ہم پر عذاب کیوں آتے ہیں

Justice

Justice

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس
ہم کس قدر بے حس اور غیر مہذب لوگ ہیں جو کسی بھی شخص پر کوئی الزام لگانا تو جانتے ہیں لیکن اس کی تحقیقات کرنا ضروری نہیں سمجھتے. ہم کیا ہمارے جج صاحبان نے عدالتوں میں فیصلوں کی وہ اعلی ترین غیر منصفانہ انصاف کے مثالیں قائم کی ہیں کہ ان پر خدا کا قہر بھی نازل ہو جائے تو کم ہے…سالہا سال سے معصوم لوگوں کی زندگیاں جیل کی سلاخوں کے پیچھے آزادی اور عزت کا سوج ابھرتا ہوا دیکھنے کی خواہش میں ہر روز امید کا سوج ڈوبتے دیکھتی رہتی ہیں . لاکھوں ایسے مقدمات پاکستانی عدالتی بوسیدہ سسٹم کے تحت لاکھوں خاندانوں کا خون کئی کئی دہائیوں سے چوس رہے ہیں لیکن ہمارے وکیل دکاندار بنے شقوں اور پیشیوں کے پکوڑے تل رہے ہیں اور ہمارے جج اپنے منافع کا سودا بیچ رہے ہیں. پھر بھلے سے کوئی بیگناہ آبرومندانہ آزادی کا ارمان دل میں لیے “باعزت بری کیا جاتا ہے ” کے الفاظ سننے سے دو دد چار چار سال پہلے ہی جیل کی کوٹھریوں میں اپنی زندگی کی بازی ہار گیا ہو …چاہے اس کا خاندان وکیلوں کے لارے لبوں پر فیسیں بھر بھر کر تباہ و برباد ہو گیا ہو … اس کے بچے اس کے جیتے جی بے گناہ ہونے کے باوجود مجرم کا ٹھپہ اپنے ماتھے پر لیئے اس معاشرے میں تماشا بن گئے ہوں۔

بیٹوں کی ڈولیاں اٹھنے سے رہ گئی ہوں یا کسی کی بہنوں کی باراتیں اس کے اس ناکردہ گناہ کے جرم میں واپس لوٹ گئی ہوں . کسی وکیل کو اور کسی جج کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا …کیوں کہ ان کے پاس سیاسی ملزمان اور مجرمان کی دو نمبر قید اور سزاوں سے ہی فرصت نہیں ہے جہاں بظاہر لوگوں کے جان مال اور عزتوں سے کھیلنے والے کیس میں روز روشن جیسے ثبوت رکھنے والے عوامی مجرم کو ایک دروازے سے سزا سنا کر جیل بھیجا جاتا ہے تو دوسرے دروازے سے اسے کسی بنگلے کی جانب چار ملازمین دیگر باہر منتقل کر دیا جاتا ہے۔

خدمت میں ساری رنگینیوں کا انتظام کر کے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے . جسے عوام قیدی سمجھ رہی ہوتی ہے وہ کئی سال قید کے نام پر عیاشی اور تفریح کے بعد پہلے سے زیادہ ہٹا کٹا اور بکرا بن کر باہر نظر آٹا ہے اور پھر سے اپنے دانت قانونی طور ہر بیوقوف بنائے گئے عوام کی رگوں میں اتار دیتا ہے …ستر سال سے یہ کھیل تماشے چل رہے ہیں. …ہم عوام بچہ جمہورہ بنے اس قانونی ڈگڈگی پر نچائے جا رہے ہیں ..معصوم افراد ہمارے جیل کی کال کوٹھریوں میں گمنام موت مارے جا رہے ہیں اور بدنام زمانہ اشرافیہ اور سیاستدان مجرم ہوتے ہوئے بھی جیل کے نام پر ہنی مون ٹرپ منا کر زندہ سلامت دندناتے ہوئے باہر آ جاتے ہیں …افسوس صد افسوس نہ ان میں سے کسی کو پھانسی ہوتی ہے نہ ہی قید بامشقت جہاں عام قیدی انہیں اپنی آنکھوں سے پتھر توڑتے ہوئے چٹائیاں بنتے ہوئے دیکھتے ..جیل کے فرش پر سوتے اور دال روٹی کھاتے ہوئے دیکھتے تو ان کے دلوں میں بھی قانون اور منصفین پر یقین اور اعتماد پیدا ہوتا …. لیکن ہمیں ہر بار نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی یہ آب ذر سے لکھی بات یاد آ ہی جاتی ہے کہ تم سے پہلے قومیں اسلیئے تباہ و برباد کر دی جاتی تھیں کہ ان میں جب کوئی صاحب حیثیت آدمی جرم کرتا تو معاف کر دیا جاتا اور اگر کوئی غریب جرم کرتا تو سزا پاتا….

ہمارے منصفین گلے گلے تک ان بے گناہوں کے لہو میں ڈوبے ہوئے ہیں جہاں آج ایک اور پندرہ سال کی عمر میں بیوہ ہو جانے والی رانی اپنی زندگی کے بیس سال کال کوٹھری میں گزار کر باعزت بری کر دی گئی. ….اب کون ان طاقتور منصفین سے پوچھے گا کہ جج صاحب میری آزادی اور بے گناہی کے اعلان کیساتھ جیل میں میرے ساتھ سسک سسک کر مر جانے والے باپ کی زندگی بھی لوٹا دو …. جج صاحب میرے جواں سال بھائی کی جیل میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر گزاری ہوئی جوانی بھی لوٹا دو …. جج صاحب میرے ماتھے پر لگے اس قاتلہ نام کی مہر کیساتھ میری معصومیت عزت نفس اور اور بھری جوانی کے وہ دن بھی واپس لوٹا دو …… لیکن ہمارے معاشرے میں ہر روز کسی نہ کسی بہانے بیکار اور بے مصرف اشیاء پر ہزاروں روپے خرچ کرنے والے لاکھوں لوگوں کے ذہن میں کبھی ایک بار بھی یہ بات آئی ہے کہ ہر روز نہیں تو سال میں اپنے خوشی کے دو چار مواقع ہر ہی سہی کسی جیل کا دورہ کیا جائے تاکہ آئندہ کوئی بیگناہ رانی چار سو روپے کے جرمانے یا چھ سو ہزار روپے کا چالان بھرنے کے انتظار میں جیل کی کوٹھری میں اپنی زندگی تباہ ہونے کا نوحہ نہ کر سکے …. پھر بھی ہم پوچھتے ہیں کہ ہم پر عذاب کیوں آتے ہیں ? کیونکہ ہمیں اپنے ارد گرد سے آتی ہوئی سسککئی اور آہیں سنائی نہیں دیتیں ………….

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس