں ان تمام معاملات کی جانچ پڑ تال کی جاتی ہے، اور اگر کسی نے کوئی بزنس کرنا ہو۔

Carefully

Carefully

تو اس وقت بھی اس کو ایسی صورت ِحال پیش آتی ہے ،اس وجہ سے ہر بندہ بہت احتیاط سے کام لیتا ہے کیو نکہ اگر احتیاط سے کام نہیں لے گا تو پھر بہت سے معاملات جو کہ مانیٹر کیے جاتے ہیں مثال کے طور پر کہ اس کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا اور اس کا سورس آف اِنکم کیا ہے کیونکہ غلط معلومات فراہم کرنے پر اس کا خلاف کورٹ کیس بھی چل سکتا ہے اس طرح چیک اینڈ بیلنس سے معاشرتی خرابیوں کی روک تھام ہو جاتی ہے برطانیہ جیسے ملک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں کی عوام بہت خوشحال ہے ،تعلیم اور میڈیکل کی سہولتیں ہر فرد کو یکساں دی جاتی ہیں وہاں جب کوئی پراپرٹی یا اپنے بزنس کو بڑ ھاتا ہے تو اس کو اُس نوعیت کا ٹیکس ادا کرنا پڑ تا ہے اور ایک ہمارا ملک ہے کہ یہاں پر ٹیکس ادا کیا ہی نہیں جاتا ،اگر کیا جاتا ہے تو وہ بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے اب سوال یہ ہے۔ کہ ترقی یا فتہ ممالک میں عوام ٹیکس حکومت کی سختی سے ادا کرتی ہے؟۔

جواب بالکل سادہ ہے کہ وہاں حکومت عوام کو بہت حد تک گنجائش دیتی ہے لیکن اگر کوئی حد کراس کرتا ہے تو اس کو مکمل سزا دی جاتی ہے اس لیے کوئی ٹیکس چوری کے بارے میں سو چتا بھی نہیں ،یہ اس وجہ سے ہے کہ اس کا چیک اینڈ بیلنس کا نظام بہت اچھا ہے ، حکومتی ادارے تمام معلومات رکھتے ہیں اور اس کے مطابق ہی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں ،جس وجہ سے عوام خوش دلی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں اگر وہاں کسی کا کاروبار اس کے ادا شدہ ٹیکس کے لحاظ سے زیادہ ہو تو وہ خود بخود قانون کی گرفت میں آ جاتا ہے ، ہمارے ملک پاکستان میں بھی حکومتی منصوبے عوام کی بہتری کے لئے ہوتے ہیں مگر دیکھا یہ جا رہا ہے کہ کارکردگی دیکھانے کے لئے کچھ لوگ پورے وقت سے کام نہیں لیتے تو نقصان عوام کا ہوتا ہے اور اگر ایسا ہوتا رہا تو پتھر گرتے رہیں گے اور جانیں جاتی رہیں گی۔

Aqeel Arshad Butt

Aqeel Arshad Butt

تحریر: عقیل ارشد بٹ