عوام حکمران اور ان کی توقعات

Election

Election

تحریر : ریاض احمد ملک بوچھال کلاں
ہمارے ہاں الیکشن برادری بیس پر ہوتے ہیں یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور نہ ہی اس بات پر کوئی اختلاف کرے گا ہمارے ہاں نظریاتی ووٹروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ سیاست دانوں کو عوام سے کوئی محبت نہیں ہوتی انہیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ اگر یہ شخص ہم سے ناراض ہو بھی جائے تو ان کی صحت پر کوئی فرق اس لئے نہیں پڑے گا کہ ان کی برادری کے چند بڑے ان کے ساتھ ہیں یہ شخص کہاں جا سکتا ہے اور اس شخص کو جس نے انہیں کامیاب کرانے کے لئے بڑی بڑی ناراضگیاں مول لی ہوتی ہیں وہ اسے گھاس بھی نہیں ڈالتے۔

یہ میرا ذاتی تجربہ ہے جس کی بنیاد پر میں یہ الفاظ تحریر کر رہا ہوں موجودہ حالات میں تو سیاسدانوں کا رویہ کچھ یوں بتا رہا ہے کہ جیسے انہیں ووٹرں سے کوئی غرض ہی نہیں ان کی جیت میں فرشتے اپنا کام دیکھا جائیں گے اور عوام جسے ووٹ دیتے ہیں اس سے بڑی توقعات بھی وابسطہ کر کے بیٹھے ہوتے ہیں انہیں اپنے قائد کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب وہ کسی جگہ پھنس جاتے ہیں انہیں تبادلہ کرانا ہوتا ہے یا تھانے دار کی چنگل سے نکلنا ہوتا ہے وہ بھاگ کر جب اپنے قائد کے پاس پہنچتے ہیں تو انہیں شدت سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا جب ان کے قائد مخالف کی حمایت اور انہیں میرٹ بتا رہے ہویت ہیں۔

اگر پاکستان میں کام میرٹ پر ہونے لگیں تو میرے خیال میں عوام کا رویہ بھی ان سے ایسا ہی ہو جیسا ہمارے لیڈروں کا مگر افسوس کہ یہاں ہر کام سیاست دانوں کی مداخلت سے ہی ممکن ہوتا ہے جب تک تھانے میں لیڈر کا فون نہیں آتا کوئی کسی کی سنتا بھی نہیں محکمہ تعلیم ہو یا صحت ان کے افسران صبح شام ڈیروں کی یاترا میں لگے ہوتے ہیں اور جب کوئی قائد کسی اس ووٹر کو جو اس کی کامیابی کے لئے اپنا تن من لگا چکا ہو اسے میرٹ کی نوید سنائے گا تو اس کے دل پر کیا گزرے گی جب اسے سارے معاملے کا علم بھی ہو کہ اس کا قائد کیا کر رہا ہے۔

Voters

Voters

اس کی آواز کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں اور وہ اس کام میں مداخلت بھی کر رہا ہے میں اس وقت ایک بات بڑے وثوق سے کیہ رہا ہوں کہ اس وقت جو کام ہو رہے ہیں وہ PTIکے ورکروں کے ہو رہے ہیں میاں شہباز شریف ہوں یا ملک تنویر اسلم سیتھی میاں نواز شریف ہوں یا میجر طاہر اقبال سب کہ سب کو یقین کامل ہے کہ وہ ایک نیا گروپ بنا رہے ہیں اور یہ مضبوظ گروپ PTIکے کارکنوں کا ہی ہے جو اس گنگا میں ہاتھ ہی نہیں دھو رہے بلکہ ننگے نہا بھی رہے ہیں اور مسلم لیگ ن کے متوالے تومایوسی کی دلدل میں پھنستے جا رہے ہیں۔

ان کا کوئی کام نہیں ہوتا بلکہ انہیں جان بوجھ کر ٹارچر کیا جاتا ہیکارکن کسی بھی پارٹی کا سرمایا ہوتے ہیں جن کے بغیر کسی پارٹی کی کامیابی ممکن نہیں ہوتی مگر مسلم لیگی قائدین کو اس بات پر یقین نہیں ہے وہ کارکن کو کھلونا سمجھتے ہیں فائدہ حاصل کیا اور جب مطلب نکل گیا اس کوٹھکرا دیا میں کچھ عرصہ قبل صوبہ سندھ کے ضلع سانگھڑ میں مقیم رہ چکا ہوں وہاں میں نے کئی الیکشن دیکھے ایک دفعہ وہاں ایک صاحب الیکشن لڑ رہے تھے وہ جلسہ کرنے کے لئے جب چوک میں آتے تو جوان ان کے بجائے بھیج پگارا کے نعرے لگاتے انہیں شائد علم تھا کہ انہیں ووٹ نہیں ملیں گے مگر پھر بھی وہ انہیں اپنا منشور بتا رہے ہوتے تھے وہاں صرف پیر پگارا کو ہی ووٹ ملتے تھے۔

جب الیکشن کے نتائج سامنے آئے تو انہیں صرف چار ووٹ ملے جس پر انہوںنے کہا کہ یہ ایک ووٹ تو میرا ہے دوسرا میری بیوی کا تیسرا میری بیٹی کا اور یہ چوتھا ووٹ کس کی بے غیرتی ہے مجھے یو ں نظر آ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کا حال بھی اس بذرگ سیاستدان جیسا ہی ہو گا کیوں کہ یہ جن کے کام کر رہے ہیں وہ یو انہیں ووٹ دیں گے نہیں۔ متوالے ان سے ناراض ہوں گے کہ ووٹ بھی ان سے ہی لو جن کے کام کئے ہیں قارئیں عوام کو کسی سڑک سے غرض نہیں ہوتی انہیں اپنے انفرادی کاموں کی بھی ضرورت ہوتی ہے اگر ہمارے قائدین کا رویہ اب بھی یہ رہا تو،،،،،،،،،؟

Riaz Ahmed Malik

Riaz Ahmed Malik

تحریر : ریاض احمد ملک بوچھال کلاں
03348732994
malikriaz57@gmail,com