فرانس کا سانحہ اور سوشل میڈیا

Social Media

Social Media

تحریر: مریم سمر
پوری دنیا میں کہیں بھی کوئی حادثہ ہو ۔ سوشل میڈیا کافی متحرک ہوجاتا ہے۔ عوامی رائے اور رد عمل فوری طور پر سامنے آتا ہے ۔ منفی اور مثبت دونوں پہلووں پر گرماگرم بحث چھڑ جاتی ہے اور عام لوگ بھی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اظہارخیال کرتے ہیں۔ حال ہی میں فرانس کے شہر پیرس میں ہوئے خوفناک حملوں نے پوری دنیا کو سوگوار کر دیا۔ دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ جب بھی اس قسم کا غیر معمولی واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی جنگ کا جواز بھی تلاش کر لیا جاتا ہے۔

جس طرح نائین الیون کا واقعہ ہوا اور ساتھ ہی امریکہ کو افغانستان میں جنگی جہاز بھجوانے کا بہانہ ہاتھ آگیا ۔ یا پھر کویت ایران ایراق وغیرہ کی جنگ ہو ۔عموما اسی طرح کے کسی نہ کسی چھوٹے سانحہ سے ایک بڑا سانحہ جنم لیتا ہے ۔ اور پھر ایک ایسی جنگ کا آغاز ہوجاتا ہے جس میں بہت سے بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں ۔

ISIS

ISIS

بالکل اسی طرح پیرس پر ہوئے ان حملوں کے بعد فرانس کے شام پر حملوں میں شدت آگئی ہے ۔ بظاہر تو یہ طالبان یا داعش کے خلاف جنگ سمجھی جائے گی ۔ مگر ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس جنگ کی زد میں صرف ظالم ہی آئیں گے ۔ ؟ و ہ ہزاروں معصوم شہری کیا اس جنگ میں بچا لئے جائیں گے جن کا سرے سے اس جنگ سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ۔ طالبان داعش کو پروان چڑھانے میں طاقت ور ممالک اور مفاد پرست حکمرانوں کی پالیساں بجا طور پر نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔

اس ساری صورتحال سے قطع نظر فیس بک نے فرانس کے مظلوم عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے فرانس کی ڈی پی متعارف کروائی ۔ فیس بک کے بہت سے ممبران نے اپنی ڈی پی کو فرانس کے جھنڈے سے رنگین کر دیا ۔مگر اس سلسلہ میں بھی دو متضاد رائے سامنے آئیں ۔ ایک فریق کا موقف یہ تھا کہ یہ سب فرانس اور انسانیت کے ساتھ یکجہتی کی خاطر کیا گیا ہے۔ دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے اور ہم خود کو اس سے الگ نہیں کر سکتے ۔ پیرس کے اس حادثے سے تارکین وطن کے لئے مشکلات میں اضافے کا خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے ۔

Muslim

Muslim

اس لئے ڈی پی لگانے کے حامی یہ پیغام دنیا کو دینا چاہتے تھے کہ وہ انسانیت پر ہونے والے ظلم کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مغرب تک یہ واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ اس مشکل گھڑی میں ان کے ساتھ ہیں۔ اور مسلمان امن پسند قوم ہے ۔ وہ ان حملوں کی مذمت کرتی ہیںاور ان پر افسوس کا اظہار بھی۔ مغربی ممالک کی جو بھی پالیسی مسلمانوں کے خلاف رہی ہو مگر وہا ں کی عوام نے بہت سے مواقع پر مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کی خاطر ریلیاں نکالیں ۔ دہشت گردی کا شکار خواہ کوئی بھی ہو اس کی ہر حال میں مذمت ہونی چاہیے اور اس کا جو بھی طریقہ کو ئی اختیار کرنا چاہے اسے اس پر عمل کرنا چاہیے ۔

جہاں بہت سے فیس بک ممبران نے اپنی ڈی پی فرانس کے جھنڈے سے رنگین کی وہیں دوسری طرف ایک سخت قسم کا رد عمل بھی دیکھنے میں آیا ۔ کچھ شدت پسند مسلمانوں نے تو اس حملے کو ہی جائز قرار دے دیا ۔ اور کچھ نے ڈی پی لگانے والوں کو تمسخر کا نشانہ بنایا اور انھیں فلسطین ، غزہ ۔ برما ، اور کشمیر کے مظلوم مسلمانو ں کے ساتھ ساتھ ۔ کشمیر میں ہونے والے مظالم کی بھی یاد تازہ کرائی کہ اس وقت کیوں نہ فیس بک والوں نے ایسی کوئی آپشن رکھی ۔اگر سوشل میڈیا انسانیت کی بات کرتا ہے تو صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی دہرا معیار کیوں اپنایا گیا ہے ۔

Terrorism

Terrorism

یہ بات تو طے ہے کہ دہشت گردی کی مخالفت ہر سطح پر ہونی چاہیے ۔ اس کے لئے کوئی سا بھی طریقہ اختیار کیا جائے ۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔ مغربی ممالک کے جہاں اور بہت سے دہرے میعار مسلمانوں کے لئے نظر آتے ہیں وہ ایک الگ بحث ہے ۔ مگر اس کے باوجود مسلمان مغربی ممالک میں مسلم ممالک کی نسب زیادہ امن اور سکون کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ بالمقابل ان مسلم ممالک کے کہ جہاں امن و امان بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔

فرانس جرمنی ڈنمارک نے اپنی سرحدیں شامی پناہ گزینوں کے لئے اس وقت کھول دی تھیں جب ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا ۔ دہشت گردی کے ہونے والے یہ حملے ان پناہ گزینوں کے ساتھ ساتھ ان مسلمانوں کے لئے مشکلات میں اضافے کا باعث بن جاتے ہیں ۔ اس لئے ایسے موقع پر یہ ضروری تھا کہ انسانیت کے ناطے کچھ تلخ حقائق کو بھلا کر دنیا کا ساتھ دینے کی کوشش کی جائے نہ کہ خود کو الگ تھلک کرکے ان مسائل میں اضافہ کیا جائے ۔

تحریر: مریم سمر