عوامی مفاد مزید گھوم چکریوں میں

PEMRA

PEMRA

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
وفاقی حکومت نے اوگرا ،پیمرا ،پی ٹی اے ودیگر ریگو لیٹری اتھاریٹیز کی خود مختاری پر قد غن نہیں لگائی بلکہ اسے مکمل ختم کرکے انہیں وزارتوں کے ماتحت کرکے عوام کے حقوق پر ایک اور ڈاکہ ڈالا ہے کسی نے ایسا کرنے کا کوئی مطالبہ آج تک نہیں کیا پھر ایسا عمل صرف ملک میں مزید جمہوری آمریت قائم کرکے عوام کا خون چوسنے کے لیے کیا جارہا ہے تاکہ عوام کی گردنوں کے گرد آہنی شکنجہ مزید کسا جائے اور مہنگائی بڑھا کر اس میں سے حکومتی کار پرداز مزید مال سمیٹ سکیں اب چونکہ حکومت کا چل چلائو ہے اس لیے جلدی آن پڑی ہے کہ ڈائریکٹ قیمتیں حکمران خود بڑھائے اور کسی نچلی تجویز کی گنجائش ہی نہ رہنے دی جائے تاکہ جو معمولی ریلیف عوام کو نصیب تھا وہ یکسر ختم ہو جائے اسطرح بالآخرگھٹنے ٹیکنے پر مجبور عوام وزیروں اور حکمرانوں سے براہ راست مہنگائی کے خاتمے کی توقع رکھیں ناممکنات میں سے ہے کوئی اپنے مال میں پرائے افراد کو حصہ دار کیونکر بناسکتا ہے؟اور صنعتکار حکمرانوں سے ایسی توقع رکھنا “ایں خیال است و محال است وجنوں”بجلی گیس پٹرولیم مصنوعات کا مکمل کنٹرول وفاقی حکومت نے خود سنبھال لیا ہے ۔گیس مالکان سے بھی کہا ہے کہ وہ گیس کی قیمت خود بھی مقرر کرسکتے ہیں۔

وزیر اعظم کی منظوری کاباقاعدہ نوٹیفکیشن جاری ہوچکا خود مختار اداروں کو وزارتوں کی تابعداری میں دینے کے عمل سے عوام کے حقوق بہرحال دب کر رہ جائیں گے یہ اقدام ایسے حکمرانوں کی طرف سے کیا گیا ہے جو عوام کو ریلیف دینے کے بلند و بانگ دعوے کرتی رہتی ہے۔اور خود کو پھر بھی آمرانہ طرز فکر اپناتے ہوئے نام نہاد جمہوریت کا حامی قرار دیتی ہے۔ان اداروں سے قیمتوں کے آزادانہ تعین اور دوسرے معاملات کسی سیاسی دبائو کے بغیر طے ہوتے تھے۔اور انھیں قائم کرتے ہوئے دعویٰ بھی کیا تھا کہ ان اداروں کے قیام سے حکومتی مناپلی قائم نہ ہونے دینامقصد ہے۔ ویسے تو پہلے بھی یہ ادارے قیمتوں کے تعین کی صرف سفارش ہی کرسکتے تھے ۔ جسے بالآخر منظوری یا مسترد کرنے کا ٹھپہ حکومت ہی نے لگانا ہوتا تھا اس سارے معاملے میں وزارتیں من مانی کرتی تھیں مثلاً اگر اوگرا ،بجلی یا پٹرول کے نرخوں میں خاطر خواہ کمی کی سفارش کرتا تو اس سے خاصی کم تخفیف کی جاتی جب نرخ زیادہ کرنے کی سفارش کی جاتی تو اضافہ دل کھول کر کیا جاتا تھا۔ اس طرح حکومتی کارپردازوں ،وزارتوں کا ذاتی مفاد وابستہ ہوتا تھا اس میں سے کئی فیصد منافع خود وزارتیں وصول فرماتیں اور پھر اوپر تک یہ مفاداتی گھن چکر جاری رہتا۔

بیرون ممالک اربوں ڈالرز پانامہ لیکس ،سوئس اکائونٹس وغیرہ میں کوئی آسمانی فرشتے نہیں جمع کرواڈالتے یہ سبھی حکمرانوں کی طرف سے عوامی خون پسینے کی کمائیوں سے چھینا جھپٹی کی ہی صورت ہے جس نے بیرون ملک سرمایوں کے انبار لگا ڈالے ہیں۔گو ان ریگولیٹری اداروں کی حیثیت محض نمائشی ہو کر رہ گئی تھی پھر بھی لوگوں کو کچھ تسلی تھی کہ یہ ادارے ان کے حق میں آواز اٹھانے والے بھی ہیں ان اداروں کو وزارتوں میںضم کرنے سے لوگوں کی یہ معمولی آس و امید ختم ہو گئی ہے اور عوام مکمل وزارتوں کے ارباب بست و کشاد کے فیصلوں کے رحم و کرم پر ہوں گے جمہوری نظام میں تو سبھی ادارے خود مختار ہوتے ہیں اور آزادانہ فیصلے کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان میں شفافیت ہوتی ہے۔اور عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف ملتا رہتا ہے۔

Democracy

Democracy

ہمارے ہاں رائج نام نہاد جمہوریت انوکھی لاڈلی نو بیاہتہ شرمیلی لڑکی کی طرح ہے جو کہ اپنی قسمتوں کا فیصلہ اپنے خاوندکی صوابدید پر سمجھتی ہے اس طرح اب تو وزارتیں بھی فیصلوں کے سلسلہ میں سربراہ حکومت کے اشارہ آبرو کی منتظر رہتی ہیں اس طرح سے تو بعض اوقات جمہوریت کے نام پر شخصی حکومت قائم ہونے کا شکوہ کیا جاتا ہے جس پرپیر کے روز حکومتی اقدام نے مہر تصدیق ثبت کردی ہے اس اقدام سے اب شفافیت اور آزادی قطعاً قائم نہ رہ سکے گی عوام کی امیدیں ٹوٹنے کے نتیجے میں عوام کی بے دلی میں اضافہ ہو گا اور وہ مزید مسائل اور مشکلات کا شکار ہوں گے۔ آمر کمانڈو مشرف کی آٹھ سالہ آمریت کے بعد جمہوریت بحال ہوئی تو چاہیے یہ تھا کہ اس سے آگے کا سفر کیا جاتا۔ملک بھر میں آزادانہ کام کرنے والے ادارے قائم کیے جاتے اور انھیں سیاسی اثر و رسوخ سے بچایا اور محفوظ رکھا جاتا اور یہ عوام کے حق میں پوری آزادی کے ساتھ فیصلے کرنے میں خود مختار ہوتے۔

لیکن لگتا ایسا ہے کہ ہم الٹاسفر کر رہے ہیں وزارتوں کا پابند ہو جانے اور ماتحت بنانے سے ان اداروں سے حکومت اپنے من مانے فیصلے کروائے گی صوبوں کی منظوری کے بغیر ریگولیٹرز کی خود مختاری کا خاتمہ آئین کے مطابق بھی نہ ہے اس لیے صوبے ریگو لیٹرز کی خود مختاری ختم کرنے کی مخالفت کرتے رہے ہیں یہ عمل ایک ایسی کالک ہے جو حکمرانوں نے اپنے چہروں پر مل کر روسیاہ کرلیا ہے ضرورت اس امر کی ہے نہ صرف اس فیصلے کو واپس لیا جائے بلکہ عوام کی بہبود اور انھیں ریلیف دینے کے لیے مزید اداروں کو ریگو لیٹری بنایا جائے۔جمہوریت پر مزید قدغنیں لگاتے رہنے سے شخصی آمریت کا تاثر ابھرتا ہے جس سے ہچکولے کھاتی ہوئی حکومتی نائو مکمل ڈوب بھی سکتی ہے عوام میں حکومتی مخالف جذبات جب مخصوص حدوں کو پھلانگ جائیں تو پھر کالے بکروں کی قربانیاں بھی رائیگاں چلی جاتی ہیں۔

شہنشاہ ایران کی طرح کھربوں ڈالرز کی جائدادیں بھی عوام بیرون ملک لے جانے کی قطعاً اجازت نہیں دیتے ایسے اقدامات خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے اور آ بیل مجھے مارنے کے مترادف ہے ۔عوام کے پاس مرنے اور مارنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہے گا کہ پہلے ہی چھ کروڑ اس قابل نہیں کہ دو وقت شکم سیر ہو کر روٹی کھا سکیں ساٹھ فیصد عوام کے سروں پر چھت نہیں سرکاری ملازمین تک جبر مسلسل کے دبائو میں ہیں ۔قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کرڈالا ہے خدا خیر کرے۔

Mian Ihsan Bari

Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری