پنجاب کا 1970 ارب سے زائد حجم کا بجٹ پیش، تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ

Punjab Budget

Punjab Budget

لاہور (جیوڈیسک) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے مالی سال 18 ۔ 2017ء کا بجٹ پیش کیا۔ ان کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن نے بھرپور شورشرابا کیا اور شیم شیم اور جھوٹ جھوٹ کے نعرے لگائے۔ اپوزیشن ارکان سیاہ پٹیاں باندھ کر اجلاس میں شریک ہوئے۔

اپوزیشن ارکان نے بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اچھال دیں۔ اپنی بجٹ تقریر کے دوران ڈاکٹر عائشہ نے بتایا کہ موجودہ حکومت کیلئے پانچواں بجٹ پیش کرنا فخر کی بات ہے، تمام تر مسائل کے باوجود متوازن بجٹ تیار کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر عائشہ نے اپنے خطاب کے دوران ملک کی معاشی حالت کی بہتری پر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی بھرپور تعریف کی۔ انہوں نے بتایا کہ سی پیک کے تحت بجلی کے کئی منصوبے شروع ہو چکے ہیں، رواں برس پنجاب حکومت نے 220 ارب روپے کی بچت کی ہے اور پنجاب میں مقامی حکومتوں کا جامع نظام رائج کر دیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام ہی پاکستان کا اصل سرمایہ ہیں، تمام وسائل کا رخ عام آدمی کی جانب موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پنجاب حکومت مؤثر حکمت عملی کے تحت آگے بڑھ رہی ہے، لیپ ٹاپس کی فراہمی، سکل ڈویلپمنٹ پروگرام اور ہیلتھ یونٹس اس کی واضح مثال ہیں، تعلیم اور صحت ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے اور ضلعی ایجوکیشن اور ہیلتھ اتھارٹی کے قیام سے عوام کو فیصلہ سازی میں شامل کیا گیا ہے۔

تجاویز، اہداف، اعلانات
وزیر خزانہ نے پنجاب کے مالی سال 2018۔2017ء کے بجٹ کی جو بنیادی خصوصیات، تجاویز اور اہداف پیش کئے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

1۔ پنجاب کے بجٹ کا کل حجم 1970 ارب روپے ہے۔
2۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام کیلئے 635 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
3۔ زرعی شعبے کے لئے 36 ارب 30 کروڑ روپے مقرر کئے گئے ہیں۔
4۔ وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کے لئے 49 کروڑ 19 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
5۔ چیف منسٹر انسپکشن ٹیم کیلئے 6 کروڑ 72 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
6۔ کمیونیکیشن اور وک کے لئے 122 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
7۔ امداد باہمی پروگرام پر ایک ارب 18 کروڑ روپے خرچ ہونگے۔
8۔ سکول ایجوکیشن کیلئے 68 ارب 65 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
9۔ ہائر ایجوکیشن کے لئے 44 ارب 61 کروڑ روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔
10۔ تحفظ ماحولیات کے لئے 99 کروڑ 36 لاکھ رکھے گئے ہیں۔
11۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے لئے 1 ارب 8 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
12۔ محکمہ خوراک کے لئے 278 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
13۔ املاک، وائلڈ لائف اور فشریز کے لئے 8 ارب 74 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
14۔ گورنر سیکرٹریٹ کے لئے 32 کروڑ 69 لاکھ روپے مختص ک۴ے گئے ہیں۔
15۔ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کے لئے 51 ارب 33 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
16۔ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن کے لئے 108 ارب 63 کروڑ رکھے گئے ہیں۔
17۔ محکمہ داخلہ کے لئے 120 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
18۔ ہاؤسنگ، اربن ڈویلپمنٹ اور پپبلک ہیلتھ اینجینئرنگ کے لئے 87 ارب 36 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
19۔ آبپاشی اور توانائی کے لئے 59 ارب 17 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
20۔ اقلیتی امور کے لئے ایک ارب 132 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
21۔ لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ کیلئے 19 ارب 43 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
22۔ لوکل گورنمنٹ اور دیہی ترقی کے لئے 9 ارب 29 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
23۔ صوبائی اسمبلی کے لئے ایک ارب 41 کروڑ رکھے گئے ہیں۔
24۔ سپیشل ایجوکیشن کیلئے ایک ارب 29 کروڑ رکھے گئے ہیں۔
25۔ کھیل کے لئے 1 ارب 96 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
26۔ ٹرانسپورٹ کے لئے 115 ارب 11 کروڑ رکھے گئے ہیں۔
27۔ شعبہ توانائی کے لئے 8 ارب 77 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
28۔ خواتین کی ترقی کے لئے 95 کروڑ 37 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔
29۔ نجاب کے سکولوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی شرح 93 فیصد ہے۔
1630۔ پسماندہ اضلاع میں لڑکیوں کی تعلیم کیلئے 6 ارب 50 کروڑ روپے لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
31۔ سکولوں کی تعمیر و مرمت کیلئے 28 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
32۔ مجموعی طور پر 3421 سکولوں میں 13 ارب روپے کی لاگت سے 6519 اضافی کمرے تعمیر کئے جا رہے ہیں۔
33۔ آئندہ سال سکولوں میں دیگر سہولیات کی فراہمی کیلئے 4 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
34۔ دس ہزار سکولوں کو خادم پنجاب پروگرام کے تحت بتدریج شمسی توانائی پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
35۔ سرکاری خرچ پر طلباء کو نجی سکولوں میں تعلیم دلوانے کیلئے 16 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔
36۔ ایجوکیشن کا ٹوٹل بجٹ 336 ارب روپے ہے۔
37۔ پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ کے تحت 11 ارب روپے مستحق طلباء کو دیئے جا چکے ہیں۔
38۔ ترقیاتی و غیرترقیاتی شعبہ صحت پر ترقیاتی اور غیرترقیاتی اخراجات 227 ارب روپے ہونگے۔
39۔ سڑکوں کی تعمیر و مرمت پر مجموعی اخراجات 214 ارب روپے ہونگے۔
40۔ امن و امان کے لئے 149 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جن میں سے پولیس کے لئے 97 ارب روپے، عدلیہ کے لئے 20 ارب اور جیل خانہ جات کے لئے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
41۔ غیررسمی تعلیمی پروگرام سے مجموعی طور پر 3 لاکھ اساتذہ مستفید ہونگے۔
42۔ صحت عامہ کیلئے 263 ارب 22 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
43۔ ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی کمی کو پورا کرنے کیلئے 40 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
44۔ بجٹ میں صحت کے شعبے کیلئے 15 اعشاریہ 4 فیصد حصہ مختص کیا گیا ہے۔
45۔ پرائمری اور سیکنڈری ہیلتھ کیئر کیلئے 112 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
46۔ ضلعی ہیلتھ اتھارٹی کیلئے 63 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔
47۔ صوبے بھر کیلئے ڈی ایچ کیو اور ٹی ایچ کیو کی اپ گریڈیشن کیلئے 20 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
48۔ پنجاب میں ضلعی سطح کے ہسپتالوں میں 20 اضافی سی ٹی سکین مشینیں فراہم کی جائیں گی۔
49۔ جنوبی پنجاب میں موبائل ہیلتھ یونٹس کی فراہمی کیلئے ایک ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے دوردراز علاقوں میں مزید 100 موبائل ہیلتھ یونٹ فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
50۔ ساڑھے 4 ارب روپے کی لاگت سے مری میں جدید ہسپتال کی تعمیر کا منصوبہ بھی بجٹ میں شامل ہے۔
51۔ ہیپاٹائٹس پروگرام کیلئے 3 ارب 50 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
52۔ بھکر اور اٹک میں دو نئے میڈیکل کالجز تعمیر کئے جائیں گے۔
53۔ آئندہ سال پنجاب کے مختلف ہسپتالوں میں 2 ہزار مزید بستر فراہم کئے جائیں گے۔
54۔ ڈائلسیز کی سہولت کیلئے 70 کروڑ روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔
55۔ کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ 17 ارب روپے کی لاگت سے رواں سال مکمل ہو جائیگا۔
56۔ ہیلتھ انشورنس پروگرام کیلئے 2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
57۔ صاف پانی میگا پروجیکٹ کیلئے 25 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
58۔ تیس کروڑ روپے کی لاگت سے پنجاب میں دستی نلکے لگائے جائیں گے۔
59۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی توسیعی پروگرام کیلئے 2 ارب 70 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
60۔ زرعی شعبے کیلئے مجموعی طور پر 140 ارب 50 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
61۔ چھوٹے کاشتکاروں کو 11 ارب 50 کروڑ روپے کے بلاسود قرضے دیئے جا چکے ہیں۔
62۔ زرعی ٹیوب ویلوں کیلئے 15 ارب روپے مختص کئے جا رہے ہیں۔
63۔ گزشتہ سال پنجاب میں گندم کی 22 اعشاریہ 2 ملین ٹن ریکارڈ پیداوار ہوئی۔ رواں سال بھی گندم کی قیمت 1300 روپے فی من برقرار رہے گی۔
64۔ آبپاشی پروگرام کیلئے 41 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
65۔ جناح بیراج کی بحالی کیلئے 12 ارب روپے خرچ کئے گئے ہیں۔
66۔ اڑسٹھ ارب روپے کی لاگت سے 6698 کلو میٹر شاہرات کی تعمیر وتوسیع کی گئی ہے۔
67۔ آئندہ سال خادم پنجاب رورل روڈ پروگرام کیلئے 17 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
68۔ لائیو سٹاک پروگرام کیلئے 19 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
69۔ مستحق خواتین کو مویشیوں کی فراہمی کیلئے ایک ارب 66 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔
70۔ صنعتی شعبے کی ترقی کیلئے 15 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
71۔ سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کیلئے 3 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
72۔ قائد اعظم اپیرل پارک کے قیام کیلئے 4 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
73۔ وزیر اعلیٰ خود روزگار سکیم کیلئے 2 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
74۔ امن و امان اور انصاف کی فراہمی کیلئے 198 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
75۔ پنجاب سیف سٹی پراجیکٹ کیلئے 45 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
76۔ آئندہ مالی سال میں فیصل آباد میں میٹرو بس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔
77۔ لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین کا کام 70 فیصد مکمل ہو چکا ہے۔
78۔ پنجاب میں انفراسٹرکچر کی تعمیر و بحالی کیلئے 90 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
79۔ اورنج کیپ سکیم کیلئے 35 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
80۔ اورنج کیپ سکیم کے تحت 50 ہزار بے روزگار نوجوانوں کو گاڑیاں دی جائیں گی۔
81۔ امور نوجوانان کیلئے 8 ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے۔
82۔ دس ہزار طلباء کو روزگار کی فراہمی کیلئے 40 ای سینٹرز قائم کئے جائیں گے۔
83۔ جنوبی پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے 213 ارب روپے مختص کئے جائیں گے۔
84۔ سماجی پروگرام کیلئے 158 ارب روپے مختص کئے جائیں گے۔
85۔ مزدوروں کی کم از کم تنخواہ 15 ہزار روپے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
86۔ ریٹائر سرکاری ملازمین کی پنشن کی شرح 10 فیصد سے بڑھائی جا رہی ہے۔
87۔ سماجی پروگرام کیلئے 158 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
88۔ اقلیتوں کے حقوق، تحفظ و بہبود کیلئے 116 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
89۔ مزدور اور ڈیلی ویجز پانے والوں کی کم از کم ماہانہ اجرت 15 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔
90۔ جی ایس ٹی کی شرح سے 16 سے کم کر کے 5 فیصد کر دی گئی ہے۔
91۔ پچیس ارب روپے کے سرمایہ کاری بانڈز جاری کئے جائیں گے۔
92۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا جائیگا۔

وزیر خزانہ پنجاب ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے گزشتہ مالی سال کا ضمنی بجٹ بھی ایوان میں پیش کر دیا۔ وزیر خزانہ نے آئندہ مالی سال کی بجٹ تقریر کے بعد فنانس بل بھی پیش کر دیا۔ پنجاب اسمبلی کا بجٹ اجلاس اب پیر کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔