عوامی نمائندوں کی عوامی حیثیت

Elections

Elections

تحریر : شیخ خالد زاہد

سماجی میڈیا عوامی مسائل کے پرچار کو بہت بہتر انداز میں عام کرنے میں کامیاب رہا ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ سماجی میڈیا پرندوں کی مانند سرحدوں کی قید سے آزاد ہے اور بغیر کسی دستاویزات کے نگر نگر گھومتا رہتا ہے اور تو اور یہ ضابطہ اخلاق اور حدودسے بھی آزاد واقع ہوا ہے، دنیا میں رونما ہونے والے واقعات اور عملی اقدامات کے پیچھے سماجی میڈیا اپنا کردار بھر پور طریقہ سے ادا کر رہا ہے۔ یقیناً زیادہ تفصیل میں جانے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے جس کی وجہ ہم سب اس کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور دوسرا یہ میرا موضوع بھی نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ دنیا سماجی میڈیا کے بعد حقیقی معنوں میں گلوبل ویلج کا عملی نمونہ پیش کر رہی ہے۔

آج کل پاکستان میں انتخابات کی بھر پور گہما گہمی شروع ہوچکی ہے اورجبکہ گزشتہ دنوں ہمارے پڑوسی ملک کے ایک صوبے میں بھی انتخابات ہوئے اور ان انتخابات کے حوالے سے کسی علاقے سے انتخاب میں کھڑے ہونے والا امیدوار اپنے علاقے میں لوگوں سے میل جول اور ووٹ مانگنے کیلئے پہنچے جس پر علاقے کے لوگوں نے ان صاحب کی (جو کہ صرف ایسے ہی دنوں میں دیکھائی دیا کرتے تھے) لاتوں ، گھوسوں اور جو کچھ دستیاب ہوسکا سے خوب آؤ بھگت کی اور ان صاحب کو عزت تو بچی نہیں جان بچا کر بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا۔ بد قسمتی سے مذکورہ سماج سیوک (عوام کی خدمت گزار)سیاسی جماعت کے رکن کی درگت بنتی وڈیو بھی کسی منچلے نے بنا لی اور سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ اسے سماجی میڈیا کے حوالے کردیاجس کے توسط سے ہم پاکستانی بھی بھرپور طرح سے نا صرف لطف اندو ز ہوئے بلکہ کچھ سیکھ بھی پکڑ لی۔ جسکا منہ بولتا ثبوت گزشتہ کل جنوبی پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان سے سال ہا سال سے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے سابق و مرحوم صدر فاروق احمد خان لغاری کے صاحبزادے جناب جمال احمد خان لغاری اپنے حلقے میں پہنچے تو لوگوں نے انہیں خوب آڑے ہاتھوں لیا اور اس بات کی یاد دہانی کروائی کہ وہ اسی طرح پانچ سال قبل اس جگہ تشریف لائے تھے اور انہیں ووٹ کی طاقت سے جتوایا بھی تھا مگر جیتنے کے بعد جمال خان لغاری صاحب نے پلٹ کر اپنے حلقے کے لوگوں کا شکریہ تو دور کی بات ہے پلٹ کر چکر تک نہیں لگایا۔اس سے سماجی میڈیا کی طاقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ گو کہ لغاری صاحب نے ان سے سوالات کرنے والے نوجوان کو دبے لفظوں میں دھمکایا بھی اور یہاں تک سنا گیا ہے کہ میں تمھارے برادری کا چیف ہوں۔یہ واقع سیاستدانوں کیلئے کچھ اچھا نہیں ، یہ لوگ عوام کے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتے اور نا بن سکتے ہیں۔

ہم چھوٹے چھوٹے علاقوں کی بات نہیں کرتے کہ وہاں کا نکاسی آب کا نظام بہت برا ہے ، وہاں سرکاری لائنوں میں پانی نہیں آتا ، گٹر کے ڈھکن نہیں ہیں، ہر گلی کا نکڑ کسی بہت بڑے کچرا خانہ کا منظر پیش کر تا دیکھائی دے رہا ہے اب تو ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے منتخب کردہ نمائندوں نے گزشتہ ۷۰ سالوں میں صرف اور صرف دو ڈیم بنائے جبکہ پاکستان کی آبادی پانچ کڑوڑ سے بڑھ کر پچیس کڑوڑ کو پہنچنے والی ہے۔ پانی کی ذخیرہ اندوزی کیلئے ناقص ترین حکمت عملی اس بات کی گواہی ہے کہ تقریباً پچیس سے تیس بلین روپوں کا سالانہ پانی ہم ضائع کردیتے ہیں۔ پاکستان کے پاس ڈاکٹر عبدالقدیر اور ڈاکٹر عطاء الرحمن جیسے نایاب لوگ موجود ہیں لیکن ہمارے منتخب نمائندے اپنے آگے کسی کی سنتے ہی کب ہیں سوائے اپنے بینک بیلنس بڑھانے کے زمینوں پر قبضے کرنے کے کچھ سوجھائی نہیں دیتا۔ انکی حوس انہیں اس بات کا بھی احساس نہیں ہونے دیتی کے یہ ملک نہیں رہا تو کیا کرینگے دراصل انہوں نے سوچ رکھا ہے کہ یہ ملک نہیں رہاتوکیا ہوا انکے پیسے کی طاقت انہیں کسی بھی ملک کا باشندہ بنوادے گی نقصان تو ہم عوام کا ہوگا اور ہم عوام ہی توان لوگوں کو ووٹ دیکر اپنی بربادی کا سامان کرنے کا اجازت نامہ دیتے چلے آرہے ہیں۔

جیسا کہ آج کل اخبارات کی سرخیاں اس ملک کی عوام کا مذاق اڑاتی محسوس ہو رہی ہیں۔ کہاں لوگ روٹی ، پانی، علاج اوردیگر بنیادی ضروریات کیلئے لڑ مر رہے ہیں وہیں ہمارے حکمران ہمارے ووٹوں کے محتاج کروڑوں اربوں روپے کے مالک ہیں۔ ہمیں اپنے آپ پر شرم آنی چاہئے کہ ووٹر کی عزت کی باتیں کرنے والے نا تو اس کے ووٹر کیساتھ ہسپتال میں علاج کروانا چاہتے ہیں اور نا ہی ووٹر کے نلکے میں آنے والا پانی پینا چاہتے ہیں، نا ہی یہ لوگ لوڈشیڈنگ کے عذاب کو جھیلتے ہیں ، ناہی یہ لوگ قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں اور نا ہی یہ لوگ ٹریفک کے جام ہونے کے عذاب سے واقف ہیں۔ یہ صرف اور صرف ہم سے ووٹ چاہتے ہیں اور انکا ہم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اگر ایوانوں میں انکے مباحثے سنیں تو لگتا ہے کہ جیسے یہ ذاتی مفادات کی جنگ لڑرہے ہیں اپنے آنے والے وقتوں کیلئے ایسے قوانین بنارہے ہوتے ہیں جن کی مدد سے انکی ہر حال میں چھوٹ ہوجائے یا انہیں استثناء مل جائے۔ ہمارے ملک میں تعلیم کا میعار تو نہیں بڑھ سکا لیکن کاروبار کی صورت میں بہت سود مند ثابت ہوا ہے ، بڑے بڑے اسکول تمام تر آسائشوں کیساتھ بھاری فیسوں کی وصولی کر رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ طالب علم کس ڈگر پر چل رہے ہیں۔ مشرقیت سے نابلد تعلیمی نظام مغرب کا علم بردار بنا ہوا ہے اور ہم خوشی خوشی اپنی نسلوں کو برباد کرنے کیلئے اس کنویں میں دھکیل رہے ہیں۔

امید کی جارہی ہے کہ پاکستان کی عوام گزشتہ کئی سالوں سے تلخ حالات کی آگ میں جل جل کر کندن بن چکے ہیں اوراپنی آنکھوں پر بندھی مختلف رنگ کی پٹیاں جن میں لسانیت کی پٹی ، فرقہ واریت کی پٹی، علاقائی تقسیم کی پٹی، حقوق پر قبضوں کی پٹی، ظلم اور بربریت کی پٹی، اسی طرح کی دیگر پٹیاں اتار کر پھینک چکے ہیں۔اب آنے والے انتخابات عوامی بیداری کی گواہی ثابت ہونگے ۔ پاکستانی عوام کو اب یہ فرق سمجھ آنے لگا ہے کہ کون ملک سے اور عوامی مسائل کو حل کرنے کا صحیح جذبہ رکھتا ہے کون ہے جو چاہتا ہے کہ پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرزونی سازشوں سے نجات دلایا جائے۔ ہمارا یہ ایک ووٹ نا صرف پاکستان کی امانت ہے بلکہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کے تابناک مستقبل کا بھی ضامن بن سکتاہے۔ اب ہم ان نمائندوں کو ایوان تک جانے کا پروانہ دینگے جو عوامی حیثیت کے حامل ہوں اور ان تمام بنیادی ضروریات زندگی کی اہمیت کو سمجھتے ہوں۔ جن کی ترجیحات موٹروے یا پلازوں یا ہاؤسنگ اسکیموں یا پلاٹوں پر قبضے نہیں بلکہ ہماری چھوٹی چھوٹی ضروریات تک رسائی کو یقینی بنانا ہو۔

Sh. Khalid Zahid

Sh. Khalid Zahid

تحریر : شیخ خالد زاہد